فیصلے

تاریخ کا یہ اہم موڑ ہے جب ہمیں جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کی...


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate December 05, 2013
[email protected]

تاریخ کا یہ اہم موڑ ہے جب ہمیں جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کا سامنا ہے۔ اس مرحلے پر عدلیہ کے اچھے اور برے فیصلوں کی یاددہانی سے ہم آنے والے دور کا اندازہ لگا سکیں گے۔ ہماری عدالتی تاریخ شاندار اور متنازعہ دونوں فیصلوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب ہم ان ہولناک فیصلوں پر گفتگو کر رہے ہیں جنھوں نے سیاسی تاریخ کو سیاہ کر دیا ہے۔

1953ء میں خواجہ ناظم الدین سربراہ حکومت اور غلام محمد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ مملکت تھے۔ پہلے مرحلے پر گورنر جنرل نے وزیر اعظم کو برطرف کر دیا۔ پوری اسمبلی خاموش بیٹھی رہی اور محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم کے طور پر قبول کر لیا۔ ڈیڑھ سال گزرا تو منتخب نمایندوں کو خیال آیا کہ غلام محمد کچھ اور بھی کر سکتے ہیں۔ جب وہ سعودی عرب کے دورے پر تھے تو اسمبلی نے ان سے ایوان کو برخاست کرنے کا اختیار واپس لے لیا۔ گورنر جنرل اپنا غیرملکی دورہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آئے اور انھوں نے اسمبلی کو توڑ دیا۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ کی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا۔ حکومت نے اسمبلی کی بحالی کے فیصلے کو اعلیٰ ترین عدالت میں چیلنج کیا۔ جسٹس منیر کی سربراہی میں فیڈرل کورٹ نے سندھ کی چیف کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جسے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں کی ابتدا قرار دیا جاتا ہے۔ اس نے ملک کی جمہوری عمارت کی بنیاد کو ٹیڑھا کر دیا۔ سربراہ مملکت کے غیر جانبدار ہونے کی روایت، سیاسی پارٹیوں کی مضبوطی اور اسمبلیوں کے کردار کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ اس کے اثرات کہاں تک محسوس کیے گئے؟ اس سوال کا جواب عدلیہ کے مزید ناپسندیدہ فیصلوں سے واضح ہو جائے گا۔ اگلے پانچ چھ منٹ میں پاکستان کی آئینی تاریخ ہمارے سامنے ہو گی۔

غلام محمد کو فالج ہوا تو ان کی جگہ اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنایا گیا۔ جب 1956ء کا آئین بنا تو وہ صدر مملکت کہلائے۔ فیڈرل کورٹ کو سپریم کورٹ کہا جانے لگا۔ آئین کے تحت انتخابات کا موقع قریب آیا تو اسکندر مرزا کو اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان بھی اقتدار کے خواب دیکھ رہے تھے۔ دونوں نے مل کر آئین کو منسوخ کر دیا، اسمبلیاں توڑ دیں اور کابینہ کو برطرف کر دیا۔ ایوب خان مارشل لاء کے ناظم اعلیٰ قرار پائے۔ انھوں نے تین ہفتوں کے بعد اسکندر مرزا کو جلا وطن کر دیا۔ یہ اکتوبر 58ء کی بات ہے۔ ڈوسو نامی آدمی کی ایک آئینی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں پہلے سے زیر سماعت تھی۔ جسٹس ایس اے رحمان اور جسٹس یعقوب علی کی ڈویژن بنچ تھی۔ ڈوسو کو جرگے نے پانچ سال کی سزا دی تھی جسے اس نے چیلنج کیا تھا۔

ہائی کورٹ نے ملزم کی رہائی کا حکم سنایا۔ یہ ایوب حکومت سے پہلے کی بات ہے۔ سرکار نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو مارشل لا لگ چکا تھا۔ سوال تھا کہ ایک طرف ہائی کورٹ کا حکم ہے اور دوسری طرف اپیل کنندہ ایک باوردی سرکار ہے۔ جسٹس منیر نے قرار دیا کہ جس نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے وہ قانون بھی دے سکتا ہے۔ یہ تبدیلی ''انقلاب'' کہلاتی ہے۔ اس سے نافذ العمل آئین ختم ہو جاتا ہے۔ کامیاب انقلاب اپنا جواز خود ثابت کر دیتا ہے اور وہ قانون کا سرچشمہ بن جاتا ہے، نئے قانونی نظام کے تحت صدر مملکت کسی بھی قانون کو کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ بظاہر یہ ایک عام قبائلی کا مقدمہ تھا جس نے اپنی سزا کو مغربی پاکستان کی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ جا کر یہ ایک تاریخی شکل اختیار کر گیا۔ عدالت عظمیٰ اس سوال کا جواب نہ دے سکی کہ جب ملک میں کوئی بدامنی نہیں تھی تو مارشل لاء کا کیا جواز تھا۔ مولوی تمیز الدین کے بعد ڈوسو کیس دوسرا مقدمہ ہے جسے عدالت کا ایک ناپسندیدہ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایوب کے بعد یحییٰ خان برسر اقتدار آئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد انھیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ساڑھے پانچ سال ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار رہے۔ ان کے زمانے میں 73ء کا آئین بھی بنا اور عاصمہ جیلانی کیس کا فیصلہ بھی آیا۔ عدالت عظمیٰ نے یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا۔ یہ وہ دور تھا جب ایک آمر اقتدار سے محروم ہو چکا تھا۔ چونکہ فیصلہ یحییٰ کے اقتدار کے بعد آیا جس نے اس کی شان کو گہنا دیا، کم کر دیا۔ بھٹو صاحب پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام تھا۔ قومی اتحاد کی تحریک جاری تھی اور مذاکرات بھی ہو رہے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں چیف آف آرمی اسٹاف اور وفاق پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ چیف جسٹس انوارالحق کے علاوہ بنچ میں وحیدالدین، افضل چیمہ، محمد اکرم، دراب پٹیل، قیصر خان، محمد سلیم، صفدر شاہ اور نسیم حسن شاہ صاحبان تھے۔ قیصر خان کے علاوہ تمام جج صاحبان نے جنرل ضیا کے مارشل لا کو جائز قرار دیا۔ ایک دلچسپ معاملہ ایک فوجی حکمران کو آئین میں ترمیم کی اجازت دینے کا ہے۔

اس کی ابتدا بھٹو کے دور سے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس یعقوب علی 65 سال کے ہو جانے پر ریٹائر ہو رہے تھے۔ حکومت نے جسٹس انوارالحق کو روکنے کے لیے آئین میں پانچویں ترمیم کر دی۔ قرار دیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کا سربراہ عمر پوری ہونے پر ریٹائر ہو گا یا پانچ سال پورے کرے گا۔ جسٹس یعقوب کو اس طرح توسیع مل گئی۔ ضیا الحق نے مارشل لا حکم کے تحت وہ ترمیم ختم کر کے انوارالحق کو چیف جسٹس بنا دیا۔ جب حکومت کے وکلا نے عدالت عظمیٰ کے نئے سربراہ سے حکومت کو آئین میں ترمیم کا حق دینے کا پوچھا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ شریف الدین پیرزادہ نے ایک تقریب میں انوار الحق سے کہا کہ اگر فوجی حکمران کو آئین میں ترمیم کا حق نہیں تو پھر آپ کس طرح اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں؟ یوں پھر سپریم کورٹ نے مارشل لاء حکام کو یہ اختیار دے دیا۔ ایک جج کو برقرار رکھنے اور دوسرے کو نہ آنے دینے کا خطرناک نتیجہ نکلا۔ یہ فیصلہ ڈوسو کیس کا تسلسل اور ایک ناپسندیدہ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

جنرل ضیا الحق کا دور تھا اور انتخابات ملتوی ہو چکے تھے۔ فوجی جنرلز خوفزدہ تھے کہ بھٹو ایک بار پھر برسر اقتدار آ کر ان کا محاسبہ کریں گے۔ واضح طور پر کہا جانے لگا کہ ''قبر ایک ہے اور آدمی دو''۔ حکومت نے بھٹو کو پھانسنے کے لیے ایک مقدمہ قتل کا پھندا تیار کیا۔ احمد رضا قصوری پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ بھٹو حکومت پر ان کی شدید تنقید نے ٹکراؤ پیدا کر دیا۔ 74ء میں قصوری پر حملہ ہوا اور گاڑی میں بیٹھے ان کے والد جاں بحق ہو گئے۔ بیٹے نے باپ کے قتل کی ایف آئی آر براہ راست ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف درج کروائی۔ جنرل ضیا کے دور میں یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا اور بھٹو کو متفقہ طور پر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی۔ فیصلہ اکثریتی تھا۔ سات میں سے تین ججوں نے بھٹو کو بری کرنے کی رائے دی۔ اس فیصلے کو عوام نے ''عدالتی قتل'' قرار دیا۔ اس فیصلے کو بھی عدلیہ کا ایک متنازعہ فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے بیسویں صدی کے آخری عشرے میں باری باری حکومتیں کیں۔ 12 اکتوبر 99ء کو جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آئے۔ مسلم لیگ کے ظفر علی شاہ نے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ مشرف نے ضیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پی سی او متعارف کروایا۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی عدالت کے سربراہ تھے۔ ان کے علاوہ وجیہہ الدین احمد، کمال منصور عالم، ناصر اسلم زاہد، جسٹس خلیل اور مامون قاضی صاحبان نے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ڈوسو اور نصرت بھٹو کیس سے استفادہ کیا۔ مشرف کو آئین میں ترمیم کے اختیار کے علاوہ تین سال تک حکومت کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ نے 17 ویں ترمیم منظور کر کے فوجی حکومت کے اقدامات کے جائز ہونے پر مہر ثبت کر دی۔ یہ وہ وجہ ہے کہ نواز حکومت اب پرویز مشرف کے خلاف ان کے اس پہلے قدم پر کارروائی نہیں کر رہی بلکہ انھوں نے 3 نومبر کو مشرف کی ایمرجنسی پلس یا مارشل لا کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے۔ دونوں اقدامات آرٹیکل چھ کے تحت آتے ہیں لیکن 2007ء کے اقدام کو نہ ہی عدالت نے اور نہ ہی پارلیمنٹ نے جائز قرار دیا ہے۔ اب عدالت کے روبرو ایک اور مقدمہ درپیش ہے۔ دیکھنا ہے کہ اسے عدلیہ کے شاندار فیصلوں میں لکھا جائے گا یا ایک اور گنتی بڑھ جائے گی عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں