کورونا وائرس میرے گھر کیلئے نعمت

جب گھر کا سکون برباد ہوجائے تو بچوں کا لاک ڈاؤن ضروری ہوجاتا ہے


زمین کی آلودگی کے باعث کورنا وائرس سے زیادہ ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فلیٹ کی کھڑکی سارا سال کھلی رہتی ہے۔ آج صبح دہلیز پر چڑیوں کی چہچہاہٹ سے آنکھ کھل گئی۔ یہ فلیٹ پر میری تنہائی، یا یوں کہہ لیجیے لاہور میں لاک ڈاؤن کا تیسرا دن تھا۔ میں نے متعدد بار لاہور سے چڑیوں کی معدومی پر لکھا۔ پرندوں کے ویران گھونسلوں پرکئی مضامین بھی لکھے۔ لیکن آج چڑیوں کی بولی سن کر دفعتاً بستر چھوڑ کر باہر کو لپکا، باہر کا منظر دیکھ کر میری آنکھیں فرطِ حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں، کیونکہ پہلی بار میں لاہور کا آسمان دیکھ رہا تھا۔ آسمان ایسا صاف دکھائی دے رہا تھا جیسے ساون کی جھڑی کے بعد دھلا اور اجلا دکھائی دیتا ہے۔

یقین جانیے، ایک طویل عرصے کے بعد صبح کا ایسا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ کمرے کی صفائی کے بعد شکر کا شربت پیا اور اللہ جی کا شُکر ادا کرکے اپنا موبائل اٹھا کر قومی اور بین الاقوامی نیوز ویب سائٹس سے خبریں دیکھنا شروع کردیں۔ میں نے کورونا کی خبروں کی جگہ کورونا کے اثرات سے متعلق خبریں دیکھیں، عالمی معیشت کو لاحق خطرات کا مطالعہ کیا، دنیا بھر کی ڈوبتی اسٹاک مارکیٹس کی خبریں پڑھیں، لیکن ایک خبر نے میرے کچھ دیر پہلے کے تجربے کی تصدیق تھی۔ خبر یہ تھی کہ کورونا وائرس کے دوران دنیا بھر سے ماحولیاتی آلودگی کم ہورہی ہے۔

بچپن میں جب شرارتیں عروج پر ہوتیں، گھر اور محلے کو تہس نہس کردیتے تو والدین کے پاس آخری حل یہی ہوتا کہ بچوں کو گھر میں بند کردیا جائے۔ بچوں کو گھر میں بند کرنے سے نہ صرف والدین بلکہ اہل محلہ بھی سکون کا سانس لیتے تھے۔ ایسا ہی کچھ ہوا: دنیا بھر میں صنعتوں اور گاڑیوں کا پہیہ رک جانے کے باعث انسانی زندگی میں بہتری کے آثار دیکھنے میں آرہے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلفورنیا برکلے کے مطابق چین میں آلودگی کی وجہ سے سالانہ 16 لاکھ افراد دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں اور فالج کے باعث ہلاک ہورہے ہیں۔ یعنی زمین کی آلودگی کے باعث کورنا وائرس سے زیادہ ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ چین کے آلودہ شہروں کے لاک ڈاؤن کے باعث کاربن کا اخراج کم ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں آلودگی کی شرح کم ہورہی ہے۔ لاکھوں کارخانے، گاڑیاں اور ہوائی جہازوں کی بندش سے چین میں بھی آلودگی کی شرح کم ہورہی ہے۔ یوں چین نے گزشتہ دو ماہ میں 4 ہزار بچوں اور 73 ہزار انسانوں کی جانیں بچائی ہیں۔

حیران کن طور پرپاکستان پر بھی اس وائرس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کراچی اور لاہور، جو دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتےتھے، جن کی آب و ہوا شہریوں کےلیے خطرے کا باعث بنتی تھی، یہ دونوں شہر خطرے سے نکل چکے ہیں۔ لاہور اور کراچی کی فضا کا جائزہ لیا جائےتو یہاں پر آلودگی انتہائی کم ہوئی ہے۔ عالمی ریٹنگ کے ادارے نے تو لاہور کی فضا کو بہترین قرار دیا ہے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ آج مجھے لاہور کا آسمان صاف ستھرا دکھائی دیا۔ مدتوں بعد چڑیوں کی چہچہاہٹ سننے کو ملی، کئی سال کے بعد اپنے فلیٹ کے اردگرد گھروں کی چھتوں پر پرندے دکھائی دیئے۔ سی این این کی تازہ رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں فضائی آلودگی کے چھوٹے ذرات میں 32 فیصد جبکہ بڑے ذرات میں 29 فیصد کمی ہوئی، اسی طرح نائٹروجن آکسائیڈ میں 22 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ بتاتا چلوں کہ ہانگ کانگ میں فضائی آلودگی سے ہر سال تقریباً 15 ہزار بچوں کی قبل از وقت پیدائش/ اموات ہورہی تھیں۔ ماہرین کے مطابق امریکا میں صنعتیں، کارخانے اور ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

دھول اڑاتی گاڑیاں، دھواں چھوڑتے ٹرک، فضا کو کاربن کے ذریعے آلودہ کرتی فیکٹریاں، سب کچھ بند ہوگیا ہے۔ کیا قدرت نے انسانی ہاتھوں سے تباہ ہونے والے اس ماحول کو بچانے کےلیے کورونا وائرس مسلط کیا ہے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں نادان بچوں کو گھر میں بند کرکے قدرت فضا کو سانس لینے کے قابل بنا رہی ہے؟ کیا کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن کےباعث ہم خود اپنے ماحول کےلیے کچھ کرسکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے مسکن کو رہنے کے قابل بنانے کےلیے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ یقیناً ان تمام سوالات کا جواب ''ہاں'' میں ہوگا، کیونکہ جب گھر کا سکون برباد ہوجائے تو بچوں کا لاک ڈاؤن ضروری ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں ہمارا انفرادی کردار انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔

آپ اگر گھر میں مقید ہیں تو فالتو ٹائرز، بوتلیں اور دیگر اشیا جمع کیجیے، انہیں مٹی سے بھر لیجیے اور ان میں مختلف سبزیوں کے بیج کاشت کیجیے۔ یقیناً جب آپ گھروں سے باہر نکلیں گے تو آپ ایک چھوٹے سے لیکن سرسبز و شاداب باغ کے مالک بن چکے ہوں گے۔ اگر آپ گاؤں میں ہیں تو شجر کاری کیجیے۔ نرسری سے درخت لے کر غیرآباد جگہوں پر درخت لگائیے، ان 14 دنوں میں یہ درخت زمین میں جڑیں پکڑ چکے ہوں گے۔

اس وقت ملک بھر میں ہوٹل انڈسٹری بند ہوچکی ہے۔ یقیناً غذا کے ضیاع کا خطرہ کم سے کم ہوگیا ہے۔ آج سے پلاننگ کیجیے کہ ضرورت کے تحت کھانا کھائیں گے اور ضرورت سے زیادہ کھانا ضائع ہونے سے بچائیں گے۔ ان چھٹیوں میں آپ بچوں کو بھی ماحول دوست سرگرمیوں میں شریک کار بنا سکتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے گھر اور اس زمین کو کیسے رہنے کے قابل بنائیں گے؟

ایک لمحے کو سوچئے کہ آپ نے اس زمین پر آکر بحیثیت اشرف المخلوقات کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟ کیا آپ نے اس زمین کو اس کا پیار لوٹایا ہے؟ کیا تباہی کے شکار اس مسکن کو پھر سے آباد کرنے کا سوچا ہے؟ اگر ان سوالات کے جوابات آپ کو مل جائیں اور آپ اپنا کردار ادا کرنا چاہیں، تو یقین جانیے کہ گھر کے آنگن میں اُگے پیڑوں پر اب بھی چڑیاں چہچہا سکتی ہیں۔ اب بھی ٹہنیوں پر گلہریاں پھدکتی نظر آسکتی ہیں۔ اب بھی سانس لیتے ہوئے راحت محسوس کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیے! یہ لاک ڈاؤن کے 14 دن ایک نعمت ہیں، امید ہیں، پرسکون زندگی کی ابتداء کی علامت ہیں۔

اب آپ پر منحصر ہے کہ 14 دن آپ کو سو کر گزارنے ہیں یا ان دنوں کو اگلی نسلوں کی زندگی کی بہتری کےلیے استعمال کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں