متحدہ عرب امارات میں حکومتی توجہ کے منتظر پاکستانی

بعض ذرائع کا دعوی ہے کہ یو اے ای سے واپس گھر آنے والے خواہشمند پاکستانیوں کی تعداد 93000 تک ہے


یو اے ای میں پھنسے ہزاروں پاکستانی وطن واپسی کے خواہشمند ہیں۔ (فوٹو: فائل)

''پاکستان قونصلیٹ نے پی آئی اے کی 26 خصوصی پروازوں کے ذریعے ابھی تک 5,883 پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا۔ خصوصی پروازوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ قونصل خانہ میں رجسٹریشن کروانے والوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ہماری کال کا انتظار کریں۔''

مندرجہ بالا معلومات جیسے ہی دبئی میں موجود پاکستانی سفارتخانہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر مہیا کی جاتی ہیں تو بلاوے کے منتظر ہزاروں پاکستانی تبصرہ کے کالم میں اپنا حال دل کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ''تاریخ میں ایسی ذلالت نہ کبھی سنی نہ کبھی دیکھی، بندہ اپنے ہی ملک نہ جاسکے، ملک سے باہر روزی روٹی کمانے آئے تھے مگر اس نااہل حکومت نے تو ہمیں بے وطن ہی کردیا ہے۔ ہم اوورسیز پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والے اس بدتر سلوک کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ فلائٹس آن لائن کرو، ایسا طریقہ تو نیازی اڈہ میں بھی نہیں جس طرح ٹکٹ ایمبیسی اور پی آئی اے دے رہی ہے۔''

سیکڑوں پاکستانی جن کی نوکریاں ختم ہوچکی ہیں، اس امید پر ایسے تبصرے کرتے ہیں کہ ''شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات'' مگر افسوس صد افسوسں ''کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی''۔

پاکستانی سفارتخانہ کے مطابق 60000 پاکستانیوں نے گھر کو لوٹنےکےلیے سفارتخانہ میں مروجہ طریقہ کار کے مطابق نام درج کیا ہے، جبکہ 24000 پاکستانی ایسے ہیں جنہوں نے راشن کےلیے درخواست کی ہے۔ لیکن بعض ذرائع کا دعوی ہے کہ گھر کو لوٹنے والے پاکستانیوں کی تعداد 93000 تک ہے۔ ( میں نے پاکستانی سفارتخانہ سے مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ تازہ ترین معلومات مل سکیں، مگر کامیابی نہ ہوسکی)

غور طلب امر یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی جس رفتار سے واپسی جاری ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سلسلہ کتنا طویل ہوگا، اور دیار غیر میں اتنے عرصہ تک کون ان بے روزگاروں کو اشیائے ضروریہ مہیا کرے گا۔ اس بارے میں حکومت کی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ (یہاں پر عرض کرتا چلوں ایک فرد کا کم ازکم ماہانہ خرچہ سات سو درہم تک ہے)۔

یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ریاست جو ماں کے جیسی ہوتی ہے، نے اپنے کماؤ پوت کو ایک ایسے وقت میں بے یارومدد گار چھوڑ دیا ہے جب ان کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہاں پر متحدہ عرب امارات کی حکومت کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے عوام کو، ویزے کی میعاد ختم ہونے پر ہر قسم کے جرمانوں سے چھوٹ دی ہے، اور بعض ذرائع تو یہ تک دعویٰ کرتے ہیں کہ فضائی آپریشن بھی متحدہ عرب امارات کی طرف سے دباؤ ڈالنے پر شروع کیا گیا۔

یہ سلوک ریاست پاکستان اپنے ان بچوں کے ساتھ کررہی ہے کہ جو ہر سال ترسیلات زر کی شکل میں قیمتی زرمبادلہ مہیا کرتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے مالی سال 2019-20 کےلیے صرف پانچ ماہ میں 9 ارب 29 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی ترسیلات بھیجی گئیں۔ ان میں متحدہ عرب امارات سے کُل 4 ارب 61 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ملک میں بھیجے گئے۔ یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کے حصول کےلیے حکومت کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔ ایک لاڈلے وزیر خزانہ کی قربانی اور عوام دشمن شرائط پر اظہار آمادگی ظاہر کرنا پڑی تب جاکر چمن میں دیدہ ور پیدا ہوا۔

ضرورت اس امر کی ہے اس سے پہلے کہ لاوا پھٹ جائے پی ٹی آئی سرکار اس معاملے کو سنجیدگی سے لے۔ فلائٹس کی تعداد کو بڑھایا جائے۔ اقربا پروری کا خاتمہ ہو، سفارتخانہ کی طرف سے لسٹوں کو آویزاں کیا جائے، سفارتخانہ کے معلوماتی نمبرز کو فعال کیا جائے، سفارتخانہ کے عملے کو آنے والے افراد کے ساتھ احسن سلوک کرنے کا پابند کیا جائے۔ ملک میں پہنچ جانے والے بے یارومدگار افراد کی ملک میں موجود مفلوک الحال افراد کی طرح مالی مدد کا بندوبست ہو۔

بہتر ہوگا اگر خان صاحب کسی ممبر قومی اسمبلی کو اس معاملے کا ذمے دار مقرر کردیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو وزیراعظم اپنے 15 غیرمنتخب معاون خصوصی میں سے کسی ایک ایسے شخص کو (جو الیکشن میں منتخب ہونے سے رہ گیا ہو، کیونکہ سیاستدان بہرحال عوام کو جوابدہ ہوتا ہے) اس مشن کا نگران مقرر کردیں جو ملک کے وسیع تر مفادمیں بطریق احسن اس ذمے داری کو ادا کرے۔ کیونکہ حکومت کو آج نہیں تو کل یہ مسئلہ بہرحال حل کرنا ہی ہے۔ لیکن اگر بروقت حل ہوجائے تو یہ حکومت اور متاثرین دونوں کےلیے اچھا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں