کورونامہ
پولیس اہل کاروں نے ناکے پر اپنے ساتھ ایک نقلی ایمبولینس کھڑی کی ہوئی تھی
TRIPOLI:
٭آپ کے پاؤں بھی کورونا وائرس کی نشان دہی کر سکتے ہیں:جیسے جیسے نوول کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیل رہا ہے، طبی ماہرین کی جانب سے اس وائرس کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی نئی نئی ممکنہ علامات کو شناخت کیا جارہا ہے۔ طبی ماہرین کورونا وائرس کی علامتوں پر خاص توجہ اِس لیے بھی دے رہے ہیں تاکہ کووڈ 19 کے مریض کی بروقت شناخت کرکے اُسے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بننے سے روکا جاسکے، کیوںکہ اَب تک ہوا یہ ہی ہے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے جسم میں کورونا وائرس کے ہونے کا شبہ ہوتا ہے، اُس وقت وہ شخص بے شمار افراد تک یہ وائرس پہنچانے کا سبب بن چکا ہوتا ہے۔
اِس لیے طبی ماہرین کی اولین کوشش یہ ہے کہ کورونا وائرس کی چند ایک ایسی علامات دریافت کرلی جائیں، جس کی بنیاد پر ہر شخص ابتدائی مرحلے پر ہی کورونا وائرس کی خودساختہ تشخیص کرنے میں کام یاب ہوجائے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ شاید طبی ماہرین بالآخر کورونا وائرس سے متاثرہ فرد میں وہ مخصوص علامت تلاش کرنے میں کام یاب ہو ہی گئے ہیں اور وہ اہم ترین علامت ہے پاؤں کی رنگت یا ساخت میں اچانک تبدیلی یا نشان کا ابھر آنا۔ امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسین کے ماہرین نے کورونا وائرس کے مریضوں میں اس علامت کی نشان دہی کی ہے جسے ''کووڈ ٹوئیز'' کا نام دیا گیا ہے، جس میں مریض کے پیروں اور پیروں کی انگلیوں پر جامنی یا نیلے رنگ کے نشان یا زخم ابھر آتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ نئی ممکنہ نشانی اس لیے بھی ایک اہم ترین دریافت ہے کہ یہ خاص علامت کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں ہی نظر آرہی ہے جن میں کورونا وائرس کی دیگر علامات سامنے نہیں آتیں ، بالکل اسی طرح جیسے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی بھی اکثر ان افراد میں دیکھی گئی جن میں اس بیماری کی دیگر علامات کو نہیں دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ یہ علامت کورونا وائرس کے ابتدائی ایام میں ظاہر ہوتی ہے اور اِس علامت کے ظاہر ہونے کے بعد ہی کووڈ19 کی بیماری آگے کی جانب بڑھتی ہے، کئی بار تو یہ علامت کووڈ 19 کا پہلا سراغ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب دیگر علامات نمودار نہیں ہوتیں۔
''کووڈ ٹوئیز'' کچھ افراد میں ایک ہفتے سے 10 دن میں غائب ہوجاتی ہیں، مگر پھر نظام تنفس کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ نئی علامت بچوں اور نوجوانوں میں دیگر عمر کے افراد کے مقابلے میں زیادہ نظر آرہی ہے۔ اس علامت کو سب سے پہلے مارچ میں اٹلی کے ٖڈاکٹروں نے دریافت کیا تھا اور جب ماہرین نے اس عجیب علامت کی طرف توجہ دینا شروع کی تو امریکا میں اِس علامت کی زیادہ سے زیادہ کیسز میں شناخت ہونے لگی۔ ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر 2 وجوہات ''کووڈ ٹوئیز'' کا باعث بن سکتی ہے، ایک ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کووڈ 19بیماری کے نتیجے میں ہونے والی سوزش اور ورم کے خلاف ردعمل کا اثر پیروں اور انگلیوں میں ہوتا ہے، جب کہ دوسری وجہ جسم میں شدید انفیکشن سے ہونے والے ورم سے خون کی ننھی رگوں میں چھوٹے لوتھڑے بننا بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ علامت خاص طور پر کورونا وائرس کے ان مریضوں میں بہت عام مشاہدہ کی جارہی ہے جن میں سانس لینے میں مشکلات کا باعث بننے والے مرض اے آر ڈی ایس سامنے آتا ہے۔
ایک بات اور اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ ''کووڈ ٹوئیز'' کی علامت ظاہر ہونے والے افراد میں زیادہ امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ ان میں ٹیسٹ کے ذریعے وائرس کی تشخیص نہیں ہوسکے گی کیوںکہ ابھی بیماری ابتدائی مراحل میں ہے۔ اِس لیے طبی ماہرین کی سختی سے ہدایت ہے کہ جس شخص کو بھی اپنے پاؤں میں یہ علامت نظر آنے لگے، اُسے ازحد خود ہی اپنے آپ کو قرنطینہ کرکے اپنی اِس علامت پر گہری نظر رکھی چاہیے اور کورونا وائرس کی دیگر علامات محسوس کرنے کی صورت میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازماً کروالینا چاہے۔
٭چین کی پاکستان میں کووِڈ 19 ویکسین کے کلینکل ٹرائل کی پیشکش:چین کی ایک بڑی دوا ساز کمپنی چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن نے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) اسلام آباد کو کووِڈ 19 کے لیے تیار کردہ ویکسین کا پاکستان میں کلینکل ٹرائل کرنے کی دعوت دے دی۔ اگر قومی ادارۂ صحت اِس پیشکش کو قبول کرلیتا ہے تو اِس ویکسین کے کام یاب ٹرائل کے بعد پاکستان بھی خوش قسمتی سے اُن چند گنتی کے ممالک میں شامل ہوجائے گا، جنہیں کووڈ 19 ویکسین متعارف کروانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوسکتا ہے۔ اِس ویکسین کے کلینکل ٹرائل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان اِسے ترجیحی بنیادوں پر خرید کر اپنے زیرِاستعمال لا سکے گا۔
واضح رہے کہ چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن دنیا کے اُن چند مایہ ناز ادویات ساز اداروں میں سے ایک ہے، جنہوں نے سب پہلے نوول کورونا وائرس کی ویکسین تیا رکی ہے، جب کہ اِسی کمپنی نے چین میں کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں 80 فی صد سے زائد قوتِ مدافعت کی ویکسین تیار کر کے کورونا وائرس کو شکست دینے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔
چائنا سائینو فارم انٹرنیشنل کارپوریشن کا کہنا ہے،''دنیا بھر میں ریگولیٹری اتھارٹیز نے کووڈ19 ویکسین جلد متعارف کروانے میں سہولت کے لیے ہنگامی پروٹوکولز بنائے ہیں اور چین میں اس عمل کو تیز کرنے کے لیے فیز ون اور فیز ٹو کے کلینکل ٹرائلز اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ لہٰذا اگر پاکستان کی طرف سے آمادگی کا اظہار کیا گیا تو سائنو فارم کی نمائندہ کمپنی ہیلتھ بی پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ اور این آئی ایچ فوری طور پر فیز ون اور فیز ٹو کے اکٹھے ٹرائل کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا آغاز کرسکیں گے، جب کہ معاہدے پر دستخظ سے سائنو فارم کمپنی نہ صرف اس ویکسین کی 'منظوری، منصوبہ بندی کے حوالے سے مزید خفیہ معلومات فراہم نے کی پابند ہوگی بلکہ اِس سے متعلق دیگر مطلوبہ دستاویزات کی فراہمی، ٹرائلز کی تقسیم سے متعلق فنڈنگ، لاجسٹک کی منصوبہ بندی اور کلینکل ٹرائل کا ڈوزیئر ہیلتھ بی کے ذریعے فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔'' اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو کورونا وائرس خلاف جنگ لڑنے کے لیے چین کی طرف سے پاکستان کو کی جانے والی یہ ایک بہت بڑی پیشکش ہے۔
٭مُٹاپے کا شکار افراد کورونا وائرس کے نشانے پر: امریکی ریاست نیویارک کے سائنسی ماہرین نے کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی روک تھام کے حوالے سے کیے گئے ایک مطالعے کے دوران کووڈ19 بیماری کا شکار ہونے والے افراد کا ڈیٹا جمع کیا اور شواہد کی بنیاد پر یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ موٹاپا بھی کورونا وائرس کے حوالے سے چوتھا خطرناک پہلو ہے۔
ماہرین کے مطابق پہلا خطرناک ترین پہلو عمر رسیدگی، دوسرا قوت مدافعت کی کم زوری، تیسرا ذیابیطس یا دل کے امراض، چوتھا موٹاپے کا مرض ہے۔ یعنی اَب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرہ مریضوں کا تیسرا حصہ زیادہ وزن والے افراد پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں نیویارک یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے جسم کا میس انڈیکس 25سے کم ہے وہ صحت مند قرار پاتے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے کورونا وائرس زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوتا، البتہ 25 سے 29باڈی میس انڈیکس مٹاپے کے قریب ہوتا ہے جب کہ 30یا اس سے زیادہ میس انڈیکس مٹاپا شمار ہوتا ہے اور ایسے لوگوں میں کو رونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات بہت ہی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگرمٹاپے کا شکار افراد اپنا وزن کم کرلیں تو کورونا وائرس کو بہ آسانی شکست دے سکتے ہیں۔
٭مریضوں کا سراغ لگانے کے لیے ڈرون کا استعمال:امریکی ریاست کنیٹیکٹ کی پولیس عوامی مقامات پر کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا پتہ لگانے کے لیے وبائی ڈرون کا تجربہ کررہی ہے جو190 فٹ کی دوری سے انسانی درجۂ حرارت کا پتا لگا لیتا ہے۔ کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا سراغ لگانے کے لیے بنائے جانے والے ڈرون میں ایسے سنسر نصب کیے گئے ہیں جن کی مدد سے وہ 190 فٹ کی دوری سے انسانی درجۂ حرارت، سانس، چھینک اور کھانسی کا پتا لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وبائی ڈرون کا پہلا تجربہ نیویارک شہر کے کووڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے پر اڑاکر کیا گیا جس کے ذریعے یہ پتا لگایا گیا کہ لوگ آپس میں سماجی دوری اختیار کررہے ہیں یا نہیں اور وائرس کی علامات کس کس میں ظاہر ہورہی ہیں۔
کورونا وائرس کی شناخت کرنے کے لیے یہ منفرد ڈرون بنانے والی کمپنی کینیڈا کی جس کے منتظمین کا کہناہے،''یہ ڈرون کسی بھی دیگر نجی معلومات کے حصول کے لیے قطعی استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ یہ کسی کے چہرے کی شناخت یا انفرادی نوعیت کا ڈیٹا لینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔'' کمپنی اِس ڈرون کو اگلے چھے ماہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کو فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن فی الحال نیویارک شہر کی ویسٹ پورٹ پولیس اس کی تجرباتی جانچ کر رہی ہے، تاکہ اِس کے فوائد اور ممکنہ نقائص سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ مستقبل میں اس وبائی ڈرون کا استعمال دفاتر، ہوائی اڈوں، بحری جہاز، اولڈ ایج ہومز اور دیگر ہجوم والی جگہوں پر کورونا وائر س سے متاثرہ افراد کی نشان دہی کرنے کے لیے کیا جاسکے گا۔ اگر آپ اِس وبائی ڈرون کی آزمائشی پرواز کی دل چسپ ویڈیو ملاحظہ کرنے چاہتے ہیں تو اِس مختصر لنک پر وزٹ کریں https://bit.ly/3aCuz76
٭لاک ڈاؤن کے دوران نایاب پینٹنگ کی چوری: کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہوجانے کے بعد چھوٹی موٹے جرائم میں تو ہر جگہ ہی اضافہ ہوا تھا لیکن اَب خبر آرہی ہے کہ لاک ڈاؤن کا فائدہ اُٹھانے کے لیے عالمی لٹیرے میں میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور تازہ ترین خبر کے مطابق نیدرلینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم کے سنگرلیرن میوزیم میں کورونا وائرس کے لیے کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران انتہائی قیمتی پینٹنگ چوری کرلی گئی ہے، جس کی مالیت 2 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔
یہ میوزیم انتظامیہ کے لیے انتہائی پریشان کن وقت ہے کیوںکہ پہلے ہی کورونا وائرس کے باعث عجائب گھر کئی ہفتوں سے بند پڑا ہے اور اب یہ بیش قیمت پینٹنگ بھی چوری ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک چور ہتھوڑے کی مدد سے میوزیم کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتا ہے اور پھر ونسنٹ وین گو کی بیش قیمتی پینٹنگ اٹھاکر لے جاتا ہے۔ یہ نایاب پینٹنگ مشہور ڈچ آرٹسٹ ونسنٹ وین گو نے 1884 میں بنائی تھی، جس کے 1887 میں ہونے والی ایک نیلامی میں ڈھائی کروڑ پاؤنڈ (آج کے تقریباً 6 کروڑ پاؤنڈ) قیمت لگ چکی تھی لیکن اُس وقت اِس پینٹنگ کو فروخت نہیں کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ سنگر لیرن انتظامیہ نے 12 مارچ کو 100 سے زائد افراد کے ایک جگہ جمع ہونے سے متعلق حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے میوزیم مکمل طور پر بند کردیا تھا۔ اگر آپ نے اَب تک اِس پینٹنگ کو نہیں دیکھا تو اِس مختصر لنک کی مدد سے ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ http://dailym.ai/2VDOiPT
٭لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر کورونا مریض کے ساتھ رہنے کی سزا:دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ اِس لیے کیا گیا ہے کہ تاکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ کورونا وائرس کی عالمی ہلاکت خیزی دیکھنے کے بعد بھی لاک ڈاؤن کی افادیت کو سمجھنے سے انکاری ہیں اور لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے کے لیے نت نئے طریقے اور بہانے ڈھونڈنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی بگڑے ہوئے افراد کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھارتی ریاست تامل ناڈو کی پولیس نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو انوکھی سزا دینا شروع کردی ہے۔ سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ناکے پر کھڑے پولیس اہل کاروں نے موٹرسائیکل پر سوار تین نوجوانوں کو روکا۔ نوجوانوں نے کورونا سے بچاؤ کا ماسک پہنا ہوا تھا اور نہ ہی سماجی دوری کے اُصول کو کسی خاطر میں لائے تھے۔
پولیس اہل کاروں نے ناکے پر اپنے ساتھ ایک نقلی ایمبولینس کھڑی کی ہوئی تھی جس میں ایک آدمی کو کورونا کا مریض بنا کر لٹایا ہوا تھا۔ جب پولیس اہل کاروں نے نوجوانوں سے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی وجہ پوچھی تو تینوں نوجوانوں میں سے کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہ دے سکا، جس پر پولیس اہل کاروں نے تینوں نوجوانوں کو بتایا کہ اب انہیں ایک ایسی ایمبولینس میں بند کیا جائے گا جس میں کورونا کا مریض ہے۔ یہ جملہ سنتے ہی تینوں نوجوانوں کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگے مگر ناکے پر کھڑے چاک و چوبند پولیس اہل کاروں نے انہیں قابو کر کے زبردستی ایمبولینس میں ڈال دیا۔ جب نوجوانوں کو ایمبولینس میں زبردستی داخل کیا تو اندر موجود کورونا کا نقلی مریض اٹھ کر نوجوانوں کی طرف بڑھنا شروع ہوا جس پر وہ تینوں کھڑکیوں سے کود کر بھاگ نکلے۔ ناکے پر کھڑے پولیس افسر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے نوجوانوں کو اسی طرح ڈرایا جائے گا تاکہ انہیں کورونا وائرس کی حساسیت کا درست اندازہ ہوسکے۔