’ ’قندِ مقرر ‘‘

خیال تھا کہ ان شگفتہ باتوں کے مطالعے سے وقتی طور پر ہی سہی کچھ ہنسنے ہنسانے کا موقع مل جائے گا۔


Amjad Islam Amjad May 07, 2020
[email protected]

کچھ عرصہ قبل میں نے شاہدحمید صاحب کی مرتب کردہ کتاب''شاعروں ادیبوں کے لطیفے'' سے کچھ مختصر لطیفے ایک کالم میں درج کیے تھے کہ کورونا کی وجہ سے مسلسل گھر میں بیکار بیٹھنے سے طبیعتوں پر ایک اضمحلال ساچھاتا چلا جا رہا تھا، خیال تھا کہ ان شگفتہ باتوں کے مطالعے سے وقتی طور پر ہی سہی کچھ ہنسنے ہنسانے کا موقع مل جائے گا، یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا اور بہت سے قارئین نے اس پر اپنی پسندیدگی کا کھل کر اظہار بھی کیا اور یہ فرمائش بھی کی کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے لیکن فیضؔ صاحب کے بقول '' اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا'' سو اس کا موقع نہ نکل سکا۔

اب ایک اعلان کے مطابق شائد نو مئی کے بعد سے پابندیاں بہت کم رہ جائیں گی اور ہم پھر سے نارمل زندگی کی طرف واپس لوٹنا شروع کردیں گے تو خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی ''کورونا''کی اس مجوزہ اور مبینہ رخصتی میں منتخب لطائف کی ایک اور قسط کے ساتھ اپنا حصہ ڈال دیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ توآیئے کچھ دیر ہنسنے اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

٭''ایک تقریب میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء ا لحق کی فرمائش پر ضمیر جعفری نے ایک شعر سنایا، قریب کھڑے افراد نے شعر کی تعریف کی لیکن حفیظ جالندھری گویا ہوئے،''یار ضمیر جب تم میرے ماتحت کام کرتے تھے اُس وقت تو اتنے اچھے شعر نہیں کہہ پاتے تھے۔''

''جی ہاں، یہ سب آپ سے دُوری کا فیض ہے'' ضمیر جعفری نے برجستہ جواب دیا۔

٭مجید لاہوری خاصے بھاری بھرکم جثے کے مالک مزاحیہ شاعر تھے، اُن سے کسی دوست نے پوچھا، ''مجید صاحب آپ دنیا بھر کے لوگوں کا مضحکہ اُڑاتے ہیں، کبھی آپ کا بھی کسی نے یوں مذاق اُڑایا ہے؟'' ہاں ...ایک بار مجید نے جواب دیا۔ ''ہوا یوں کہ میں دفتر سے نکل کر سڑک پر آیا، ایک رکشہ والے کو ہاتھ سے روکا اور کہا کیماڑی لے چلو گے؟''رکشہ والے نے میرے تن و توش کوغور سے دیکھا اور یوں جیسے وزن کر رہا ہو اور پھر بولا، ''لے چلوں گا مگر دو پھیروں میں''۔

٭جگن ناتھ آزاد اٹلانٹا تشریف لے گئے تو چائے دیتے ہوئے میزبان نے پوچھا کہ'' آزاد صاحب چینی کتنی لیں گے؟'' جواب دیا ''اپنے گھر تو ایک ہی چمچ لیتا ہوں لیکن باہر چائے پینے پر دو تین چمچ سے کم چینی نہیں لیتا'' اس پر میزبان نے ایک چمچ چینی اُن کی پیالی میں ڈالتے ہوئے کہا، ''آزاد صاحب اسے اپنا ہی گھر سمجھیے''۔

٭مشاعروں میں ہُوٹنگ کی ایک روایت چلی آرہی ہے، جب سامعین میں ادبی ذوق کا رچائو بھی ہو تو ہُوٹنگ بھی پُرلطف بن جاتی ہے۔ ایک مشاعرے میں قتیل شفائی اپنی غزل سنا رہے تھے۔

''انگڑائی پہ انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی''۔

اتفاقاً ایک مصرعہ اُٹھاتے وقت آواز پھٹ گئی، مجمع میں سے برجستہ آواز آئی۔

''گاتے گاتے بیٹھ گئی آواز قتیل شفائی کی''

٭غالب اکیڈمی نئی دہلی میں شاعری کی ایک کتاب کے اجراء کے سلسلے میں مجتبیٰ حسین نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کتاب کی مقبولیت اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ چھ ماہ میں ہی اس کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آگیا ہے، اس موقع پر خصوصی رعایت کا اعلان بھی کیا گیا ، دوسرے ایڈیشن کی ایک جلد خریدنے والے کو اس کے پہلے ایڈیشن کی دو جلدیں مفت دی جائیں گی۔

٭ مشاق احمد یوسفی نے کسی کی آپ بیتی احمد فراز کو بذریعہ ڈاک بھیجی، ساتھ میں یک سطری رقعہ لکھا ''مطلوبہ آپ بیتی ارسالِ خدمت ہے، سنائیں آپ اپنی ''پاپ بیتی؟ کب لکھ رہے ہیں۔''

٭احمد ندیم قاسمی کراچی گئے تو ابراہیم جلیس نے اُن سے پوچھا''قاسمی صاحب آپ لاہور کب جارہے ہیں؟'' ''پرسوں ٹرین سے بکنگ کروا رکھی ہے'' قاسمی صاحب نے جواب دیا تو ابراہیم جلیس نے کہا ''کمال ہے صاحب اس سے اگلے دن میں نے آپ کی دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا، اس کا مطلب ہے اس بار بھی آپ مجھے میزبانی کا شرف نہیں بخشیں گے''۔

٭ایک منتظم مشاعرہ معاوضے کی رقم میں کمی کے خواہاں تھے چنانچہ انھوں نے ایک دوسرے شاعر کی مثال دیتے ہوئے کہا ''اُسے تو ہم اتنے بھی پیسے دیں وہ لے کر خوش ہوجاتا ہے'' اس پر منیر نیازی بولے ''ا س شاعر کا کیا ہے وہ تو آٹا لے کر بھی خوش ہوجاتا ہے ''۔

٭بسمل شاہجہانپوری اپنی رِیش مبارک کو کھجاتے ہوئے نریش کمار شادؔ سے کہنے لگے''صاحب میں اپنا دیوان چھپوا کر شایع کرنا چاہتا ہوں لیکن پریشانی یہ ہے کہ اُس کے لیے مناسب نام نہیں سوجھ رہا، اپنے تخلص کی رعائت سے مجموعے کا نام رکھنا چاہتاہوں جیسے فانی بدایونی کے مجموعہ کا نام ''باقیات فانی'' ہے، مخمور دہلوی کے مجموعہ کا نام ''بادہ مخمور'' ہے، جو ش ملسیانی کے مجموعے کا نام ''بادہ سروش'' ہے۔ شاد نے نہایت نیاز مندی سے دریافت کیا ''تو اس لحاظ سے آپ کی کتاب کا نام ''مرغ بسمل'' کیسا رہے گا؟

٭ایک روز ایک مشہور پبلشر نے فرازؔ کو فون کیا اور کہا ''آپ اپنی خود نوِشت کیوں نہیں لکھتے، آپ اگر اپنی آپ بیتی لکھیں اور اُس میں ساری ایسی خواتین کا ذکر ہو جن سے آپ کے مراسم رہے ہیں تو ہم آپ کو تین لاکھ روپے معاوضہ دیں گے'' احمد فراز نے جواب دیا ''یہ سودا نہیں ہوسکتا کیونکہ پانچ پانچ لاکھ روپے تو ایسی کئی خواتین مجھے آپ بیتی نہ لکھنے کے لیے دینے کو تیار ہیں''۔

٭ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں، اس پرمشفق خواجہ نے انھیں مشورہ دیا ''جون صاحب اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہیے یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کرسکتے ہیں''۔

٭ایک محفل میں ایک صاحب کافی دیر سے اپنی تعریف میں باتیں کر رہے تھے، باتیں کرتے کرتے انھیں اپنا ماضی بے اختیار یا دآیا۔ فرمانے لگے ''ہمارے بچپن کا زمانہ بھی کیا سستا زمانہ تھا، دایہ بچہ جنوا کر تھوڑا سا گُڑ اور آٹھ آنے لے کر خوش ہوجاتی تھی۔'' مشفق خواجہ پچھلی صف میں بیٹھے یہ باتیں سن رہے تھے۔ یہ جملہ سنتے ہی آغا صاحب سے گویا ہوئے،''اور آٹھ آنے میں بچے بھی آپ جیسے ہی پیدا ہوتے تھے''۔

٭جگن ناتھ آزاد نے ایوب واصف کی مرتبہ کتاب ''جگن ناتھ آزاد ۔ایک مطالعہ'' کی جلد مشفق خواجہ کو پیش کی تو انھوں نے کہا ''اس پر کچھ لکھ دیجیے''

جگن ناتھ آزاد نے کہا کہ اس شرط پر لکھوں گا کہ آپ یہ کتاب پڑھیں گے ۔ا س پر مشفق خواجہ بولے ''اس ذرا سے احسان کی اتنی بڑی قیمت طلب کر رہے ہیں آپ''

غالب نے اپنے کسی خط میں لکھا کہ کاغذ نبڑ گیا سو اپنی بات کو ختم کر تا ہوں تو میرے اندازے کے مطابق کالم بھی نبڑ ہی گیاہے، سو آج کے لیے اتنا ہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔