کتنے دھوکے کھائے ہیں

حسیں آنکھوں، مدھر گیتوں کے سندر دیس کو کھوکر ہمارے سات سمندر پار والے دوست نے ہمیں روس سے بھڑا دیا۔


Saeed Parvez November 29, 2013

ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اپنے پڑوسی روس کو چھوڑ سات سمندر پار امریکا چلے گئے۔ بس وہ دن اور آج کا دن ہم امریکی چنگل میں پھنستے ہی چلے گئے۔ پچاس کی دہائی اور ساٹھ کے ابتدائی برسوں میں ''پیلے اسکولوں'' میں غریب طلبا و طالبات میں امریکی خشک دودھ کے ڈبے تقسیم کیے جاتے تھے۔ ہم غریب بچے خوشی خوشی دودھ کے ڈبے گھر لے کے جاتے اور خوب مزے لے لے کر خشک دودھ کھاتے تھے۔ پھر امریکا نے بطور امداد ہم غریب پاکستانیوں کے لیے گندم سے بھرے بحری جہاز بھیجنا شروع کردیے۔ اونٹ گاڑیوں پر لدی امدادی گندم کو بندرگاہ سے لے کر مارکیٹ تک لایا جاتا اور ہر اونٹ کے گلے میں ''امریکی ایڈ'' کا پٹہ لٹکا ہوتا تھا۔ سڑکوں سے گزرتے اونٹ اور گلے میں لٹکا امدادی پٹہ لوگ دیکھتے تھے اور دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔فضا ''تھینک یو امریکا'' سے سرشار تھی۔زندگی گزارنے کے بارے میں بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ اپنے پڑوسی سے تعلقات اچھے رکھو۔ دنیا کا ہر مذہب، عقیدہ، نظریہ یہی کہتا ہے۔ ہمارے مذہب اسلام نے بھی پڑوسی کو بڑا اونچا مقام دیا ہے۔ مگر ہم نے اپنے پڑوسی اور مضبوط پڑوسی کو چھوڑ، دور بہت دور دوستیوں کی پینگیں بڑھائیں۔ اس دور کی دوستی کا فائدہ ''اوپر والے'' اٹھاتے رہے اور عوام خواب ہی دیکھتے رہے، ہر نئے آنیوالے امریکی صدر نے پاکستان کے لیے وہی پالیسی جاری رکھی، جو پچھلا صدر چھوڑ جاتا تھا اور ہمارے ملک میں بھی ہر آنیوالے نئے حکمران کو یہی کہا جاتا تھا کہ:

بات پچھلی بڑھائیو آگے

حد سے ہرگز نہ جائیو آگے

ہمارا ہر آنے والا حکمران سچ کو رسوا کرتا رہا، نازی افواہ ساز گوئبلز کے سارے جھوٹ اس کے روبرو شرمندہ و خجل تھے، وہ مکر و فریب کرتا رہا، عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتا رہا، انھیں جھوٹے سنہرے خواب دکھاتا رہا، خود عیش کرتا رہا، اپنے درباریوں کو عیش کرواتا رہا اور عوام بھوکے، ننگے مرتے خواب ہی دیکھتے رہے اور آخر ملک ٹوٹ گیا۔ ملک کا 56 فیصد حصہ ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔بنگالی اپنے ''مچھلی چاول'' لے کر الگ ہو گئے۔ امریکی ساتواں بحری بیڑہ ہماری مدد کو آتا ہی رہا، مگر آیا نہیں۔ یوں خلیج بنگال میں پاکستانی اشرافیائی بیڑہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق ہوگیا۔ وہ مارا ماری ہوئی کہ لاکھوں انسان ختم ہوگئے، لاکھوں عورتیں، بچیاں رسوا ۔ صرف صدیق سالک نے ڈھاکہ ڈوبتے نہیں دیکھا بلکہ ہزاروں سوگوار اور نم آلود نگاہوں نے فلک کج رفتار کے ساتھ ساتھ یہ دلگداز اور غمناک منظر دیکھا۔

وہ پرائمری اسکول کے خشک دودھ والے خوش نما ڈبے اور اونٹ گاڑیوں پر لدی، ریل گاڑیوں میں بھری ''ایڈ کی گندم'' کھا کھا کر ہم نے کتنے دھوکے کھائے ہیں۔ میں کیا بیان کروں، سب کچھ سامنے ہے، جالب نے کہا تھا:

ایڈ کی گندم کھا کر ہم نے کتنے دھوکے کھائے ہیں

پوچھ نہ امریکا کے ہم نے کیا کیا ناز اٹھائے ہیں

...

سفید بنیا

قرض دے کر غریب ملکوں کو

چھین لیتا ہے روح آزادی

آج زیر عتاب ہے اس کے

ہر بڑا شہر' ہر حسیں وادی

مدتوں سر اٹھا کے چل نہ سکا

اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا

صاف دامن بچا گیا ہم سے

جب بھی مشکل کوئی مقام آیا

''حسیں آنکھوں، مدھر گیتوں کے سندر دیس کو کھوکر'' ہمارے سات سمندر پار والے دوست نے ہمیں روس سے بھڑا دیا۔ ہمارے ملک میں اسلحے کے ڈھیر لگا دیے، ڈالروں کی بارش کردی، جہاد کے نام پر جنگ میں ہمارے لوگ مارے گئے اور ''اوپر والے'' اربوں پتی ہوگئے۔ اور اس آئے ہوئے اسلحے نے گلی گلی، نگر نگر خوں رنگ کردیے۔ بی بی بے نظیر وزیر اعظم بنی، انھوں نے جالب سے پوچھا ''کیا کروں؟'' جالب نے مشورہ دیا:

نہ جا امریکا نال کڑے

اے گل نہ دیویں ٹال کڑے

سانوں روس دے نال لڑوندا اے

ایویں لوکاں نوں مروندا اے

مینوں تیرا بڑا خیال کڑے

اور بے نظیر بھٹو آخر تاریک راہوں میں ماری گئی، قتل گاہ فوراً دھو دی گئی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ کئی سال گزر گئے، بی بی کے قاتل ''نامعلوم'' ہیں۔ پھر ''ریمنڈ ڈیوسوں'' نے ہمارے ملک میں ڈیرے ڈال دیے، جن پر ہمارا کوئی کسی بھی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ یہ ریمنڈ ڈیوس گھیر لیے جائیں تو اپنی ''لدی پھندی'' سیاہ شیشوں والی گاڑی سے باہر نہیں آتے۔ ہماری پولیس کے اعلیٰ افسران انھیں گاڑی سے باہر آنے کا کہتے ہیں تو وہ کوئی توجہ نہیں دیتے اور گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے ''اوپر'' بات کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور پھر ''اوپر'' سے حکم آتا ہے کہ انھیں احترام کے ساتھ جانے دیا جائے اور پھر ریمنڈ ڈیوس حضرات اپنی ''لدی پھندی'' گاڑی سمیت چلے جاتے ہیں۔

یہ آج جن عذابوں میں ہم مبتلا ہیں۔ یہ دو چار دنوں کی بات نہیں ہے۔ یہ بڑا پرانا قصہ ہے۔ آج ہم اپنے ہی ملک میں اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہیں، ہماری فوجی تنصیبات، ایئر پورٹس، اہم عمارتیں، پولیس اور رینجرز کے دفاتر، سب جگہ حملے ہوچکے، شمالی وزیر ستان فاٹا کے علاقوں میں امریکی ڈرون حملے برسوں سے جاری ہیں۔ ہزاروں انسان مارے جا چکے۔بندوبستی علاقہ ہنگو میں بھی ڈرون نے لوگ مارے ۔ طالبان بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے فوجی جرنیل تک نشانہ بن چکے۔ ہمارے شہر، بازار، عبادت گاہیں، درس گاہیں، طالبان نے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ امریکا نے اب پاکستان کے شہر ہنگو پر ڈرون حملہ کرکے نیا محاذ کھول دیا ہے۔ طالبان نے انچولی کراچی کے بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ بے گناہ بے قصور لوگوں کو مارا جارہا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم نے مارا ہے۔ پاکستان کے عوام تو امریکی ڈرون کی وجہ سے امریکا سے نفرت کرتے ہیں، یہ طالبان عوام کو مار کے کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں؟ادھر بے نشان و مظلوم لیاری میں غفار ذکری منظر عام پر لائے ہیں، نئی صف بندی ہورہی ہے۔ بیگناہ و گنہگار مررہے ہیں ۔ پاکستان اور اس کے عوام کو چاروں طرف سے دشمنوں نے گھیر لیا ہے۔ مرکزی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا بیان اخبار میں شایع ہوا ہے ''امریکا اور طالبان ہمارا پیچھا چھوڑ دیں''۔ بھائی پرویز رشید! یہ دونوں ہمارا پیچھا کیوں چھوڑنے لگے؟ یہ آسان نہیں ہے۔ریچھ نما کمبل کی کہانی ہے۔پیارے! ان سے پیچھا چھڑانے کی نیت تو کرلو! پھر دیر کیا بدیر پیچھا چھوٹ ہی جائے گا۔

ملک کے حالات انتہا درجے خراب ہیں۔ ان حالات میں سیاستدانوں کا ایک دوسرے کے خلاف نازیبا لہجہ اختیار کرنا مناسب نہیں ۔ عفو و درگزر اور افہام و تفہیم اپنانے کی ضرورت ہے۔ عوام اس ''جوش خطابت'' سے خوش نہیں ہوتے، انھیں غصہ آتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی جماعت، حکمران ہے۔ ان کا حالیہ بیان وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ خواجہ صاحب نے عمران خان کے دھرنے پر بیان دیا ہے ''ڈرون حملوں کے خلاف پی ٹی آئی کا احتجاج خوش آیندہ ہے، احتجاج ریکارڈ کرا کر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف وفاقی حکومت کی مدد کر رہی ہے''۔ خواجہ سعد رفیق کا بیان اپنی جماعت کے حق میں بھی ہے اور مخالف جماعتوں کے لیے بھی اچھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں