شاہ زادی سے ملکہ تک ۔۔۔

جب کچھ گھروں میں ’پرانے دن‘ لوٹ آنے کا ’حادثہ‘ ہوا


مریم شہزاد March 03, 2020
جب کچھ گھروں میں ’پرانے دن‘ لوٹ آنے کا ’حادثہ‘ ہوا۔۔۔

ایک زمانہ تھا، جب ہماری تمام خواتین خانہ گھر کے تمام کام خود کیا کرتی تھیں، جوسر، بلینڈر، چوپر، واشنگ مشین اور ایسی ہی دوسری مشینیں گھروں میں نظر نہیں آتی تھیں۔۔۔ قیمہ پیسنا ہو یا چٹنی۔۔۔۔ سل بٹے کا استعمال کیا جاتا تھا اور مسالا کوٹنے کے لیے ہاون دستا یا 'پَن کْٹّی، بچپن ہی سے روٹی گول بنانی سکھائی جاتی تھی، کپڑے بھی ہاتھ سے ہی دھوئے جاتے تھے سلائی کڑھائی شادی بیاہ اور عام دنوں کے کپڑے سینے سے لے کر سلائی کڑھائی تک، سب اہتمام گھر پر ہی تیار ہوتے تھے اور تو اور دلہنیں بھی گھر پر ہی تیار ہوتی تھیں، پارلر کا تو تصور ہی نہیں تھا۔۔۔ کیا سادہ زمانہ تھا، مگر اس پر بھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ عورتوں کو پھر بھی وقت مل جاتا تھا وہ اپنے پانچ، چھے بچوں کو لے کر ایک دوسرے کے گھر آرام سے چلی جاتی تھیں اور کوئی بُرا بھی نہیں مانتا تھا، گھنٹوں بیٹھ کر سبزی بنا رہی ہوتیں، اچار، چٹنیاں، مربے اور نہ جانے کتنی ہی چیزیں گھر پر ہی بنا لی جاتی تھی اور ایک دوسرے کے گھر میں بھی بھیجی جاتی، مگر اچانک ہی عورتوں کو محسوس ہوا کہ ان کے باپ کہتے تھے ''تم تو میری شاہ زادی ہو۔''

بھائی کہتا ''میری سوہنی بہن، میں ہوں نا، تم کو کیا فکر؟'' پھر شادی ہوئی تو شوہر نے کہا '' تم اس گھر کی ملکہ ہو !''

بیٹے کہتے ''اماں آپ تو بس، ملکہ کی طرح حکم چلایا کیجیے!''

اور عورتوں نے اس کے جواب میں مردوں کو آرام دینے کے بہ جائے خود کو واقعی ملکہ اور شاہ زادی سمجھنا شروع کر دیا۔ پہلے گھر میں مشینیں آئیں اور پھر ماسیاں، پہلے پہل کسی کسی کام کے لیے بطور مددگار ان کام والیوں کو رکھا گیا۔ مشینوں کو ان کو ہاتھ نہیں لگانے دیا جاتا تھا، مگر آہستہ آہستہ سارے کام ان کے حوالے ہوتے چلے گئے اور اب کرنے کو کچھ بھی نہیں رہا۔۔۔ سبزی بنانے سے لے کر کھانا پکانے تک اور کپڑے دھونے اور گھر کی مکمل صفائی سب ماسیوں کے ہاتھ میں آگیا اور پھر بھی ان ملکہ اور شاہ زادیوں کے پاس وقت کی کمی ہوتی گئی۔ جب گھر کی عورت گھر سے بے پروا ہوگئی تو مردوں نے بھی گھر سے باہر وقت گزارنا شروع کر دیا، جگہ جگہ ریستوران اور چائے خانے بن گئے جہاں رات گئے تک بیٹھکیں رہتی ہیں۔

سب بہت اچھا چل رہا تھا اُدھر تم خوش، اِدھر میں مطمئن، سب اپنے آپ میں مگن، کسی کو دوسرے کی کوئی فکر نہیں،کوئی پڑوسی بھوکا سوئے، کوئی بیمار ہو یا کسی کی موت ہو، کہیں مسلمانوں پر ظلم وستم ہو، بس ''چچچ'' کے اظہار افسوس یا 'فیس بک' پر ایک 'اشک بہاتا چہرا' اور زندگی آگے بڑھ گئی،کسی کے پاس وقت نہیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں یا ہمارے کہنے سے کیا ہوگا۔

پھر یوں ہوا کہ اچانک ایک ''تیز آندھی'' چلی، جس نے چائے خانوں کو اڑا کے رکھ دیا، شہر میںتجاوزات کے نام پر جو 'صفائی' ہوئی تو بہت سوں کے جمے جمائے کاروبار تباہ ہوگئے۔ یہ صورت حال سبب بنی مردوں کے گھروں پر ڈیرے ڈالنے کا، ایسے میں جب ماسیاں گاؤں چلی گئیں، تو سب 'ملکہ' اور 'شاہ زادیاں' اور 'رانیاں' ہکا بکا رہ گئیں۔۔۔ اِن کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، موبائل کیا چیز ہے۔۔۔گویا

'ایک ہی صف میں کھڑی ہو گئیں ماں بیٹی، بہو و ساس۔۔۔ نہ ہی ڈراما رہااور نہ فیس بک کا آس'

جہاں کچھ 'مشترکہ خاندانی نظام' تھا، وہاں تو صبر شکر سے ساس بہو، نند بھاوج، دیورانی، جٹھانی نے مل جل کر کام بانٹ لیے، مگر جو 'شاہ زادیاں' اس زعم میں تھیں کہ ان کی بادشاہت ہمیشہ قائم رہے گی اور وہ الگ گھر لے کر رہ رہی تھی، تو وہ اب پریشان، کہ بچے سنبھالیں یا گھر، کہ گھر اور بچے تو ماسی ہی دیکھتی تھی، ان کو تو بچوں کے کھانے پینے کے بارے میں بھی نہیں معلوم، ان کے پاس وقت ہی کہاں تھا، وہ تو اپنے آپ کو فٹ رکھنے میں اپنی غذا، ملنے ملانے، خریداریوں اور گھومنے پھرنے میں مصروف تھیں، اب وہ کبھی امی کو فون کرتی ہیں کہ آپ نے روٹی بنانی کیوں نہیں سکھائی، تو کبھی بہن سے واشنگ مشین چلانے کے رموز جانتی ہیں۔

دیکھا گیا کہ پھر سے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی ان کی اَمّیاں اپنے ساتھ کام میں لگا کر رکھتی ہیں کہ کام سیکھ لو دوسرے گھر جاکر کیا کرو گی؟ 'موبائل پیکیج' دہائی دے رہے ہیں کہ ارے میں پڑے پڑے ختم ہوا جا رہا ہوں، مگر کوئی ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا۔۔۔ کہاں بے چارے موبائل کو کسی بچے کے پوتڑے (ڈائپر) کی طرح دیکھنا پڑتا تھا کہ 'کچھ' آیا تو نہیں، کسی شیرخوار کی غذا کی طرح اس کی چارجنگ کے لیے ہلکان ہوا جاتا تھا کہ مبادا بجلی چلی گئی تو کہیں اس کی 'سانس' رک رک نہ جائے۔

بہت سی 'ماڈرن' نانی، دادی بھی وہی پرانی والی روایتی نانی دادی سی بنتی ہوئی دیکھی گئیں، جو دالیں بھی چُنتی ہیں، چاول سے کنکر بھی نکالتی ہیں اور محنت طلب سبزیاں بھی بناتی ہیں۔۔۔ ساتھ ساتھ پوتے، پوتی اور نواسے، نواسی بھی کھلاتی اور بہلاتی ہیں۔ باورچی خانے میں ہاتھ سے ہانڈی روٹی کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹی اور بہو کو گھر سنبھالنے کے وہ 'گُر' بھی یاد کراتی ہیں، جو کچھ دن پہلے تک انہوں نے بھی پس پشت ڈالے ہوئے تھے۔ بچوں کو قصے کہانیاں سنانا بھی انہیں یاد ہوگیا ہے۔۔۔ وہ کہانی سناتی ہیں کہ ''کچھ عرصے پہلے کا ذکر ہے کہ ایک جگہ ہر گھر کی عورتیں شاہ زادیوں کی طرح رہتی تھیں، ان کے سب کام ان کے نوکر چاکر کرتے تھے، وہ صرف گھومتی پھرتی اور حکم چلایا کرتی تھیں۔۔۔۔ پھر ایک دن۔۔۔۔'' نہ جانے کیوں یہ کہانی سناتے وقت ان کی آنکھیں بھیگ سی جاتی ہیں۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں