نیلسن منڈیلا

سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور قومی لیڈر اگلی نسل کے بارے میں


Amjad Islam Amjad December 08, 2013
[email protected]

''سیاستدان اور قومی لیڈر میں کیا فرق ہوتا ہے؟''

''سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور قومی لیڈر اگلی نسل کے بارے میں''

سوال کرنے والا ایک صحافی تھا اور جواب دینے والا نیلسن منڈیلا' جو 95 سال کی شاندار اور مثالی زندگی گزارنے کے بعد آسودۂ خاک ہو گیا ہے۔ اس کے یہ روشن لفظ صرف ایک فلسفیانہ فکر ہی کے ترجمان نہیں بلکہ اس کی پوری زندگی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ تاریخ عالم میں یوں تو سیاہ فام نسل سے تعلق رکھنے والے کئی نام ایسے ہیں جنھیں دنیا کے عظیم انسانوں میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن بیسویں صدی میں اگر دو سب سے نمایاں ناموں پر انگلی رکھنے کو کہا جائے تو بلاشبہ ان میں سے ایک نام نیلسن منڈیلا کا ضرور ہو گا۔ میری ذاتی رائے میں دوسرا نام مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا ہونا چاہیے۔ حالیہ برسوں میں نوبیل امن ایوارڈ بوجہ کچھ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر پہلے جیسا وقیع نہیں رہا لیکن جن چند ناموں کی وجہ سے کسی حد تک اس کا بھرم قائم ہے ان میں بھی ایک بڑا نام نیلسن منڈیلا کا ہی نکلے گا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں آج سے بیس بائیس برس پہلے تک حکومت کی نسل پرستانہ کارروائیوں کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں وہاں کے اصلی باشندوں کی زندگی جہنم کی مثال بن چکی تھی اور اگر کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتا تو اسے نمونۂ عبرت بنانے کے لیے پوری حکومتی مشینری سرگرم ہو جاتی تھی۔ ذرا تصور کیجیے کہ کسی جیل میں ایک ایسا قیدی ہو جس کے گارڈوں میں سے کچھ کی پوری عمر اس کی قید کی مدت سے کم ہو۔ اس قیدی کا نام بھی نیلسن منڈیلا تھا۔

دنیا بھر میں اگرچہ سیاہ فام نسلیں کئی صدیوں سے استحصال کا شکار چلی آ رہی تھیں لیکن جنوبی افریقہ اور شمالی امریکا میں ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کی تفصیلات انتہائی ہولناک اور لرزہ خیز ہیں۔ برسوں پہلے میں نے سیاہ فام شاعروں کی نظموں کے تراجم، ''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' کے نام سے شائع کروائے تھے۔ ان میں سے جو نظمیں جنوبی افریقہ کے شاعروں کی ہیں وہ اپنے موضوع، شدت احساس اور مخصوص تہذیبی حوالوں کی وجہ سے دور سے پہچانی جا سکتی ہیں کہ وطن میں رہتے ہوئے بے وطنی اور اس سے پیدا ہونے والے بے حرمتی کے شدید احساس نے ان نظموں کو الگ شکل دے دی ہے۔ مثال کے طور پر ایک طویل نظم ''کوا بھانیا۔ ہمارا گائوں'' سے یہ ایک اقتباس دیکھئے

''میں اپنے آپ کو نیکر اور خاکی قمیص میں ملبوس

اپنے سائے کے ساتھ دوڑ لگاتے ہوئے دیکھتا ہوں

میں محسوس کرتا ہوں جیسے لاکھوں تیر میرے دل کو چیر کر نکل گئے ہیں

میری آنکھیں نمکین پانی کی ایک نہر بن جاتی ہیں

میں اس بُھربھری مٹی میں اپنے پائوں جمانے کی کوشش کرتا ہوں

اور اپنے دادا اور دادی کی ٹوٹی ہوئی قبریں دیکھتا ہوں

میں ان کی آوازیں سنتا ہوں

میں اپنی لالٹین کی مدھم روشنی میں نیم تاریکی میں بھٹک رہا ہوں

قبرستان میں روشنی ہے

مقبروں کے پتھر بھوتوں کی طرح مسکرا رہے ہیں

وہ میرے لیے الوداعی گیت گا رہے ہیں

''اے دکھ۔ اے افریقہ کے کالے آدمی کے عظیم دکھ''

نیلسن منڈیلا کی ساری زندگی افریقہ کے اسی کالے آدمی کے عظیم دکھ کی کہانی ہے مگر اس عظیم آدمی کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس داستان کا کردار ہوتے ہوئے اس کے واقعات کو تبدیل کرنے کے بعد ایک ایسا موڑ دیا ہے جس کے پیچھے اس کا ذاتی درد اور آگے اجتماعی خوشی ہے۔ اس کی قید اور جدوجہد کی کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں سو میں اسے دہرانے کے بجائے صرف اپنے ارباب اختیار کو اس فرق کے سمجھنے کا مشورہ دیتا ہوں جو نیلسن منڈیلا نے سیاستدان اور قومی لیڈر کے کردار کی وضاحت میں بیان کیا تھا۔ اس نے صبر' برداشت اور قربانی کی جو مثال قائم کی ہے وہ تو شائد ان میں سے کسی کے بس کی بات نہ ہو لیکن اپنے سیاہ فام ہونے پر فخر کرنا (یہ فخر ہم تیسری دنیا کے ایشیائی لوگ بھی اپنی روایات کے حوالے سے کر سکتے ہیں) اور اپنی قوم کو عالمی برادری میں عزت کے مقام پر فائز کروانا اور اقتدار کو منزل کے رستے کا پڑائو سمجھنا ایسی باتیں ہیں جن کی تقلید کرنا کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں۔

چند برس قبل میں نے نیلسن منڈیلا کے بارے میں ایک نظم لکھی تھی جو اصل میں ایک طرح کا خراج تحسین تھا۔ آج اس کی رحلت کے موقع پر میں اسے پھر سے درج کر رہا ہوں کہ ایسے لوگ کم یاب تو ہمیشہ سے تھے مگر اب تو نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔

چاروں جانب ایک مسلسل تاریکی تھی

جس میں دن اور رات کے آنے جانے کا احساس نہیں تھا

کوئی اس کے پاس نہیں تھا

زنداں کے دیوار و در پر سایا کرتی خاموشی

پہرے پر مامور دھمکتے قاتل قدموں کی آوازیں

اور بھی گہرا کر دیتی تھیں

(وہ آوازیں۔ جن کو سنتے اسے زمانے بیت گئے تھے)

پورے بیس اور سات برس!

(اتنے برس تو قاتل قدموں والے ان بیداد گروں میں کچھ کی پوری عمر نہیں تھی)

جانے کسی مٹی سے بنا تھا

زنداں کی دیوار سے لگ کر بیٹھا وہ ''خاموش ارادہ''

اپنے سے مجبور، نہتے کالے لوگوں کا ''شہزادہ''

ایک انوکھا آدم زادہ

جس کی روح میں کھلتے پھول کی تازہ خوشبو

زنداں کی دیوار سے باہر قریہ قریہ پھیل رہی تھی

اس کی آنکھیں ایسے خوابوں سے روشن تھیں

جس کی لو میں لمحہ لمحہ طوق و سلاسل پگھل رہے تھے

اس کے ذہن میں ان تعمیروں کے نقشے تھے

جن کے چاروں جانب دہشت کا ڈیرا تھا

لاشیں تھیں اور سپنے تھے

(مرنے والے، سب اس کے ہم راز تھے اس کے اپنے تھے)

بے چہرہ سے لوگ جو اپنے، گھر کے ہوتے بھی بے گھر تھے

جن کی آنکھیں لہو لہو تھیں، جن کے منظر، بے منظر تھے۔

وہ زندانی، وہ تنہا خاموش ہیولا

ایک ایسا ''اظہار'' تھا جس کے

اک اک نقش میں لاکھوں چہرے سمٹ گئے تھے

ایک ایسا ''انکار'' تھا جس میں

بل والوں کے گھڑے ہوئے لفظوں کے معنی الٹ گئے تھے

ایک ایسی ''دیوار'' تھا جس سے

کتنے ہی طوفان الجھنے آئے تھے اور پلٹ گئے تھے

اس کی روح کے اندر جیسے چاروں جانب آئینے تھے

اس کو پتہ تھا

حد نظر تک پھیلی یہ تاریکی اپنی حد رکھتی ہے

زنداں کی دیوار کے باہر

اس کے خواب کی روشن خوشبو سینہ سینہ پھیل رہی ہے

اس کو پتہ تھا

وہ دن اب کچھ دور نہیں جب اس کی دھرتی

''اس'' کی ہو گی اور سراسر گلشن ہو گی!

جب وہ دنیا

آدرش اور امکان کی دنیا

ناممکن سے ''ممکن'' ہوگی

نئی صدی کے دروازے پر کھڑی یہ دنیا

جب جب پیچھے دیکھے گی تو

''اس'' کا سایا' منظر منظر پھیلا ہو گا

آدم کی توقیر کا قصہ جب بھی لکھا جائے گا

جلی قلم سے درج سنہرے

اور دمکتے کچھ حرفوں میں

''اس'' کا نام بھی لکھا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں