میں ایک اچھا شہری ہوں

راقم الحروف کو خلیفہ بیان کرتا ہے کہ میں سالانہ ستر سے اسی ہزار روپے انکم ٹیکس حکومت پاکستان کو ادا کرتا ہوں۔


S Nayyer December 04, 2013
[email protected]

راقم الحروف کو خلیفہ بیان کرتا ہے کہ میں سالانہ ستر سے اسی ہزار روپے انکم ٹیکس حکومت پاکستان کو ادا کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ جب میں پٹرول خریدتا ہوں تو فی لیٹر پٹرول کی قیمت کے علاوہ نہ جانے کتنی اقسام کے ٹیکس ہر لیٹر کے ساتھ ادا کرنے پر مجبور ہوں ۔ میں چونکہ ایک اچھا شہری ہوں لہذا اپنے سیل فون میں جب ایک ہزار روپے کا کارڈ لوڈ کرتا ہوں تو میرے پاس صرف ساڑھے سات سو روپے کا بیلنس آتا ہے اور دو سو پچاس روپے مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کے خزانے میں چلے جاتے ہیں، لیکن میری تیوری پر بل تک نہیں آتا، کیونکہ میں ایک اچھا شہری ہوں۔ میرے گھر میں ایک پوسٹ پیڈ کنکشن کا سیل فون بھی موجود ہے، اس کے بل میں ایڈوانس انکم ٹیکس کی رقم بھی لگا کر وصول کی جاتی ہے۔

دیگر ٹیکسز علیحدہ ہیں۔ کیونکہ میں ایک اچھا شہری ہوں، اس لیے جب میں اپنی شرٹ کا کپڑا خریدنے جاتا ہوں تو قیمت کے علاوہ جنرل سیلز ٹیکس بھی مسکراتے ہوئے ادا کر دیتا ہوں۔ میں اپنے بچوں کو سال، چھ مہینے میں جب ہمت کر کے تفریح کرانے لے جاتا ہوں تو بچوں کے جھولے کے ہر ٹکٹ پر انٹرٹینمنٹ ٹیکس کے نام پر حکومت کو ایک معقول رقم ادا کرتا ہوں۔ ایسا ہی کچھ فلم دیکھنے کے لیے خریدے گئے ٹکٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اگر تم تفریح کرو گے تو پہلے ہمارا خیال کرو گے۔ میں یہ بات مان لیتا ہوں، چونکہ میں ایک شریف اور تعلیم یافتہ شہری ہوں اور اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ دنیا کی ہر حکومت اور ہر ریاست کے اخراجات اسی قسم کے ٹیکسوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔ فی الحال ہم اس بحث میں نہیں پڑتے ہیں کہ دوسرے ممالک اس قسم کے ٹیکس کس تناسب سے وصول کرتے ہیں اور ہم کس تناسب سے ادا کرتے ہیں؟

میں چونکہ اچھا شہری ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن بھی ہوں لہذا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے مقرر کردہ بجلی کی فی یونٹ قیمت پر بغیر ناک بھوں چڑھائے، بلکہ مسکراتے ہوئے بجلی کا بل ادا کر دیتا ہوں، اور بجلی کے بل کے ساتھ ساتھ ٹی وی کے لائسنس کی فیس بھی بخوشی حکومت کے خزانے میں داخل کر دیتا ہوں۔ میں اپنے بل کے ساتھ ان لوگوں کے بل کی ادائیگی بھی بخوشی کر دیتا ہوں، جو کنڈا ڈال کر بجلی حاصل کرتے ہیں اور بغیر کسی ادائیگی کے اپنے گھروں میں ایئرکنڈیشنرز چلاتے ہیں اور بجلی کے ہیٹر پر کھانا پکاتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ایسے لوگ اپنے ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں، بعض صنعتکار تو اسی کنڈے سے اپنی انڈسٹری چلاتے ہیں اور بل ہم جیسے محب وطن لوگوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بجائے بجلی کی ترسیل کے محکمے کو ادائیگی کرنے کے اس محکمے کے غریب ملازمین کی مدد کر کے ثواب دارین حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ جب کہ میں ایک محب وطن شہری ہونے کے ناتے آئی ایم یف اور اپنے ملک کے درمیان ہونے والے معاہدوں کا پورا پورا احترام کرتے ہوئے حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں پر بجلی خرید کر خود ہی اپنی پیٹھ ٹھونک لیتا ہوں۔

بہرحال میں اپنی جیب سے ضروریات زندگی کی جو چیز بھی خریدتا ہوں، مختلف اقسام کے حکومتی ٹیکس اس چیز کی قیمت کے ساتھ ضرور ادا کرتا ہوں۔ بعض اوقات تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اشیاء کی اصل قیمت کیا ہے اور ٹیکسز کی رقم کتنی ہے؟ میں چونکہ ایک پڑھا لکھا اور شریف شہری ہوں اور زمانہ طالب علمی میں اکنامکس میرا مضمون بھی تھا۔ لہذا میں جانتا ہوں کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے درآمدات سے زیادہ برآمدات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا آج کل ٹماٹر اور پیاز کی برآمدات زور و شور سے جاری ہے۔ یہ برآمدات اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں کہ ٹماٹر اس ملک کے شہری ایک سو اسی روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ میں بھی ٹماٹر اور پیاز مہنگے داموں مسکراتے ہوئے خرید لیتا ہوں اور ان لوگوں کی بے عقلی پر ماتم کرتا ہوں، جو اس کی قیمت سن کر برے برے منہ بناتے ہیں۔ کیونکہ یہ کم عقل لوگ برآمدات کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں اور مہنگے داموں ٹماٹر خرید کر وطن کے لیے قربانی دینا نہیں چاہتے۔

بعض بقراط قسم کے خریدار یہ بھی کہتے ہیں کہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہی ایسی اشیاء کو برآمد کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ یہ نیم خواندہ لوگ، ان لوگوں سے زیادہ خطرناک ہیں، جنہوں نے بالکل تعلیم حاصل نہیں کی۔ یہ نیم خواندہ لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ اس ملک میں اب ایسی کوئی چیز نہ تو تیار ہوتی ہے اور نہ ہی پیدا ہوتی ہے، جو ملکی ضروریات کو پورا بھی کر دے اور ضرورت سے اتنی زائد ہو جائے کہ ہم اسے برآمد کر کے زرمبادلہ کما سکیں۔ ان نیم خواندہ لوگوں کو اب کون سمجھائے کہ برآمدات کے عمل کو محض اس لیے نہیں روکا جا سکتا کہ ملکی پیداوار، ملک کے عوام کی ضروریات کو پورا کر دے اور جو فاضل پیداوار ہو، اسے برآمد کیا جائے۔ بجلی کے بحران اور اس کی قیمت اور تیل کی قیمتوں میں آئے دن ہونے والے اضافوں کے باعث یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پیداوار اس حد تک بڑھ سکے۔ جب کہ جاہل عوام نے مہنگائی کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کا ایسا خوبصورت اور سادہ حل نکال لیا ہے کہ معاشی ماہرین حیران ہو کر اپنی انگلیاں اپنے ہی دانتوں سے کچل کر رہ گئے ہیں۔

میں نے خود دیکھا کہ میرے سامنے میرے محلے کے موچی نے 180 روپے کے ایک کلو ٹماٹر اور 100 روپے کے ایک کلو آلو خریدے اور اپنے ٹھیے پر جا کر اس نے جوتی گانٹھنے کی اجرت بجائے پانچ روپے کے دس روپے کر دی ۔ دودھ والے نے مہنگی سبزی خرید کر دو روپے فی کلو دودھ کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔ غرض سب کاروباری لوگوں نے ایک دوسرے کو لوٹ کر اپنا اپنا بجٹ متوازن کر لیا۔ اور سب ہی خوش تھے، سوائے مجھ جیسے تنخواہ داروں کے۔ جنھیں ہر چیز خریدنا ہوتی ہے۔ لیکن ہم فروخت کچھ نہیں کرتے۔ ہم صرف انتظار کرتے ہیں تنخواہوں میں اضافے کا اور تلاش کرتے ہیں پرائس کنٹرول کمیٹی کو، جسکا حال یہ ہے کہ ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے'' لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایک شریف اور محب وطن شہری ہوں۔ ٹیکس دیتا ہوں اور اس ٹیکس کے عوض اپنی جان و مال کی حفاظت سمیت ہر وہ کام خود اپنے ذمے لے لیتا ہوں، جو کہ حکومت کو کرنا چاہیے اور یہی ایک شریف اور محب وطن شہری کی اس ملک میں پہچان ہے کہ وہ اپنا خیال خود رکھتا ہے، حکومت کے آسرے پر نہیں رہتا۔ حکومت کا کام صرف ٹیکس وصول کرنا ہے اگر حکومت یہ کام بھی نہ کرے تو پھر حکومت کا فائدہ ہی کیا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں