افغانستان کی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھیے

ہمیں کوروناوائرس کے ساتھ ساتھ اپنے سفارتی مستقبل کی بہتری کےلیے افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات پر نظر رکھنی ہوگی


ہمیں کوروناوائرس کے ساتھ ساتھ اپنے سفارتی مستقبل کی بہتری کےلیے افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات پرنظر رکھنی ہوگی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

رواں سال 29 فروری کو دوحہ (قطر) میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ ہوا، جس کے بعد یہ امید کی جانے لگی کہ اب افغانستان میں حالات کچھ بہتر ہوجائیں گے اور اس اُنیس سالہ طویل جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ لیکن ان تمام امیدوں پر اس وقت پانی پھرتا ہوا محسوس ہوا جب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کی اہم ترین شرط کو ماننے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے طالبان نے بھی معاہدے کی پاسداری سے انکار کر دیا اور یہ معاہدہ کھٹائی میں پڑنے لگا۔ پھر رفتہ رفتہ اشرف غنی کی حکومت نے قیدیوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی۔ اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کی بازگشت سنائی دینے لگی۔

چند روز قبل افغان حکومت نے 21 رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ ٹیم کی تشکیل افغان امن عمل کےلیے اہم پیش رفت ہے۔ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بعد افغانستان میں قیام امن کے امکانات بہت زیادہ روشن ہوجائیں گے۔ افغانستان میں امن قائم ہونا پاکستان میں قیام امن کےلیے بہت ضروری ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام سے پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہوجائے گی۔ افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد وہاں کس کی حکومت قائم ہوگی؟ اس کے بارے میں دو احتمالات ہیں۔ پہلا یہ کہ وہاں طالبان کی حکومت قائم ہوجائے گی کیونکہ وہی اس وقت سب سے زیادہ طاقتور گروپ ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوگی جو مختلف سیاسی جماعتوں اور گروپوں پر مشتمل ہو گی لیکن اس حکومت میں بھی زیادہ حصہ طالبان کا ہی ہو گا۔ باقی گروپوں کی شمولیت برائے نام ہو گی، حکومت میں اکثریت طالبان کی ہوگی۔ اس لیے مملکت کے مستقبل کے فیصلے ان کی مرضی سے ہی ہوں گے۔

چند روز قبل مجھے ایک کالج میں مطالعہ پاکستان کے مضمون پر لیکچر دینے کا موقع ملا جس میں مجھے پاک امریکا تعلقات پر گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا۔ لیکچر کے بعد ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آرہی ہے، اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟ میں نے کہا کہ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو افغانستان پر طالبان نے تقریباً 6 سال حکومت کی۔ ان کی حکومت کو صرف تین ممالک پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا۔ اس عرصے میں افغانستان کے پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات استوار رہے۔ ہماری مغربی سرحد محفوظ تھی، یہاں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کے بجائے پرامن شہریوں کی نقل و حرکت تھی۔ سرحد بالکل کھلی ہونے کے باوجود وہاں سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ طالبان پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کا احترام بھی کرتے تھے جبکہ پاکستانی بھی طالبان کی حکومت کو پسند کرتے تھے۔ لیکن جیسے ہی افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو افغانستان پاکستان کےلیے وبال جان بن گیا۔

طالبان کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی تمام حکومتیں امریکا اور بھارت کی فرمانبردار رہیں اور پاکستان کےلیے خطرہ بنی رہیں۔ ہماری تقریباً 2400 کلومیٹر طویل سرحد غیر محفوظ ہوگئی اور وہاں سے دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت جاری رہی۔ بالآخر پاکستانی فوج اس نقل و حرکت کو روکنے کےلیے طویل ترین خاردار باڑ لگانے پر مجبور ہو گئی۔ باڑ لگانے کے دوران بھی افغانستان کی طرف سے کئی بار افواج پاکستان کے سپاہیوں پر حملے ہوئے اور انہیں اس کام سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی، جس کے نتیجے میں ہمارے بہت سے جوان جام شہادت نوش کر گئے۔ لیکن فوج نے یہ کام جاری رکھا جو بہت ضروری تھا۔

طالبان کے بعد کی ان حکومتوں نے بھارت کو افغانستان میں اپنے قدم جمانے کا بھرپور موقع دیا جس نے افغانستان میں جگہ جگہ اپنے قونصل خانے کھولے جن کی کی آڑ میں اس نے دہشت گردی کو فروغ دیا اور پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ لیکن طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کا جھکاؤ بھارت کے بجائے پاکستان کی طرف تھا۔ وہ بھارت سے زیادہ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے تھے۔

لہٰذا ان تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو اب بھی افغانستان میں اگر طالبان کی حکومت قائم ہوگئی تو ان کے تعلقات پاکستان کے ساتھ بہتر ہوں گے۔

طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے بعد بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ بھارت نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کےلیے سرمایہ کاری کے نام پر خطیر رقم خرچ کر رکھی تھی جو اس نے عوام سے ٹیکسوں کی مد میں حاصل کی تھی۔ بھارت کو وہ اربوں ڈالر ڈوبتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لیے اب وہ بین الافغان مذاکراتی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرسکتا ہے۔ بھارت کی توجہ اس وقت اپنی سرمایہ کاری اور قونصل خانوں کی آڑ میں جاری اپنے مشنوں پر ہے۔ لہٰذا ہمیں افغانستان میں متوقع مذاکرات پر خصوصی طور پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔ ساتھ ہی طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں بھی رہنا ہوگا۔ اسی طرح افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانوں اور سفارت کاروں پر بھی کڑی نظر رکھنی ہوگی کہ وہ کس حد تک افغانستان میں ہونے والے بین الافغان مذاکرات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان مذاکرات پر اثر انداز ہونے کےلیے ہمارے لیے یہ زیادہ بہتر ہو گا کہ ہم طالبان اور افغان حکومت کو پاکستان میں مذاکرات کی دعوت دیں اور خود ان مذاکرات کی میزبانی کریں۔ افغان طالبان پہلے ہی پاکستان کے دورے کر چکے ہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں، اس لیے امید ہے کہ وہ پاکستان کی میزبانی قبول کرلیں گے۔ لیکن افغان حکومت کو راضی کرنا قدرے مشکل ہوگا۔ اگر یہ مذاکرات پاکستان میں ہوں تو اس سے ہمیں ان مذاکرات پر نظر رکھنے میں بھی آسانی ہوگی اور کوئی دوسرا ملک ان پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش نہیں کرے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہمیں کورونا وائرس کا ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے جبکہ بھارت اور افغانستان اس مسئلے سے فی الحال بڑی حد تک محفوظ ہیں، لہٰذا افغانستان میں مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں اور بھارت ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں کوروناوائرس کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ اپنے سفارتی مستقبل کی بہتری کےلیے افغانستان میں ہونے والے مذاکرات بھی نظر رکھنی ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں