طویل انتظار کے بعد پوری پی ایس ایل پاکستان میں کروانے کا خواب پورا ہورہا ہے، پانچویں ایڈیشن کے سنسنی خیز مقابلوں کا سلسلہ جاری ہے۔
کراچی میں افتتاحی تقریب کا رنگ روکھا پھیکا رہا لیکن سنسنی خیز مقابلے شائقین کی بھرپور توجہ کا مرکز بنے، لاہور میں بھی اچھے میچز دیکھنے کو ملے، گرچہ میزبان ٹیم لاہور قلندرز کی روایتی ناقص کارکردگی میں اس بار بھی کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا لیکن اس کے باوجود شائقین کی بڑی تعداد نے اسٹیڈیم کا رخ کیا۔
ملتان، پشاور اور گلگت و بلتستان سمیت دیگر شہروں سے بھی بڑی تعداد میں شائقین نے لاہور اور کراچی میں کرکٹ کا لطف اٹھایا، ملتان اور راولپنڈی میں پہلی بار پی ایس ایل کا میلہ سجا تو زیادہ ہی جوش و خروش دیکھنے میں آیا، تماشائیوں نے اسٹیڈیم بھر دیے، خوب ہلہ گلہ بھی کیا، یہاں ملنے والی بھرپور پذیرائی سے کرکٹرز کے حوصلے بھی جوان ہوئے،خاص طور پر ملتان میں اسٹیڈیم کا معیار اور شائقین کی گرمجوشی نے دنیا بھر کو کو پاکستان کے بارے میں انتہائی مثبت پیغام دیا، اولیاء کرام کی دھرتی پر کرکٹ دیوانگی کھلاڑیوں کے لیے بھی حیران کن تھی، میزبان ٹیم ملتان سلطانز نے ہوم گراؤنڈ پر تینوں میچ جیت کر فتوحات کی ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے باسیوں کی خوشیوں کو دوبالا کردیا۔
پہلا ایڈیشن یواے ای میں ہونے کے باوجود ٹیموں کو پاکستان کے شہروں سے منسوب کرنا سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کا اچھا فیصلہ تھا، اس کا احساس ملتان اور راولپنڈی میں کھیلے جانے والے میچزمیں میزبان ٹیم و ملتان سلطانز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کو ملنے والی سپورٹ سے ہوا، ناقص کارکردگی کے باوجود قذافی اسٹیڈیم میں آنے والے شائقین میں سے بھی 70 فیصد لاہور قلندرز کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے، ارباب نیاز سٹیڈیم کی تزئین و آرائش کا سلسلہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے پشاور زلمی ہوم کراؤنڈ کے سامنے کھیلنے کے مواقع سے محروم رہے، اس دکھ کا کچھ مداوا کرنے کے لیے فرنچائز نے پشاور سے راولپنڈی تک خصوصی بسیں بھی چلائیں۔
دوسری جانب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سپورٹرز بھی مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں آتے رہے لیکن کسی بھی ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے پر جو توجہ حاصل ہوسکتی تھی اس کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، کراچی اور لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں جوش وخروش کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگلے سال پشاور اور کوئٹہ میں بھی پی ایس ایل کے میچز کروائے جائیں تو پی سی بی اور سپانسرز سمیت کسی کے لیے بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا، اس مقصد کے لیے اگر بورڈ اور فرنچائزز مل کر بھی وینیوز کی تعمیر پر سرمایہ کاری کر لیں تو غلط فیصلہ نہ ہوگا، سٹیڈیمز میں انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی کیساتھ ان کو شہروں سے منسوب ٹیموں کے ہوم گراؤنڈز کا درجہ دے دیا جائے تو بہتر ہوگا۔
موسم بہار کی آمد سے قبل ہی پی ایس ایل کی بہار ملک میں پہنچی لیکن اس دوران ہونے والی بے وقت کی بارشوں نے پرجوش شائقین کی امیدوں پر پانی بھی پھیرا، راولپنڈی میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کے میچ میں ایک اوور بھی نہیں کروایا جا سکا، جمعرات کوکوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کا مقابلہ بھی 15، 15 اوورز تک محدود کرنا پڑا، جمعہ کو لاہور میں ملتان سلطانز اور کراچی کنگز کے میچ میں ایک اننگز بھی مکمل نہیں ہو سکی اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ پر اکتفا کرنا پڑا، اس مقابلے میں ملتان سلطانز کو کمزور پوزیشن کے باوجود شکست سے بچنے کا موقع مل گیا لیکن شائقین کو مایوسی ہوئی، بارش کے باعث کھیل رکا تو ایک عرصہ بعد بھرپور فارم میں نظر آنے والے شاہد آفریدی کو ایکشن میں دیکھنے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا۔
اس سے قبل 10 سال کے طویل انتظار کے بعد ملک میں ہونے والا پہلا ٹیسٹ میچ بھی راولپنڈی میں بارش سے متاثر ہوا تھا، گرچہ کراچی میں فتح کے ساتھ پاکستان نے سری لنکا کے خلاف سیریز جیت لی لیکن راولپنڈی میں بارش کی وجہ سے آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں قیمتی پوائنٹس حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا، جدید دور میں موسم کے حوالے سے پیشگوئی کئی ماہ قبل ہی کردی جاتی ہے، اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو میچ شیڈول کرتے ہوئے شہروں کے موسم کو پیش نظر رکھ کر بہتر فیصلے کیے جاسکتے ہیں، مثال کے طور پر جن دنوں پنجاب میں بارش ہو، میچز کراچی میں کروا لیے جائیں،ٹکٹ خرید کر بے صبری سے انتظار کرنے والے شائقین کو میچ کے روز مایوسی سے بچانے کے لیے درست فیصلے کرنا ہوں گے، ٹکٹوں کی رقم واپس کرنے پر ہونے والے مالی نقصان سے بھی بچا جاسکے گا۔
یوں تو دنیا کے کسی ملک میں سکیورٹی انتظامات آسان کام نہیں رہے، پاکستان کو بھی ایسا ہی چیلنج درپیش ہے،لاہور، کراچی، ملتان اور راولپنڈی میں قانون نافذ کرنے والوں اداروں نے بڑی جانفشانی سے کام لیا لیکن عوامی مشکلات کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کئے جاسکتے تھے، مثال کے طور پر لاہور میں ہی ابتدائی میچز میں اطراف کے سڑکوں کو صرف ٹیموں کی آمدو رفت کے دوران بند کیا جاتا تھا، بعد ازاں لبرٹی کی طرف جانے والی مین روڈز کو سنٹر سے بند کردیا گیا،لوگ گاڑیوں میں سوار نصف راستہ طے کرنے کے بعد پہنچتے تو معلوم ہوتا کہ آگے کنٹینر لگادیا گیا ہے،اگر مین روڈز پر پہلے ہی سائن بورڈ لگادیئے جائیں کہ آگے راستہ نہیں ملے گا تو ٹریفک جام نہ ہو، نصف راستے سے تو کسی گاڑی کو واپس مڑ کر روٹ بدلنے کا بھی موقع نہیں ملتا، اسی طرح کسی روز تماشائیوں کو کسی ایک پوائنٹ پر تھوڑی ڈھیل دی جاتی تو اگلے روز مختلف پالیسی ہوتی۔
ذہنی طور پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے بھی شائقین پریشان ہوئے،گزشتہ انٹرنیشنل ایونٹس میں پہلے چیک پوائنٹ سے گزرنے کے بعد شٹل بس دستیاب ہوتی، دوسرے پوائنٹ کے بعد سٹیڈیم تک رسائی کے لیے بھی ٹرانسپورٹ ملتی،اس بار فیملیز کو بچوں سمیت طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے،بارش ہوجائے تو مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ایشیا کپ 2008 کے بعد پہلی بار کوئی ایسا میگاایونٹ ہورہا ہے جس کے مقابلے ایک سے زائد شہروں میں کھیلے جارہے ہیں، ڈبل لیگ کی بنیاد پر ہونے والے ایونٹ کے انتظامی امور ایک چیلنج ہیں لیکن بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور پی ایس ایل کی مینجمنٹ کو اپنی ایک ایک غلطی کو ڈائری میں درج کرتے ہوئے پی ایس ایل 6 کو مزید بہتر اور متاثر کن بنانے کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔
حالیہ ایونٹ میں ٹیموں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا گزشتہ ایڈیشنز میں کامیابی کا تناسب سے بہت رہا ہے لیکن دفاعی چیمپئن کی اس بار کارکردگی میں اُتار چڑھاؤ زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے، میچ فکسنگ کے الزامات کی زد میں آنے والے عمراکمل سے محرومی،نسیم شاہ سمیت پیسرز کی انجریز اور میچز کے لیے شہروں کے درمیان طویل سفر جیسی مشکلات اس کی وجہ ہو سکتی ہیں، فرنچائز کرکٹ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں نئے ٹیلنٹ کو انٹرنیشنل کرکٹرز کے ساتھ رہتے ہوئے اپنا کھیل نکھارنے کا موقع ملتا ہے، مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے پلیئرز کے ساتھ رہتے ہوئے اچھی سماجی تربیت بھی ہوتی ہے۔
فرنچائز کرکٹ کے حوالے سے ایک کمزوری یا خامی یہ ہے کہ ٹیموں میں بھی بڑے نام ہونے کے باوجود فتوحات کے لیے درکار درست کمبی نیشن بنانے میں مشکلات پیش آتی ہے، کوئی بھی ٹیم جتنی جلد اس مرحلے کو عبور کرلے، اس کے ردھم میں آنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، ملتان سلطانز نے نوآموز کپتان شان مسعود کی قیادت میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، دوسری طرف لاہور قلندرز بدستور ناکام ترین ٹیم کا لیبل برقرار رکھے ہوئے ہیں، بہرحال ابھی لیگ مرحلہ نصف مکمل ہوا ہے،اگلے میچز میں کارکردگی تمام ٹیموں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی،کراچی کنگز اور پشاور زلمی کی کارکردگی میں بھی تسلسل نہیں ہے، اسلام آباد یونائیٹڈ نے شاداب خان کو قیادت سونپنے کا تجربہ کیا،ٹاپ آرڈر بھی بہترین ہے، بولنگ کمبی نیشن میں مسائل ہیں، کسی ٹیم کی اب تک کی پرفارمنس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کم بیک نہیں کر سکتی، اگلے چند روز میں ٹاپ فور ٹیموں کے حوالے سے پوزیشن واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔