پاکستان ریلوے کا ایم ایل ون منصوبہ
یہ منصوبہ تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔
پاکستان ریلوے کے بارے میں ہم جنرل ایوب کے دور سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ریلوے کو ڈبل ٹریک بنا کر جلد ہی جدید کیا جائے گا گوکہ برطانیہ سرکار نے پورے برصغیر میں ریلوے کا جال بچھا دیا تھا اور اس طرح 1860-61 میں کوٹری تا کراچی کیماڑی تک ریلوے لائن بچھا دی تھی، اور کراچی تا لودھراں اسٹیشن تک بھی ڈبل ٹریک کردیا گیا تھا پھر ایوب حکومت نے خانیوال تا لاہور الیکٹرک ٹرین بھی چلا دی تھی، جو کئی برس تک چلتی رہی بعدازاں جو بھی حکومتیں آئیں ریلوے کو ترقی دینے کا منصوبہ بناتی رہیں اور اس طرح پچھلے 20 برسوں میں ریلوے ڈبل ٹریک لودھراں سے ساہیوال تک ڈبل ٹریک مکمل ہو گیا اور اب اسے ساہیوال تک لاہور راولپنڈی اور پشاور کینٹ تک لے جانا تھا مگر ایسا ابھی تک یعنی اگست 2020 تک یہ منصوبہ نامکمل ہے،اس پر کتنے ارب روپیہ خرچ ہوا، کتنی کرپشن ہوئی کوئی پتا ہی نہ چل سکا۔
اب پی ٹی آئی حکومت اور اس سے قبل نواز شریف کی حکومت میں چین سے معاہدے کے تحت سی پیک کا منصوبہ طے کیا گیا جس میں ریلوے میں ایم ایل ون کو بھی شامل کرکے کراچی تا پشاور تک ڈبل ٹریک کرنا بھی شامل ہو گیا تھا،سو اب کام چل پڑے گا۔
اس سلسلے میں قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی (ایکنک) نے کراچی تا پشاور تک ریلوے لائن منصوبہ ایم ایل ون سمیت 1252 ارب روپے مالیت کے چار میگا منصوبوں کی منظوری دے دی ہے یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہوگا جس کی لاگت 11 کھرب پاکستانی روپے ہوگی۔ جب کہ کراچی تا پشاور میل لائن کو اپ گریڈ کرنا ہوگا اس کی لاگت 6 ارب 80 کروڑ 67 لاکھ 83 ہزار ڈالر ہوگی یعنی پاکستانی روپیہ 1137 ارب ہوگا جیساکہ پہلے عرض کیا ہے کہ یہ سی پیک کا حصہ ہوگا۔
اس منصوبے میں حویلیاں کے قریب ڈرائی پورٹ بھی بنایا جائے گا۔ یہ منصوبہ تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا جس کے تحت ریل گاڑیوں کی رفتار 105-110 سے بڑھ کر 165 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی اس طرح یک طرفہ یا ایک سمت سے یومیہ 34 ٹرینوں کے بجائے 137 تا 171 ٹرینیں یومیہ چلنا شروع ہو جائیں گی۔ جب کہ معاہدے کے تحت کراچی تا پشاور 2655 کلومیٹر ٹریک یا پٹری کو اپ گریڈ کیا جائے گا اس سلسلے میں وزارت ریلوے اور 7 ڈویژن کے اعلیٰ حکام اور انجینئرز بھی چین کے انجینئرنگ مشینوں کے ساتھ اپنا بھی حصہ ڈالیں گے۔
یہ سات ڈویژن کیا ہیں یہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ (1)۔ کراچی ڈویژن ٹنڈو آدم تک۔ (2)۔سکھر ڈویژن خانپور تک۔ (3)۔ملتان ڈویژن ساہیوال تک۔ (4)۔ لاہور ڈویژن لالہ موسیٰ تک۔ (5)۔ راولپنڈی ڈویژن اٹک تک اور (6)۔ پشاور ڈویژن لنڈی کوتل تک میل لائن پر موجود ہے جس کی اپ گریڈیشن ہوگی جب کہ 7 واں ڈویژن کوئٹہ بلوچستان کا حصہ ہے جس کا اس میں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ یہ منصوبہ ایکنک نے 29 اگست 2019 کو اس کی منظوری دی تھی اور اب 5 اگست 2020 کو ایک اہم اجلاس جس کی صدارت مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کی اس کی منظوری دے دی جب کہ اس سے قبل سی پیک کا سربراہ ریلوے کے انتہائی ایماندار افسر اشفاق خٹک صاحب تھے جنھیں وزیر ریلوے شیخ رشید نے فارغ کردیا تھا اور اب نئے سرے سے اس کا باقاعدہ چیئرمین عاصم سلیم باجوہ ہیں جو یہ کام مکمل کروائیں گے جب کہ دوسری جانب وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر بھی ریلوے کے انفرااسٹرکچر میں بہتری لائیں گے اور ریلوے کا قدیم ترین والٹن ٹریننگ اسکول کو بھی نئے سرے سے اپ گریڈ کیا جائے گا جب کہ دوسرے اور تیسرے پروگرام میں ریلوے سگنل سسٹم، ریلوے پھاٹکوں (گیٹ) کا خاتمہ ریلوے لائنوں کے ساتھ باڑ لگانا بھی شامل ہے۔
امید ہے کہ ریلوے ترقی کی طرف جائے گی اور اپنے 5 سالہ منصوبے کم ازکم مدت میں پورا کرکے ریلوے کو بھی ترقی اور تیز رفتار ٹرینوں کی صف میں شامل کرے گی ویسے تو ہمارے ریلوے وزیر شیخ رشید احمد کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا جس کی رقم 11 کھرب روپے کی لاگت سے کثیر رقم خرچ کرکے بنایا جا رہا ہے انھوں نے نوید دی ہے کہ انشاء اللہ یہ منصوبہ ہم 2023 کے آخر تک مکمل کرلیں گے جس کے تحت مسافروں کو کراچی تا لاہور، راولپنڈی تا پشاور تک گھنٹوں میں پہنچایا جائے گا۔
اس سلسلے میں جلد ہی انٹرنیشنل ٹینڈر جاری کردیے جائیں گے جو بھی کمپنیاں اس میں حصہ لینا چاہیں وہ چین کی کمپنی کا حصہ بن کر اس میں شامل ہو سکتی ہیں اور مل کر ایم ایل ون کو کامیاب بنائیں۔ جس کے تحت خودکار سگنل سسٹم ریلوے گیٹ انڈرپاسز کا خاتمہ اور تیز رفتار ٹرینیں پاکستان ریلوے کے ٹریک پر دوڑیں گی۔
مسافروں کی سہولت کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور انٹرنیشنل بنیادوں پر ٹرینوں کو چلایا جائے گا اس بارے میں وزیر ریلوے نے یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ کراچی سے حیدرآباد کا سفر 1 گھنٹے میں جب کہ ملتان تا لاہور 2 گھنٹے میں، لاہور تا راولپنڈی 2 گھنٹے تیس منٹ میں اور کراچی تا لاہور 7 گھنٹے میں جب کہ کراچی تا راولپنڈی 10 گھنٹے میں لوگ اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ سکیں گے یہ بڑی خوش خبری ہے۔
ساتھ ہی 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار۔ تمام پھاٹکوں کا خاتمہ، تمام حادثات کا خاتمہ، تیز رفتار فریٹ (مال گاڑی) مضبوط ملکی معیشت کے لیے کارآمد۔ 1872 کلومیٹر کراچی تا پشاور 12 گھنٹے میں نیا ٹریک نئی سہولیات ٹریک کے دونوں اطراف پر کنکریٹ فینسنگ اور ٹریک کی طرف لوگوں کی آمد و رفت بند ہوگی۔ سوائے پل یا برج کے ذریعے آنا اور جانا شامل ہوگا جب کہ روزگار کے مواقع ڈیڑھ سے دو لاکھ ملازمین کو روزگار اچھی مراعات کے ساتھ دیا جائے گا۔ بڑے اچھے اقدامات ہیں ہم اپنی زندگی میں ریلوے کو تیز رفتار دیکھنا چاہتے ہیں، امید ہے ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔ ریل چلتی رہے گی زندگی گزرتی رہے گی رونق لگی رہے گی۔