ککو کولہی کی مظلومیت

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جیوڈیشری کی نئی تاریخ مرتب کی ہے اس کے اثرات کئی سال چلتے رہیں گے


لیاقت راجپر December 13, 2013

میں صرف اخباروں کی سرخیاں پڑھتا ہوں اور جو خبر دل کو چھوکر اندر دل تک چلی جاتی ہے تو اسے میں اس لیے تفصیل سے پڑھتا ہوں کہ اس میں حکومت اور معاشرے میں رہنے والوں نے غربت میں پسے ہوئے لاچار اور لاوارث لوگوں کے ساتھ کیا مظالم ڈھائے ہیں تاکہ میں صرف انھی تحریر کے ذریعے ظلم اور ظالم کے خلاف آواز اٹھا سکوں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہر روز اتنے ظلم، بربریت، نا انصافی، کرپشن اور کرائم کے واقعات ہوتے ہیں کہ دل لرز جاتا ہے اور میرا قلم جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ تحریر ہوکر اخبار کے صفحے پر لوگوں کا ضمیر جگانے کے لیے آجاتا ہے، اب اس کا اثر کیا ہوتا ہے وہ پڑھنے والوں تک رہ جاتا ہے۔

ایک دل ہلانے والی خبر میری نظر سے گزری کہ شادی پلی کے قریب لالو شرگاؤں کی رہنے والی ککو جس کا تعلق کولہی قبیلے سے ہے اسے تقریباً کچھ دن پہلے اس کی بہن نیلا کے ساتھ گاؤں کے زمیندار کے دو بیٹوں نے ہتھیاروں کے زور پر اغوا کیا اور ان کو بے آبرو کرنے کے بعد چھوڑدیا، گھر پہنچنے کے بعد ککو اور نیلا کے والدین زمیندار کے بیٹوں کے خلاف قریبی پولیس اسٹیشن پر ریپ اور اغوا کا کیس کرنے پہنچے مگر پولیس کے ایس ایچ او نے زمیندار کی مدد سے اپنے پاس جرگہ بلاکر زمیندار کے بیٹوں پر جرمانہ ڈالا۔ جس کی رقم ککو کے ماں باپ کو دی اور دھمکایا کہ اگر انھوں نے کسی قسم کی بات کی تو انھیں سخت نتائج اٹھانے پڑیں گے اپنے بیٹوں کو سزا سے بچانے کے لیے زمیندار نے ایس ایچ او کی مٹھی بھی گرم کی۔

جرگے کے بعد بھی زمیندار کے ایک بیٹے کے اندر انتقام کی آگ سلگ رہی تھی کہ ککو والوں نے انھیں بے عزت کیا ہے اور وہ ایک دن جب ککو اپنی ماں کے ساتھ ڈاکٹر سے دوائی لے کر واپس آرہی تھی کہ اسے زبردستی ہتھیار کے زور پر اپنی گاڑی میں بٹھاکر آگے لے جا کر اس کے سر پر پسٹل سے فائر کیا اور اس کی لاش کو روڈ پر پھینک کر بھاگ گئے ، جب پولیس کو اطلاع ملی تو وہ واقعے کی جگہ پہنچ گئی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کرکے ایف آئی آر داخل کرکے ککو کی لاش ورثاء کے حوالے کی۔ اس بات کو پریس میں رپورٹ کیا گیا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ صرف سندھی پریس نے اس کی کوریج کی ہے ۔ خبروں کے مطابق ککو کی ماں کہتی ہیں کہ انھیں جرگے کے فیصلے کی کوئی کاپی نہیں دی گئی ہے اور صرف ان سے ایک خالی کاغذ پر انگوٹھا اور دستخط کروایا گیا تھا۔ اب بھی جو ایف آئی آر داخل کی گئی ہے اس میں پسٹل کا ذکر نہیں ہے اور جو کار اس قتل میں ملزم نے استعمال کی تھی اس کا نمبر پلیٹ بدل کر اسے چھپایاگیاہے۔ ایف آئی آر کو اتنا کمزور بنایاگیاہے کہ ملزمان کی ضمانت ہوجائے اور وہ بری بھی ہوجائیں جس میں پولیس نے اہم رول ادا کیا ہے۔ اس کی دوسری بیٹی نیلا بھی بڑی خوفزدہ ہے کہ کہیں اسے بھی قتل نہ کردیاجائے۔ مقتولہ کے ورثاء کا کہنا ہے کہ علاقے کا کوئی بھی سیاست دان یا پھر این جی اوز کا نمایندہ ان کے پاس نہیں آیا۔

اب بات یہ ہے کہ ککو کے ساتھ جو ہوا ہے وہ پہلا واقعہ اور کیس نہیں ہے یہ معمول بن چکا ہے، ملزم نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا ہے مگر رپورٹ یہ شایع ہوئی ہے کہ ملزم کو پولیس کی حوالات میں ساری مراعات حاصل ہیں۔ مقتولہ کے ورثا نے موجودہ ایس ایچ او پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے اور چیف جسٹس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس میں صوابدیدی اختیارات استعمال کرکے کیس کا از خود نوٹس لیں، اس کے علاوہ انھوں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی باتیں کرنے والی این جی اوز، ہیومن رائٹس اور حکومت میں بیٹھے ہوئے بڑے دعوے کرنے والوں نے بھی ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی جس سے انھیں احساس محرومی ہورہا ہے۔

پوری دنیا کی طرح ہم لوگ بھی عورتوں کو حقوق دینے اور انھیں تحفظ دینے کی باتیں کرتے رہتے ہیں، اس سلسلے میں بڑے بڑے سیمینارز اور جلسے جلوس منعقد کرتے ہیں جس کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے کوریج حاصل کرتے ہیں اور اس کوریج کے فوٹو اور ویڈیو ان بین الاقوامی تنظیموں کو ارسال کرتے ہیں جو ہماری مالی مدد کرتے ہیں، سرکاری لوگ جن میں حکومت کے وزراء اور ایڈوائزر بھی شامل ہیں، وہ اس کوریج کو حاصل کرنے کے لیے متاثرہ عورتوں کے پاس یا مقتولہ کے ورثاء سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور پھر میڈیا کوریج حاصل کرنے کے بعد ایسے گم ہوجاتے ہیں جیسے وہ کبھی وہاں گئے ہی نہیں تھے اور نہ ہی انھوں نے کوئی وعدہ کیا تھا۔

سندھ میں تو آج سے 40برس پہلے اور اس سے بھی پہلے اس طرح کے واقعات کبھی ہوتے ہی نہیں تھے اور خاص طور پر گاؤں کا وڈیرہ اور زمیندار اپنے گاؤں میں رہنے والے لوگوں کو اپنے گھر کا فرد سمجھتا تھا اور خاص طور پر عورتوں کی بے حد عزت کرتے تھے اور لڑکیوں کی قرآن پاک کی طرح عزت کرتے تھے۔ اگر کبھی کوئی رشتہ کرنے میں مسئلہ پیدا ہوتا تو زمیندار اس لڑکی یا عورت کو حفاظت فراہم کرتا تھا اور انھیں ماں، بیٹی اور بہن کا درجہ دیتا تھا۔ مگر جب سے ہم لوگوں نے ترقی کی ہے ہمارے پاس ٹی وی، کیبل اور موبائل عام ہوگیا ہے ہماری زندگی میں وڈیرہ کے کردار کو منفی پیش کرکے اس کا مائنڈ سیٹ اس پر مرکوز کردیاہے جس سے وہ اپنا کردار منفی ادا کرکے سمجھتاہے کہ وہ طاقت کا مظاہرہ کررہاہے اور اس کے گاؤں میں رہنے والے اس کی ذاتی ملکیت ہیں لیکن وہ بھول گیا ہے کہ میڈیا طاقتور ہونے سے یہ لوگ بہت کمزور ہوگئے ہیں اور ان کے غلط کام کچھ ہی لمحوں میں ساری دنیا میں آجاتے ہیں جن سے نہ وہ بدنام ہوتے ہیں بلکہ کیفر کردار تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔

میں ایسے کرداروں سے اپیل کرتاہوں کہ وہ اپنے بڑے اور محترم ہونے کا رول نبھائیں اور عورتوں کی عزت کریں، کولہی برادری بھی پاکستانی ہے۔ غریب لوگوں پر شفقت کا ہاتھ رکھیں اور ان کی عزت کی حفاظت کریں اگر انھوںنے ایسا نہیں کیا تو پھر ان کی اپنی عزت بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ وہ تنظیمیں جو عورتوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑرہی ہیں ککو کا کیس بھی ہاتھ میں لیں اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا سدباب کریں۔ اس سلسلے میں اردو اور انگریزی میڈیا کو بھی پہلے کی طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیوںکہ اردو اور انگریزی میڈیا کی وسعت سندھی میڈیا سے زیادہ اہم اور طاقت ور ہے اور بڑے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے عوامی نمایندے بھی ان غریبوں سے ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیں جو انھیں اپنے ووٹ سے ایوانوں تک بھیجتے ہیں ۔ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ ظالم اور زیادتیاں کرنے والوں کو غلطی اور جرم کی سزا دلوائیں کیوںکہ صرف قانون پاس کرنا ہی سب کچھ نہیں بلکہ اس پر عمل کروانا ہی اہم بات ہے۔

ہم کچھ ہی دنوں میں رخصت ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی اس بات سے پرامید ہیں کہ آنے والے جج صاحبان بھی ان کی طرح انصاف اور حق کو اولیت دیں گے اور ککو کی طرح ہونے والے کیس کو انصاف فراہم کرنے کے لیے سوموٹو ایکشن لیں گے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جیوڈیشری کی نئی تاریخ مرتب کی ہے اس کے اثرات کئی سال چلتے رہیں گے اور ان کے جان نشین بھی وہی کریںگے جو انصاف کہتاہے ، کیوں کہ اب غریبوں کی نظریں عدالتوں کی طرف ہی رہتی ہیں۔ پولیس کو بھی غریبوں کی مدد کرنی چاہیے ورنہ ان کے بچوں کے ساتھ بھی کوئی انصاف نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں