عشق سیّد ہے
نویدحیدرنے فن کاری یہ دکھائی کہ وہ تصوف کے راستے سے داخل ہوئے،ان کا ایک ہاتھ میردردؔ اوردوسرا غالبؔ کے ہاتھ میں ہے
نوید حیدر ہاشمی میدان ادب میں اتنے نئے بھی نہیں کہ انھیں نو وارد کہا جا سکے اور اتنے پرانے بھی نہیں ہوئے کہ انھیں مستقل رہائشیوں میں شمار کیا جائے مگر یہ تلازمہ صرف ان کی طبعی عمر تک ہے کیونکہ شعری مرتبے اور پہچان کے اعتبار سے بلا شبہ وہ جدید تر اردو شاعروں کی صف اول کے آدمی ہیں۔ پنجاب کے ایک نسبتاً دور افتادہ اور پسماندہ علاقے میں جنم لینے کے باوجود نوید حیدر نے جتنی تیزی اور مضبوطی سے اپنے آپ کو منوایا ہے اس سے ایک بار پھر میرے اس یقین کو تقویت ملی ہے کہ مسئلہ مضافات میں پیدا ہونا نہیں بلکہ اس کو اپنی کمزوری اور ناکردہ کاری کا جواز بنا لینا ہے۔ آپ پاکستان کی بات چھوڑیئے دنیا کی کسی بھی زبان کے بڑے اور بیشتر اچھے لکھنے والوں کو دیکھ لیجیے ادبی اور تہذیبی مراکز میں بوجوہ زندگی کا کچھ یا زیادہ حصہ گزارنے والوں میں سے تقریباً 80 فیصد کا تعلق مضافات ہی سے نکلے گا۔
''عشق سیّد ہے'' سیّد نوید حیدر ہاشمی کا تیسرا مجموعہ کلام ہے۔ اس سے پہلے ''دھوپ کا جنگل'' اور ''چلو جی بھر کے روتے ہیں'' کے ناموں سے شائع ہونے والا ان کا کلام ادبی حلقوں سے خوب داد وصول کر چکا ہے وہ ان چند شعراء میں سے ہیں جو نو عمری اور طالب علمی کے دنوں میں ہی نظروں میں آ جاتے ہیں اور پھر ایک جھلک دکھا کر غائب نہیں ہو جاتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی موجودگی اور تخلیقی صلاحیت کا نہ صرف احساس دلاتے رہتے ہیں بلکہ مسلسل grow بھی کرتے ہیں۔ آج کل جدید غزل گو شاعروں میں نئی اور غیر مانوس بحروں، ادق زمینوں، مختلف انداز کے قافیوں اور نامانوس ردیفوں کے استعمال کا شوق بہت زوروں پر ہے کم و بیش یہی صورت ان کی تمثال کاری (Images) کے ضمن میں بھی نمایاں ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ بیشتر شاعر اس رو میں اعتدال کو قائم نہیں رکھ پاتے اور نیا نظر آنے کے شوق میں اپنی پہچان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان شعرأ میں یہ صورتحال اور بھی نازک اور خطرناک ہو جاتی ہے جو اپنے آپ کو ایک مخصوص ذخیرہ الفاظ یا تہذیبی حوالے سے اتنا زیادہ وابستہ کر لیتے ہیں کہ ان کے یہاں ''گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے'' کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یوں وہ اپنی ہی بنائی ہوئی مورتیوں کی پرستش میں پہلے بے نام اور پھر گمنام ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اتفاق سے سیّد نوید حیدر ہاشمی نے بھی یہی خطرناک رستہ اختیار کیا ہے اور عین ممکن تھا کہ ان کا انجام بھی وہی ہوتا جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے لیکن اسے ان کی نیک بختی کہیے یا خوش نیتی کہ وہ اس خود پرستی کا شکار ہونے سے بچ گئے ہیں جو اس راہ پر قدم قدم گھات لائے بیٹھی رہتی ہے۔ اپنے لیے علیحدہ راہ تراشنے اور ایک مخصوص تہذیبی پس منظر اور ذخیرہ الفاظ کو ہم سفر رکھنے کے مظاہر ان کی اس کتاب ''عشق سیّد ہے'' میں بار بار سامنے آتے ہیں لیکن ان سب میں سب سے توانا استعارہ ''عشق'' ہی ہے اب یہ وہ گہرا سمندر ہے جس کے غواصوں کی تعداد اگرچہ شمار سے باہر ہے لیکن چند نام تو ایسے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر نئے تو کیا اچھے بھلے نامور شاعر بھی میرؔ صاحب کی آواز میں آواز ملانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
عشق میرؔ ایک بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
لیکن نوید حیدر ہاشمی نے فن کاری یہ دکھائی کہ وہ اس محل سرا میں تصوف کے راستے سے داخل ہوئے ہیں اور دوسری احتیاط یہ کی ہے کہ ان کا ایک ہاتھ میر دردؔ اور دوسرا مرزا غالبؔ کے ہاتھ میں ہے۔ سو یہ عشق ان کے دل میں ہی گھنٹیاں نہیں بجاتا بلکہ دماغ میں بھی طرح طرح کے گاہے عاجزانہ اور گاہے باغیانہ سوال اٹھاتا رہتا ہے۔ آئیے اس بات کی وضاحت کے لیے مختلف غزلوں سے چند اشعار دیکھتے ہیں۔
چہرۂ پُر نُور سے اے عشق اب پردہ اٹھا
مضطرب ہوں سیّدی خود سے کبھی مِلوا مجھے
رنجشیں جتنی بھی ہیں آج بھلا دے مرے عشق
تری دہلیز پہ آیا ہوں، دعا دے مرے عشق
تیرے آنے پہ ترا ہجر بہت بولتا ہے
ایسے گستاخ کو محفل سے اٹھا دے مرے عشق
میرا مکّہ دشتِ ہجرت، میرا مشہد عشق ہے
میں مرید قیس ہوں اور میری سرحد عشق ہے
کوئی ہے جو صبر کی آیات مجھ پہ دم کرے
میں وہ سوکھا پیڑ ہوں جس میں مقید عشق ہے
سرخ چادر لے کر بیٹھا ہے زیارت کیجیے
یہ کوئی حاکم نہیں' بالائے مسند عشق ہے
میں یہاں پر ہجر کی تبلیغ کرنے آیا ہوں
دنیا والو میرا مذہب' میرا مقصد عشق ہے
دشت میں یہ جو پرندے ہیں سبھی مجذوب ہیں
اور جو خاموش ہے ایک بوڑھا برگد عشق ہے
یہ تو وہ چند اشعار ہیں جن میں عشق کا لفظ براہ راست استعمال ہوا ہے لیکن اگر بنظر غور دیکھا جائے تو اس کی بازگشت اس کتاب کی تقریباً 90% غزلوں میں لہجے اور چہرے بدل بدل کر سنائی دیتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ چند شعر دیکھئے۔
اب اس میں رہنا مرے لیے ہے محال مرشد
مجھے بدن کے کنوئیں سے باہر نکال مرشد
تمہاری لو سے میری بصارت پگھل رہی ہے
کہاں سے لائے ہو اتنا حسن و جمال مرشد
پھر اس کے بعد مری زندگی، مری نہ رہی
کہا تھا اس نے بس اک بار' فی امان اللہ
لوازمات مکمل ہیں اہل گریہ کے
چراغ فجر تو اب داستاں سنا میری
میرا ارادہ تھا کہ میں اس تحریر کو عشق اور اس کے ان متعلقات تک ہی محدود رکھوں گا جنھیں نوید حیدر ہاشمی نے اپنی فن کارانہ اپچ اور ریاضت سے ایک خاصے کی چیز بنا دیا ہے اور ان کی نظموں اور غزلوں کی دیگر اہم خوبیوں پر پھر کبھی بات کروں گا کہ اس کالم کی محدود وسعت مزید تفصیل کی اجازت نہیں دیتی لیکن اس کتاب کی آخری غزل ایسی ہے کہ اگر اس پر بات نہ کی جائے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا اپنی نسل کے دوسرے اچھے شاعروں کی طرح نوید حیدر ہاشمی نے بھی تمثال سازی میں جدت طرازی کے نمونے بڑی کامیابی اور تسلسل سے پیش کیے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تین شعر شاید دریا کو کوزے میں بند کر سکیں کہ؎
سفید رنگ کے دروازے پر لکھا ہوا ہے
یہ شعر سُرمئی یاقوت سے بنا ہوا ہے
پڑی ہوئی ہے وہ اک سرخ طشتری جس میں
کسی سفید پرندے کا سر رکھا ہوا ہے
سلام کرتی ہے ہر شے کچھ اس لیے بھی مجھے
یہ سارا شہر مرے ہاتھ کا بنا ہوا ہے