تحریکِ انصاف کا انصاف اسکینڈلز کی زد میں

اب یہ کپتان کا امتحان ہے کہ وہ کرپشن فکسنگ میں ملوث اپنے کھلاڑیوں کو کیسے سزا دیتے ہیں


اب یہ کپتان کا امتحان ہے کہ وہ کرپشن فکسنگ میں ملوث اپنے کھلاڑیوں کو کیسے سزا دیتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سوشل سائنسز میں پولیٹیکل اکانومی تھیوری عالمی سیاست، حکومتیں بناتے شطرنج کے مہروں کی چالوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ کیسے زمینداروں نے صنعتیں بنائیں، وہ لوگ سیاست میں آئے، انہوں نے حکومتیں بنائیں اور وہی لوگ ملکوں کے ساتھ ساتھ دنیا کو کنٹرول کرنے لگے۔ اس وقت جہاں عالمی معیشت کو چند خاندان کنٹرول کرتے ہیں، اسی طرح 1970 کے بعد پاکستانی سیاست میں بھی چند خاندان قابض ہوگئے۔ یہ وہ خاندان تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تقسیم ہند سے قبل انگریزوں سے خوب مراعات حاصل کیں، بڑے پیمانے پر جائیدادیں بنائیں، تقسیم کے بعد ملکی زراعت پر قابض ہوگئے۔ اسی طرح یہی لوگ صنعتکار بنے اور بعد ازاں پاکستانی سیاست میں ممتاز مقام حاصل کرلیا۔ اب یہ خاندان پاکستانی سیاست میں عقل کل سمجھے جاتے ہیں۔ یہ خاندان شطرنج کی ایسی چالیں چلتے ہیں کہ پاکستانی عوام ہر بار دانتوں میں انگلیاں دبائے، آنکھیں موندے ان پر اعتماد کرتے ہیں۔

پولیٹیکل اکانومی تھیوری کے مطابق سیاستدان ملکی سیاست میں محض اس لیے قدم رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرسکیں، حالانکہ سیاسیات کے ماہرین اسے مفادات کا ٹکراؤ سمجھتے ہیں۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے کسی فرد کو ملکی باگ ڈور نہیں سنبھالنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی میں پاکستان میں ایسا نہیں۔ یہاں سیاست محض اپنے مفادات کے تحفظ کےلیے کی جاتی ہے۔ غریب عوام کے نام پر پالیسیز بنائی جاتی ہیں، سبسڈیز بھی عوام کے فائدے کےلیے دی جاتی ہیں، مگر یہ سامنے دکھائی جانے والی حقیقت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں پالیسیز سیاستدانوں کے کاروباری مفادات کے تحفظ کےلیے بنائی جاتی ہیں، عوامی سبسڈیز کے نام پر درحقیقت سیاستدانوں کو کاروباری مفادات فراہم کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو خود تو سیاست میں نہیں ہوتا لیکن یہ طبقہ ''اسپانسرڈ سیاستدان'' لانچ کرتا ہے اور انہی سیاستدانوں کے ذریعے ملکی سیاست کو کنٹرول کرتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستانی نظام حکومت آج بھی چند خاندان ہی چلا رہے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پورے بائیس سال اسی سیاسی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے میں صرف کیے۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ کیسے ان کے پیسے کے ساتھ کرپشن کی جاتی ہے۔ کیسے چند خاندان عوامی مفادات کے بجائے ذاتی کاروبار کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ قوم نے تحریک انصاف کے نعرے پر اعتماد کیا، انہیں منتخب کرکے اقتدار میں بھیجا، لیکن انہیں اقتدار میں لانے میں الیکٹیبلز کا کردار انتہائی اہم تھا۔ یہ وہی الیکٹیبلز ہیں جو کاروباری مفادات کےلیے اپنی سیاسی ہمدردیاں ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات انتخابات کے دوران چلنے والی ہواؤں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی اسکینڈلز بھی سر اٹھانا شروع ہوگئے۔ آٹا چینی بحران پر تحقیقات ہوئیں، انگلیاں وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں پر اٹھنا شروع ہوگئیں، رپورٹ پبلک ہوئی، ملوث افراد کو سزا دینے کے دعوے بھی کئے گئے، لیکن کورونا کے شور میں یہ اسکینڈل بھی دم توڑ گیا۔

اسی دوران ایک اور اسکینڈل کی رپورٹ بھی وزیراعظم کو پیش کی گئی۔ یہ اسکینڈل بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے متعلق ہے۔ اس اسکینڈل میں بھی وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آٹا، چینی اور بجلی اسکینڈل میں صرف وزیراعظم کے قریبی دوست ہی نہیں بلکہ کئی اعلیٰ سیاسی شخصیات ملوث تھیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ مفادات لینے کا یہ سلسلہ موجودہ حکومت ہی میں نہیں بلکہ ماضی میں بھی جاری رہا ہے۔ دونوں اسکینڈلز کی رپورٹس آنے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ اس پر اپوزیشن کی جانب سے ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی حکومت کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی بتا سکتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے بجلی اسکینڈل کی تحقیقات کےلیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جس میں مختلف اداروں کے افراد شامل تھے، جنہوں نے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے اسکینڈل کا انکشاف کیا۔ کمیٹی نے تحقیقات کیں کہ پاکستان میں دنیا کی سب سے زیادہ مہنگی بجلی تیار کی جارہی ہے۔ بجلی کون چوری کر رہا ہے؟ کتنی بجلی چوری ہورہی ہے؟ بجلی کیسے چوری کی جارہی ہے؟

کمیٹی کی رپورٹ پر آنے سے پہلے پاکستان میں بجلی کی تیاری کے بارے میں معلومات دیتا چلوں۔

1994میں ملک بجلی کے شدید ترین بحران سے گزر رہا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے بجلی میں سرمایہ کاری کےلیے نجی سیکٹر کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سیکٹر کو ''آئی پی پیز'' کا نام دیا گیا جنہوں نے حکومت کو بجلی فراہم کرنے کےلیے نجی بجلی گھر بنائے۔ آئی پی پیز کے تحفظ کےلیے اسی سال انرجی پالیسی لائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت حکومت آئی پی پیز کو بجلی کی تیاری کےلیے ایندھن فراہم کرے گی۔ بجلی کے ایندھن اور تیاری کے حوالے سے میں نے اپنے ایک گزشتہ بلاگ میں تفصیل سے لکھا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ آئی پی پیز حکومت پاکستان سے ایندھن لے کر بجلی تیار کرنے اور ایک بڑے منافعے کے ساتھ حکومت کو بجلی فروخت کرنے لگیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن نے بجلی اسکینڈل کے حوالے سے آئی پی پیز کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے چار اہم خامیوں کی نشاندہی کی۔ رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز بڑے پیمانے پر ایندھن چوری میں ملوث پائی گئیں، یعنی حکومت سے جتنا ایندھن لیا گیا، اتنی بجلی تیار نہیں کی گئی۔ اسی طرح بجلی گھروں کی لاگت بھی حکومت کو غلط بتائی گئی۔ یعنی لاگت بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی۔ اسی طرح کمیشن نے انکشاف کیا کہ آئی پی پیز نے حکومت کی جانب سے 18 فیصد منافع کی بجائے 60 سے 70 فیصد نفع کمایا۔ آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدے کے مطابق حکومت اس بات کی پابند تھی کہ وہ کوئی بجلی گھر بجلی تیار کرے یا نہ کرے، اسے منافع دیا جائے گا۔ لیکن حکومت نے کبھی یہ زحمت ہی نہیں کی کہ بجلی گھروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ ان چاروں خامیوں کو جمع کیا جائے تو آئی پی پیز کی جانب سے قومی خزانے کو لگایا جانے والا ٹیکہ 200 ارب روپے سالانہ ہے۔

اسی وجہ سے پاکستان میں بجلی 14سینٹ فی یونٹ پیدا کی جاتی ہے جبکہ چین، بھارت اور ویت نام میں فی یونٹ بجلی کی قیمت 8 سینٹ ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بجلی 9 سینٹ فی یونٹ میں تیار ہوتی ہے۔ وزارت توانائی کا کہنا ہے کہ تمام اخراجات ملا کر ہمیں فی یونٹ بجلی 22 روپے 41 پیسے میں پڑتی ہے۔ یعنی پاکستان کا موازنہ اگر بھارت سے کیا جائے تو ہم انڈیا سے 75 فیصد مہنگی بجلی تیار کر رہے ہیں۔ بجلی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2002 سے 2020 تک قومی خزانے کو 565 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا گیا ہے۔ 1994 میں 50 ارب روپے کی لاگت سے لگائے جانے والے بجلی گھر آج تک 415 ارب روپے منافع کما چکے ہیں۔

1994 کی پاور پالیسی کے بعد پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2002 میں ایک اور پاور پالیسی لائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت 58 ارب روپے سرمایہ کاری کی گئی جس سے اب تک 203 ارب روپے منافع کمایا جا چکا ہے۔ اسی طرح 2015 میں نواز شریف کی پاور پالیسی کے تحت قائم بجلی گھروں کے منافع کی شرح 71 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

یہاں آپ حیران ہونگے کہ اگر آپ قومی بچت کی اسکیموں میں سرمایہ کاری کریں تو آپ کو 10 سے 11 فیصد منافع دیا جاتا ہے۔ لیکن نواز شریف کی فیاضی کا اندازہ لگائیے کہ آپ اگر پاور سیکٹر میں 100 روپے کی سرمایہ کاری کریں گے تو حکومت آپ کو سالانہ 71 روپے دے گی۔

وزیر اعظم کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ایندھن کی مد میں ملکی خزانے کو 65 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔ ایک جانب آئی پی پیز کے منافع کمانے کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ دوسری جانب پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کا حجم بھی مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ زرداری دور حکومت میں 228 ارب روپے کا گردشی کا قرض تھا۔ نواز شریف کے دور حکومت میں یہ قرض 480 ارب روپے ہوگیا جس میں ماہانہ 10 ارب روپے اضافہ ہوا۔ یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں گردشی قرضوں میں 41 ارب روپے ماہانہ اضافہ ہورہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے دور حکومت میں روزانہ ملکی خزانے کو ایک ارب روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 1900 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی پیداوار کی کیا وجوہ ہیں؟ اس کی بنیادی طور پر دو وجوہ ہیں، پہلی وجہ آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدے جبکہ دوسری اہم وجہ بجلی کی تیاری کےلیے استعمال ہونے والا مہنگا ایندھن ہے۔ پاکستان میں توانائی کے حصول کےلیے جو ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں ان میں کوئلہ، ہائیڈل، فوسل فیول (تیل اور گیس)، سولر، نیوکلیئر اور ونڈ شامل ہیں۔ ان میں بھی سب سے بڑا حصہ فوسل فیول سے چلنے والے پلانٹس سے حاصل ہوتا ہے۔ توانائی کی مجموعی پیداوار میں فوسل فیول کا حصہ 64.2 فیصد ہے جبکہ ہائیڈل 29 فیصد اور نیوکلیئر 5.8 فیصد ہیں۔ فوسل فیول کی شرح کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور 64.2 فیصد میں سے 35.2 فیصد تیل سے اور 29 فیصد قدرتی گیس سے پیدا کیا جارہا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں توانائی کے ماحول دوست اور سستے ذرائع موجود ہیں۔ پاکستان میں بل کھاتے دریا اپنی لہروں میں بے پناہ توانائی لیے سمندر میں گر رہے ہیں۔

ہائیڈل انرجی کے میدان میں بے پناہ مواقع ہونے کے باوجود 1994، 2002 اور 2015 میں اپنائی گئی انرجی پالیسیوں میں تھرمل ذرائع سے توانائی کے حصول کو ترجیح دی گئی ہے جس کے سبب قدرتی گیس اور تیل بجلی پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذریعے کے طور پر سامنے آئے۔ 2015 تک تیل اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی ملک کی کل پیداوار کا 65 فیصد بن چکی تھی۔ اسی طرح سورج، جسے توانائی کا منبع سمجھا جاتا ہے، ملک کے طول و عرض میں سارا سال موجود رہتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بجلی کی تیاری کے بارے میں سوچا نہیں گیا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان ہوا کے ذریعے 50 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی کی پیداوار کی گنجائش ہے مگر حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی۔

کوئلہ اور دیگر فوسل فیول سے تیار ہونے والی بجلی جہاں مہنگی پڑتی ہے، وہیں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی بن رہی ہے۔ حکومت کو محض اپنے قریبی افراد کو نوازنے کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے اپنی دھرتی کی حفاظت کےلیے توانائی کے متبادل ذرائع اختیار کرنا ہوں گے۔

وزیر اعظم عمران خان اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں کہ کیونکہ چینی بحران سے قومی خزانے کو سالانہ 50 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا تھا، لیکن بجلی اسکینڈل کے ذریعے سالانہ 200 ارب روپے لوٹے جارہے ہیں۔ اب یہ کپتان کا امتحان ہے کہ وہ کرپشن فکسنگ میں ملوث اپنے کھلاڑیوں کو کیسے سزا دیتے ہیں جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی دو دھاری تلوار کے کنارے کھڑی ہیں۔ کیا یہ لوگ بھی خود کو احتساب کےلیے پیش کریں گے یا سیاسی انتقام کا بہانہ بنا کر قومی خزانہ ہضم کرجائیں گے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی اسکینڈل کی رپورٹ کے تناظر میں آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے، ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ سوشل سائنسز کی تھیوریز کبھی بھی بدل سکتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں