شاید اب ہتھیار ڈالنے کا وقت ہے

اب بجٹ صحت پر لگائیے، زندگی بچانے کے ہتھیار بنانے پر لگائیے، بھوک مٹانے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے پر لگائیے


سعدیہ مظہر April 07, 2020
ہمیں جنگی ہتھیار نہیں بلکہ زندگی بچانے والے ہتھیار چاہئیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ برس دنیا بھر میں طرح طرح کے ہتھیاروں کے حصول اور مسلح افواج پر کل 1730 کھرب ڈالر خرچ کیے گئے، جو سرد جنگ کے بعد کے دور کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ سب سے زیادہ دفاعی بجٹ والے تین ممالک امریکا، چین اور سعودی عرب تھے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں اسلحے کی خریداری اور مختلف ممالک کی مسلح افواج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کا رجحان اتنا زیادہ ہے کہ 2017 میں عالمی سطح پر دفاعی شعبے میں اتنی زیادہ رقوم خرچ کی گئیں، جتنی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے آج تک کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔ سپری کے مطابق گزشتہ برس عالمی سطح پر فوجی اخراجات کی مد میں 1.73 ٹریلین ڈالر یا 1.4 ٹریلین یورو سے زائد کی رقوم خرچ کی گئیں۔

عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر رہنے والے ملک چین نے پچھلے برس اپنی مسلح افواج پر 228 ارب ڈالر خرچ کیے، جو اس سے ایک سال پہلے کے چینی فوجی بجٹ کے مقابلے میں 12 ارب ڈالر زیادہ تھے۔ 2017 کی اس فہرست میں جرمنی اپنے عسکری اخراجات کے لحاظ سے نویں نمبر پر رہا، جس نے دفاعی شعبے میں کل 44.3 بلین ڈالر یا قریب 37 بلین یورو خرچ کیے۔

انہی اعداد و شمار کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ چین 2008 سے اب تک اپنے دفاعی بجٹ کو دگنا کرچکا ہے اور پچھلے برس بیجنگ کا فوجی بجٹ عالمی دفاعی اخراجات کے 13 فیصد کے برابر تھا۔

جنوبی ایشیا میں آبادی کے حوالے سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت نے پچھلے سال دفاعی شعبے میں قریب 64 ارب ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقوم اتنی زیادہ تھیں کہ اس وجہ سے بھارت فرانس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے عسکری بجٹ کی رو سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا۔

یہ ہیں وہ اعداد و شمار جو نہیں معلوم انسانی بقا کےلیے لگائے گئے پیسوں کا ہے یا انسانیت کے خاتمے کےلیے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اب دیکھتے ہیں تصویر کا دوسرا رخ۔

بھوک اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یعنی دنیا کی بہت بڑی آبادی ایسی بھی ہے جسے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 1.02 ملین افراد بھوکے رہتے ہیں۔ جبکہ دنیا کا ہر چوتھا شخص فاقہ زدہ ہے جو اس وقت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں زیادہ تعداد 3 کروڑ بچوں کی ہے، جو غذائیت کی کمی کا شکار تھے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر چار سیکنڈ بعد ایک شخص بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ جبکہ ایک سال میں یہ تعداد 90 لاکھ تک جاپہنچتی ہے جو ملیریا، کینسر اور دیگر موذی امراض سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بھوک اور افلاس دنیا کی سب سے بڑی موذی بیماری بنی ہوئی ہے۔ جس کی حالت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے 1 ارب 20 کروڑ انسان صرف ایک ڈالر روز پر گزارہ کر رہے ہیں۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے جہاں انسان بھوک سے مر رہے ہوں، وہاں ہتھیاروں پر خرچ ہونے والا ہر ایک روپیہ سوالیہ نشان ہے۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں کورونا نے ثابت کردیا کہ نہ تو ہتھیار کسی کام کے، نہ اسٹیٹس اور نہ ہی غریب اور امیر ممالک میں کوئی فرق۔ وہ جنگ جو چین اور امریکا کے درمیان تجارت اور کرنسی پر چل رہی تھی، سب غیر اہم ہوگئی کیونکہ بات انسانی بقا کی آگئی۔

پروفیسر احمد رفیق اختر فرماتے ہیں ''جب کسی غریب کی زندگی بھر کی جمع پونجی، اس کی اس گندم کی فصل پر لگی ہو جس کے کٹنے کا موسم آجائے مگر دوسری طرف گرمی کی شدت سے گھبرا کر لوگ اللہ کے کسی برگزیدہ بندے کو دعا کا کہیں تب بھی اس کی دعا قبول نہیں کرتا خدا، کیونکہ اس کی مصلحت اور محبت ذرا الگ ہے۔ اسی طرح کورونا وہ وبا ہے جو زمینی مسائل کا رخ بدلنے آئی ہے۔ اللہ کی مصلحت ہے کہ عبادت گاہیں خواہ کسی بھی مذہبی پیروکار کی ہوں، بند پڑی ہیں، انسان کا دوسرے انسان سے ملنا بند ہوگیا۔ تجارت، سفری راستے، ہوائی جہاز، دفاتر، تعلیمی ادارے گویا زندگی کو ایک وبا، مرض نے جامد کردیا۔ دیکھیے اب یہاں اللہ کی مصلحت کیا ہے؟

تو آج کہاں ہیں وہ جنگی ہتھیار، جن پر اتنا بجٹ لگایا گیا؟ آج اس وبا نے امریکا جیسی سپر پاور کو اپنے صحت کے بجٹ کو بڑھانے پر مجبور کیا۔

نیویارک سے آتی آوازوں نے بتایا کہ ہتھیار تو چاہئیں مگر جان بچانے والے۔ ہر ملک وینٹی لیٹرز کی کمی کا شکار ہے۔ وبا کا خوف اتنا ہے کہ اشیائے خورو نوش تک گھروں میں ذخیرہ کی جاچکیں، یعنی زندگی بھی اہم، غذا بھی اور صحت بھی۔

اٹلی کے وزیراعظم نے کس بیچارگی سے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اس وبا کے سامنے۔ برطانیہ کا شہزادہ اور وزیراعظم تک اس کا شکار ہوچکے۔ مصر کے دو جرنیل اپنی جان سے گئے مگر وہ جنگی ہتھیار کس کام آئے؟

لمحہ فکریہ ہے! ہمیں جنگی ہتھیار نہیں بلکہ زندگی بچانے والے ہتھیار چاہئیں۔ مگر کیا اب بھی اس بات کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھا جائے گا؟ چین سے شروع ہوا لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور سب سے اہم صرف انسانی جان ہے آج۔

گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلیاں، سپر پاور کی دوڑ، سیاہ و سفید کا جھگڑا، بادشاہ اور رعایا کا فرق، آج سب ختم۔ ہمیں اپنی نئی نسل کےلیے ایک صحت مند زمین بنانی ہے۔ اب معاشرت بدلنے کے آثار ہیں۔ امید یہی کی جا رہی ہے کہ اس طوفان کے تھمنے کے بعد شاید بہت سی تبدیلیاں رونما ہوں۔ قوی امکان ہے کہ زندگی گزارنے کے انداز و اطوار ہی بدل جائیں اور یقیناً یہ مثبت تبدیلیاں ہی ہوں گی۔

یہ طے ہوا کہ اسلحے کی پیداوار پر لگایا گیا سرمایہ آج کسی کے کام نہیں آرہا اور سائنس دان اس بات کی پیش گوئیاں پچھلے کچھ سال سے بارہا کرچکے کہ دنیا کسی جنگ کا سامنا نہیں کرے گی۔ ہاں کسی وبا سے جنگ لڑنی پڑ سکتی ہے۔ اور اس جنگ سے آج دنیا نبرد آزما ہے۔ اب بجٹ صحت پر لگائیے، زندگی بچانے کے ہتھیار بنانے پر لگائیے، بھوک مٹانے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے پر لگائیے۔ یوں سمجھیے کہ قدرت اب خود ہم سب کے کان کھینچ کر بتا رہی ہے کہ حضرت انسان یہ ہیں وہ اہم شعبے جن پر تمہیں اہمیت دینی چاہیے یا یوں کہیں کہ قدرت نے چیدہ چیدہ نکات بتادیے ہمیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں