استحصال کشمیر۔۔۔ پاکستان کو جارحانہ سفارتکاری کرنا ہوگی

ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو


کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی اور لاک ڈاؤن کو ایک سال ہوگیا،اس پر دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے: ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو

گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت غیر آئینی طور پرکشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرکے وہاں کرفیو لگا دیا، مواصلات کا نظام بند کر دیا، کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر دیا، مظالم کی انسانیت سوز داستانیں رقم کی اور یہ افسوسناک سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔

اس تاریک دن کو ایک سال مکمل ہونے پر حکومت پاکستان نے سرکاری سطح پر 'یوم استحصال کشمیر' منانے کا اعلان کیا جس کے بعد 5 اگست کو پاکستان اور لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف یعنی آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یہ دن منایا گیا اور بھارت کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ حکومت پاکستان نے اس موقع پر پاکستان کا نیا سرکاری نقشہ جاری کیا جس میں مقبوضہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کیا گیا۔

اس کے علاوہ کشمیر ہائی وے کا نام تبدیل کرکے سرینگر ہائی وے رکھ دیا گیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب بھی کیا جبکہ پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے حوالے سے ہنگامی اجلاس بھی بلایا۔ ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

دیوان غلام محی الدین

(رکن آزاد کشمیر اسمبلی ورہنما پاکستان تحریک انصاف)

مقبوضہ کشمیر کوپاکستان کے نقشے میں شامل کرنا ہماری حکومت کا تاریخی اقدام ہے۔آج سے پہلے کشمیر بنے گا پاکستان محض ایک خواب تھا مگر اب عملی طور پر اس حوالے سے کام کا آغاز ہوگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو جس بہترین انداز میں عالمی فورمز پر اٹھایا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح 5 اگست کو 'یوم استحصال کشمیر' منا کر نہ صرف کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا بلکہ دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بھی بے نقاب کیا۔ ہم اسی طرح بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کریں گے۔

ایک اور بڑی کامیابی یہ ہے پاکستان کی درخواست پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں ہنگامی اجلاس بلایا گیا اور وزیراعظم نے اس کا خیر مقدم بھی کیا۔ یہ بات تو اب واضح ہے کہ کشمیر کی آزادی کو مودی سمیت پورا بھارت نہیں روک سکتا۔ پاکستان شروع دن سے ہی کشمیریوں کے ساتھ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرم ہے اور کشمیر میں مظالم ڈھائے جا رہا ہے، ہم نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اب کشمیر پرظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کشمیر اسمبلی سے منظوری کے بغیر بھارت، کشمیر کی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتا لہٰذا آرٹیکل 370 اور 35(A)غیر قانونی ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کشمیری آج بھی پاکستان کے ساتھ ہیں، اسی لیے بھارت ان سے تمام حقوق چھین رہا ہے۔

47 ء سے لے کر اب تک کے مظالم ایک طرف مگر اس نے گزشتہ ایک برس میں کشمیر میں جو کیا ہے وہ بدترین ہے۔ کشمیری گزشتہ ایک برس سے لاک ڈاؤن میں ہیں، وہاں مظالم کی بدترین داستانیں رقم کی جارہی ہیں مگر دنیا خاموش ہے۔ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ ہے اور بھارت، اسرائیلی فارمولا پر کشمیر میں کام کر رہا ہے۔ جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا گیا اور یہودیوں نے قبضہ کر لیا، اسی طرح کشمیر میں بھی ہورہا ہے، اس پر دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے۔ ہماری فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں لہٰذا ہمیں اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ہر حکومت نے کشمیر کے حوالے سے کام کیا اور عوام میں بھی اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔

کشمیر کی آزادی کیلئے ہم آخری حد تک جائیں گے۔ ہم امن چاہتے ہیں لیکن افواج پاکستان اور عوام کو ہر وقت جنگ کیلئے تیار رہنا چاہیے تاکہ اگر بھارت اپنے جنگی جنون کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرے تو اس کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ بھارت معاشی طور پر مضبوط ہے اور اس کے ساتھ دنیا کے معاشی مفادات وابستہ ہیں اسی لیے دنیا اس پر سختی نہیں کر رہی۔ ہمیں اپنی معیشت پر توجہ دینی ہے اور ملک کو معاشی طاقت بنانا ہے۔ جس دن ہم معاشی طور پر مستحکم ہوگئے اس دن دنیا میں ہماری آواز کی قدر ہوگی۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ نگار )

جب کشمیر کا ذکر آتا ہے تو ذہن میں ایک خوبصورت وادی کا تصور بنتا ہے مگر اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے یہ وادی بدقسمتی کا شکار رہا ہے۔ 1947ء سے سازشی طور پر کشمیر کیلئے مشکل صورتحال کا آغاز اس وقت ہوا جب میں بھارتی حکومت اور مہاراجہ ہری سنگھ کے درمیان Instrument of Accession معاہدہ ہوا۔ بھارت نے ا ب اس کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کی شق نمبر 7 ہے کہ کسی بھی طریقے سے بھارتی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ کشمیر کی حیثیت ، جغرافیہ یا آبادیاتی سٹرکچر تبدیل کر سکے۔ بھارت کو صرف دفاع، مواصلات اور امور خارجہ کا اختیار دیا گیا ہے۔

یہ سازش تھی اور اس کا لنک ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے گورداسپور کو پاکستان میں شامل نہ کرنے سے ہے۔ گورداسپو پہلے پاکستان کو دیا گیا تھا کیونکہ وہاں مسلم اکثریت زیادہ تھی اور وہاں تین دن تک پاکستان کا جھنڈا لہراتا رہا ۔ یہی راستہ تھا جو دہلی سے کشمیر کو جاتا تھا مگر سازش کے تحت اسے پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا۔ کشمیر میں جو کچھ بھی ہوا یا ہورہا ہے یہ بھارتی رہنماؤں کی اخلاقی پستی کا نتیجہ ہے۔

بھارت Instrument of Accession کو مانتا ہے لہٰذا اس کے برخلاف بھارتی اقدامات غیر قانونی ہیں۔ اس حوالے سے آرٹیکل 370 غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔میرے نزدیک بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے بڑا جرم کیا ہے۔ کشمیر صرف پاکستان یا بھارت کا معاملہ نہیں بلکہ چین بھی اس میں فریق ہے لہٰذا بھارت نے آرٹیکل 370 سے پاکستان ہی نہیں بلکہ چین کو بھی للکارا ہے۔

کشمیر شروع سے ہی مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ 1901ء کے برطانوی سروے کے مطابق کشمیر میں76 فیصد مسلم جبکہ 23 فیصد ہندو تھے اور سکھ حکومت ہونے کے باوجود سکھوں کی آبادی صرف 0.86 فیصد تھی۔ اسی طرح 1911ء کی برطانوی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 76 فیصد تھی جبکہ ہندو صرف 23 فیصد تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیر صرف حکمرانوں کی بنیاد پر ہی مسلم نہیں رہا بلکہ آبادی کے لحاظ سے بھی مسلم علاقہ ہے۔

برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریت ہونے کی وجہ سے کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اس میں کشمیر کی اندرونی سیاست کا بھی عمل دخل ہے۔ آزادی کے وقت وہاں دو سیاسی جماعتیں تھی، ایک نیشنل کانفرنس تھی اور دوسری مسلم کانفرنس۔ اس وقت مسلم کانفرنس پاکستان کے ساتھ تھی مگر نیشنل کانفرنس نے پاکستان کے ساتھ شمولیت پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔ اس طرح وہاں کی قیادت تقسیم ہوگئی اور نقصان پورے کشمیر کا ہوا۔ حالیہ عالمی سروے کے مطابق وادی کشمیر میں رہنے والے 86 فیصدلوگ پاکستان کے ساتھ ہیں، اسی لیے بھارت وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتا ہے اور وہاں ہندو آباد کر رہا ہے۔

پاکستان آج بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ نے جب پلیب سائٹ کمشنر تعینات کیا تو پہلی مطالبہ ہی یہی تھا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سے اپنی اپنی فوج نکالیں۔ بھارتی فوج غیر قانونی طور پر کشمیر میں موجود ہے کیونکہ 25 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج کشمیر میں آئی جبکہ ' Instrument of Accession ' 26 اکتوبر کو ہوا تھا۔اس کا مطلب ہے کہ بھارت کا وہاں پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ کی قرارداد پر اس وقت بات کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس میں یہ لکھا تھا کہ فزیکل عملدرآمد نہیں کریں گے۔

اس کے بعد ہم نے مختلف فارمولے پیش کر دیے۔ چناب فارمولا آگیا، سجاد لون نے کہا کہ ہندو اکثریت والے علاقے ہندوؤں کو دے دیے جائیں۔ اس پر دنیا نے کہا کہ آپ کشمیر کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اقتدار میں آئے توا نہوں نے ایک اور فارمولا پیش کر دیا۔ میرے نزدیک ہم تاریخی طور پر کشمیر کا مقدمہ درست طریقے سے نہیں لڑ سکے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر، تمام کشمیریوں کا مسئلہ ہے لہٰذا جب ہم ان کو تقسیم کرکے کوئی فارمولا دیں گے تو دنیا میں ہمیں پذیرائی نہیں ملے گی۔ جب محبوبہ مفتی نے اسمبلی میں قرارداد منظور کی کہ کشمیر بھارت کا حصہ بننا چاہیے تو اس پر اقوام متحدہ کی قرارداد آگئی کہ کشمیر متازعہ علاقہ ہے، اسے نہ تو بھارت اور نہ ہی پاکستان میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس قراداد کو آگے لے کر چلنا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جو رپورٹ آئی ہے ہم اسے بھی عالمی سطح پر نہیں اٹھا سکے۔ اب اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ آئی ہے جس میں کہا گیا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔

اگر یہ تمام رپورٹس ہمارے بارے میں ہوتی تو بھارت دنیا بھر میں اس پر پراپیگنڈہ کرتا اور ان کا میڈیا شور مچاتا مگرہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ دنیا عالمی اداروں کی رپورٹس کو مانتی ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے عالمی اداروں، عالمی میڈیا اور حکومتوں کا جو موقف ہے، ہمیں وہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔ اس کے لیے ہمیں اپنے سفارتخانوں کو متحرک کرنا ہوگا اور وہاں مستقل کشمیر ڈیسک قائم کرنا ہوں گے۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جنگ کریں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ جنگ حل نہیں ہے، کیونکہ ایک بار جنگ لگ گئی تو یہ اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

بھارت تھرڈ ڈائمنشنل وار کر رہا ہے، ہمیں بھی کرنی چاہیے۔ کشمیر کے حوالے سے ہمیں دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ کشمیر کی جدوجہد نوجوانوں کی ہے جو برہان وانی کے بعد شدت اختیار کر گئی جسے بہت سارے عالمی اداروں نے تسلیم کیا۔ دنیا کو مسئلہ کشمیر کی حقیقت سمجھانے کیلئے عالمی اداروں کی رپورٹس کو ان کے سامنے رکھنا ہوگا۔ کشمیر کے حوالے سے اسلامی ممالک کا کردار افسوسناک ہے۔ اگرچہ 'او آئی سی' نے قرارداد تو منظور کی مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ ایسے اسلامی ممالک جن کے بھارت کے ساتھ بڑے تجارتی تعلقات ہیں، انہیں چاہیے کہ بھارت پر دباؤ ڈالیں اور کشمیریوں پر مظالم ختم کروائیں۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ

(ماہر امور خارجہ)

5 اگست 2019ء کو بھارت کی موجودہ حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے ذریعے کشمیر کی حیثیت تبدیل کی اور اسے اپنے وفاق میں شامل کرلیا۔ بھارت کے اس غیر آئینی اقدام کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے اور اس دوران بھارت نے کشمیر میں ظلم و بربریت کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کی۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔ مودی ہندوتوا کی سوچ پر آگے بڑھ رہا ہے اور کسی بھی قرارداد کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ ہم نے کس طرح مودی کو اس سے روکنا ہے اور اپنی شہ رگ کشمیر کو آزاد کروانا ہے۔

کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد بھارت، کشمیریوں کا معاشی استحصال بھی کر رہا ہے، اب کشمیر کے وسائل سے مقامی آبادی کو محروم کرکے ٹینڈر کے ذریعے مختلف کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جارہے ہیں۔ کشمیر کے دریاؤں سے نکلنے والے قیمتی پتھر اورریت مقامی لوگوں کے روزگار کا ذریعہ تھا، اب یہ حق بھی ان سے چھینا جارہا ہے۔ اس وقت 70 فیصد دریائی وسائل سے مقامی لوگ محروم ہوچکے ہیں جبکہ دیگر علاقوں سے آنے والی کمپنیاں ان وسائل سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

ڈومیسائل کے ذریعے ہندو پنڈت کشمیر میںآباد کیے جارہے ہیں، وہاں ہندو آبادیاں بنائی جارہی ہیں، اس سے کشمیریوں کے روزگار پر بھی اثر پڑے گا۔ مودی ہر طریقے سے ان کا استحصال کر رہا ہے اور ان کی آواز کو ظلم و بربریت کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بھارت کے اس ظلم کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔

کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈہ پر ہے اور ایک متنازعہ مسئلہ ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر کا بارہا ذکر ہونا اچھا ہے مگر ہم ابھی تک دنیا کو موثر انداز میں نہیں بتاسکے کہ یہ مسئلہ کیا ہے بلکہ دنیا اسے بھارت کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین میں کافی مماثلت ہے۔ جس طرح فلسطین میں ہوا اور وہاں منصوبہ بندی کے ساتھ آہستہ آہستہ پورے فلسطین پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا، اسی طرح کا منصوبہ کشمیر میں بھی چل رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ عالمی برادری کھڑی ہے ، دنیا کے کچھ ممالک ان کے ساتھ ہیں ،اس میں غیر مسلم ممالک میں بھی شامل ہیں جو اسرائیل اور امریکا کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ کتنے ممالک ہیں جو کشمیر کے مسئلے پر بھارت کی مذمت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے کشمیر میں ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی رکن بننے کیلئے بھارت کو 193 ممالک میں سے 184 نے ووٹ دیا جو الارمنگ ہے، آج تک کسی بھی ملک نے بھارت کے ظلم و ستم کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی اس پر کوئی پابندیاں لگائی گئیں یا رکاوٹ کھڑی کی کہ وہ اپنے ظالمانہ اقدامات سے باز رہے۔میرے نزدیک امریکا کی جنگ میں شامل ہونے سے نہ صرف ہمیں بلکہ کشمیر کاز کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ بھارت نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ مسئلہ کشمیر کو دہشت گردی سے جوڑ دیا اور دنیا کو اس انداز میں پیش کیا جسے دنیا نے تسلیم کر لیا۔ میرے نزدیک یہ ہماری ناکامی ہے۔ مودی اپنے ایجنڈے پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

اس نے کشمیر کے حوالے سے جو کہا وہ کر رہا ہے، بابری مسجد کی جگہ مندر کا افتتاح بھی کر دیا ہے اور ہر وہ اقدام کر رہا ہے جس سے نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت میں موجود دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے زمین تنگ ہوسکے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے میرے نزدیک ایک مثبت پہلو ہے جو ہم دنیا کو اصل حقائق بتانے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ کشمیر میں بھارت 70 برسوں سے نام نہاد انتخابات کروا رہا تھا اور دنیا کو بتا رہا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، آزادی کی جنگ نہیں ہے، کشمیر میں انتخابات ہوتے ہیں، حکومت بنتی ہے اور وہ اپنے معاملات چلاتی ہے۔

بھارت نے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے کٹھ پتلی سیاستدان بھی رکھے تھے جو اس کو فائدہ پہنچاتے تھے مگر اب پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کشمیر کی ساری قیادت بھارتی اقدامات کے خلاف متحد ہوگئی ہے۔حریت لیڈرز، محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ سمیت تمام کشمیری قیادت اور عوام بھارتی اقدامات کی مذمت کررہی ہے۔ اس معاملے کو دیکھتے ہوئے بھارت نے وہاں کرفیو لگا رکھا ہے، انفارمیشن کے ذرائع بند ہیں مگر ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ ہم جارحانہ سفارتکاری کے ذریعے دنیا کو بتائیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور یہ بھی بتائیں کہ معاملہ کشمیریوں کے انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ اسے اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے۔ ہم کشمیر کے ساتھ ہمیشہ سے ہی اظہار یکجہتی کرتے رہے ہیں، موجودہ حکومت نے جمعہ کے روز احتجاج کا اعلان کیا، اس کے علاوہ ریلیاں بھی نکالی جاتی ہیں، اب 5 اگست کو یوم استحصال کشمیر بھی منایا گیا۔

یہ اقدامات اپنی جگہ مگر دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک میں موجود ہمارے سفارتکار کیا کر رہے ہیں؟ ان کا کام ہے کہ وہ موثر سفارتکاری کریں، طاقتور ممالک کو بتائیں کہ مسئلہ کشمیر دراصل ہے کیا۔ انہیں چاہیے کہ وہ بھارتی پراپیگنڈہ کو کاؤنٹر کریں ۔ بدقسمتی سے ہمارے سفارتکار یہ ذمہ داری ادا نہیں کرسکے بلکہ صرف کاسمیٹک اقدامات کیے گئے جس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ میرے نزدیک ہمیں سفارتی محاذ پر بہتر انداز میں لڑنا ہوگا اور جامع حکمت عملی بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہم موثر سفارتکاری نہیں کریں گے تب تک دنیا اس تناظر میں نہیں دیکھے گی جو کشمیر کا اصل تناظر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔