لوگ سندھی سیکھنا چاہتے ہیں

سندھی زبان کی ایک بڑی تاریخ ہے اور شروع سے ہی صوبہ سندھ میں اسکولوں اور کالجوں میں اس پر دھیان دینا چاہیے تھا۔۔۔


لیاقت راجپر December 02, 2013

لاہور: سندھی زبان کی ایک بڑی تاریخ ہے اور شروع سے ہی صوبہ سندھ میں اسکولوں اور کالجوں میں اس پر دھیان دینا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ 1972 میں سندھ اسمبلی میں ایک بل پاس کیا گیا جس کے تحت تیسری جماعت سے لے کر 12 جماعت تک سندھی مضمون پڑھانا لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس سلسلے میں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں سندھی لینگویج ٹیچرز بھرتی ہونا شروع ہوگئے اور 1979 میں نویں اور دسویں جماعت کے لیے بورڈ میں امتحان کے لیے اسٹوڈنٹنس نے بھرپور تیاری کی۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازموں کے لیے بھی اس سے واقف ہونا ضروری کردیا گیا۔

اس سلسلے میں 17 گریڈ کے لیے 10 سال کا ایک پیکیج بنایا گیا جس کے لیے این جی وی اسکول میں کلاسز بھی شروع ہو گئیں مگر پی پی پی کی حکومت جانے کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا حالانکہ 1972 میں ہی کراچی یونیورسٹی میں سندھی ڈیپارٹمنٹ بھی قائم کیا گیا جہاں پر گزیٹڈ افسران کے لیے کلاسز چلائی گئیں اس کے بعد پی پی پی حکومت نے 1988 میں دوبارہ اس طرف دھیان دینا شروع کیا کیونکہ جب اندرون سندھ سے نوکری اور روزگار کے حوالے سے نوجوان کراچی آئے تو ان کے بچوں کو سندھی پڑھنے میں بڑی دقت ہوئی۔

یہ سلسلہ بھی مزید کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ کراچی میں سندھی میڈیم اسکول آٹے میں نمک کے برابر تھے اور مجبوراً آنیوالے لوگوں نے اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی میڈیم اسکولز میں داخل کروایا جس سے یہ نقصان ہوا کہ ان کے بچے صحیح اور درست سندھی بولنا بھول گئے۔ پرائیویٹ اسکول والوں نے بھی اس مضمون کو اہمیت دینا چھوڑ دیا اور صرف برائے نام اسکولوں میں سندھی لینگویج ٹیچرز بہت کم تنخواہ پر رکھے۔ سرکاری اسکولوں میں سندھی لینگویج ٹیچر(LST) کے against اردو بولنے والے ٹیچرز بھرتی کرنا شروع کیے جس سے سندھی مضمون پڑھانے اور پڑھنے کا سلسلہ منجمد ہوگیا حالانکہ اردو اور دوسری زبان بولنے والے سندھی پڑھنا چاہتے تھے۔

میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ بچے ہم سے بھی لفظوں کے معنی اور استعمال پوچھتے تھے بچوں کے والدین بھی چاہتے تھے کہ ان کے بچے بھی کچھ نہ کچھ سندھی زبان سیکھیں جو ایک اضافی نالج ہے مگر پتا نہیں کیوں یہ چیز آگے نہ بڑھ سکی یہی رویہ پورے ملک کی مادری زبانوں کی ہے، مادری زبان سے بھی سوتیلی ماں جیسا سلوک ہوتا رہا۔ کراچی میں کئی مرتبہ لوگوں نے ذاتی میٹنگز میں سندھی بولنے والے دوستوں کو کہا کہ وہ انھیں سندھی زبان سکھائیں اور ان سے بات کریں مگر دلچسپ اتفاق یہ ہوا کہ ہمارے لوگ ان سے اردو میں بولتے کیونکہ وہ اپنی اردو ٹھیک کرنا چاہتے تھے کیونکہ انھوں نے پڑھ رکھا تھا کہ

آتی ہے اردو زباں آتے آتے

اس بارے میں مجھے اپنے مرحوم دوست نصرت حسین ابڑو کی باتیں یاد آتی ہیں جو ریڈیو پاکستان کراچی سے سندھی، اردو بول چال سکھاتے تھے اور اس کی کوششوں سے کچھ کتابیں بھی مارکیٹ میں آگئیں۔ اس سے پہلے میڈم فہمیدہ حسین بھی اس قسم کا پروگرام ریڈیو پاکستان کراچی سے پیش کرتی رہی تھیں۔ میں ان LST طور پر کام کرنیوالوں کو اس بات کا ذمے دار ٹھہراتا ہوں جنھوں نے سرکار سے تنخواہ تو لے لی مگر اپنا فرض ادا نہیں کیا جس کی وجہ ایک بڑا حصہ نوجوانوں کا جو سندھی زبان سیکھنا چاہتا تھا اس سے محروم رہ گیا۔ اس کے علاوہ آنیوالی ہر حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں لی اب نثار احمد کھوڑو نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو پرائیویٹ اسکولز سندھی مضمون نہیں پڑھائینگے ان کی رجسٹریشن ختم کی جائے گی۔ اس بات کو بھی دو تین مہینے ہونیوالے ہیں مگر انھوں نے کوئی ٹیم نہیں بنائی جو اس بات کا پتہ لگائے کہ ان کے اس اعلان کو اہمیت ملی ہے کہ نہیں اور اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میں بھی جائیں اور دیکھیں کہ حکم پر عمل ہوا کہ نہیں۔ اس کے علاوہ انھیں چاہیے کہ کراچی میں پرانے سندھی میڈیم کو بحال کروائیں اور نئے اسکول قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ شہر میں رہنے والے سندھیوں میں ایک بڑا حصہ غریب لوگوں کا بھی ہے جو پرائیویٹ اسکولوں کا خرچہ برداشت نہیں کرتے اور سرکاری اسکولوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ سندھی یا پھر اردو میڈیم اسکول میں اپنے بچوں کو داخل کرواسکیں۔

المیہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں رہنے والے سندھیوں کے بچے اپنی زبان سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں اگر وہ کچھ سیکھنا بھی چاہتے ہیں تو انھیں وہ ماحول نہیں ملتا کیونکہ سندھی اخباروں اور الیکٹرانک سندھی چینلز میں بھی اصلی سندھی زبان استعمال نہیں ہو رہی ہے اس میں اردو زبان کا استعمال زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے ڈر ہے کہ ایسا نہ ہو کہ سندھی زبان اپنی اصلیت کھو دے۔ اس سلسلے میں ہمارے ادیب اور شاعر بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ سندھی زبان کی اصلیت برقرار رکھنے کے لیے سندھی لینگویج اتھارٹی بنائی گئی ہے وہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہمارے سیاستدان صرف تقریریں کرنے اور الیکشن کے دوران کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے کرنے کے ماہر ہیںاور ہماری بدقسمتی ہے کہ دوبارہ وہی لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں۔

بچوں کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں بوقت ضرورت انگریزی، اردو، عربی اور سندھی پڑھنی پڑتی ہے جس سے ان کے ذہن پر بڑا بوجھ پڑتا ہے لیکن جب کسی کے لیے دلچسپی ہوگی تو وہ اسے جلد سمجھ جائے گا مثال کے طور پر آپ انگریزی کو دیکھیں جس میں والدین اور بچے خود بہت دلچسپی لیتے ہیں ، باقی زبانیں صرف پاس ہونے کے لیے پڑھتے ہیں۔ اردو ایک تو ان کی مادری زبان ہے دوسرا یہ رابطہ کی زبان بھی ہے ۔ اخبارات، جرائد اور الیکٹرانک چینلز کی بھرمار ہے اس لیے انھیں زیادہ پرابلم نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں سندھی زبان کو آسان اور دلچسپ بنانے کے لیے اردو زبان اور ادب بھی ترجمہ کر کے سندھی میں اردو بولنے والوں کے لیے تیار کیا جائے تاکہ وہ اسے آسانی کے ساتھ سمجھ اور یاد کرسکیں۔ اب تو انگریزی زبان کی اہمیت نے اردو زبان کو بھی نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے ۔طالب علم اور لوگ اردو کے بجائے انگریزی میں بولنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔موبائل پر رومن اردو کا دریا بہہ رہا ہے۔

میں نے ایک ریٹائرڈ SLT عبدالحکیم تنیو سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ سندھی مضمون کو اسکولوں میں صحیح اہمیت اس لیے بھی نہیں ملی کہ ایک تو ہر حکومت نے اسے نظرانداز کیا اور دوسرا یہ کہ کسی بھی ادبی حلقے کی طرف سے اس کی کامیابی کے لیے اردو، سندھی زبانوں میں مل کر کام نہیں کیا اور پھر SLT نے اپنا فرض دل سے نہیں نبھایا اور وقت گزارتے رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی کے اردو بولنے والے سندھی سیکھنا چاہتے تھے ۔ اب جب کہ سندھی الیکٹرانک چینلز آنے سے اور سندھی آبادی بڑھنے سے یہ لوگ سندھی زبان کو باقاعدہ سمجھتے ہیں ، بس وہ لکھ نہیں سکتے اور بولنا بھی چاہتے ہیں مگر اب ضرورت ہے کہ گھل مل جائیں، زبانیں تو محبت و یکجہتی کا خیابان ہیں ۔حکومت عوام اور پرائیویٹ اسکولز مل کر سندھی مضمون کو اسکولوں میں پڑھاکر اسے کامیاب کریں تاکہ دونوں زبان بولنے والے آپس میں اور قریب آجائیں۔ اس کے علاوہ SLT کو بھی وہی Status دینا چاہیے جو دوسرے اساتذہ کو دیا جاتا ہے اور ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا جائے۔ انھیں ٹرانسپورٹ میں بھی آسانی دی جائے۔ مزید یہ ہے کہ کراچی میں اردو اور سندھی میڈیم اسکول بڑے پیمانے پر قائم کیے جائیں کیونکہ جب تک انسان کو اپنی مادری زبان پر عبور نہیں ہوگا وہ دوسری زبان صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں