طاقت کی آئیڈیالوجی تشدد اور مزاحمت
کسی بھی ملک میں ریاستی ادارے طاقت کا منبع و مآخذ متصور ہوتے ہیں۔ ریاستی طاقت ریاستی اداروں میں مجتمع ۔۔۔
کسی بھی ملک میں ریاستی ادارے طاقت کا منبع و مآخذ متصور ہوتے ہیں۔ ریاستی طاقت ریاستی اداروں میں مجتمع ہوتی ہے اور طاقت ریاستی اداروں کے اختیارات کے استعمال کا نام ہے۔ ریاستی اداروں میں اختیارات کے استعمال کی کئی جہات ہوتی ہیں، مگر تشدد، جبر و دہشت ریاستی اداروں کی سب سے نمایاں خصوصیت ہوتی ہے۔ ریاست جب بیرونی جبر و دہشت اور اندرونی انتشار کو کچلنے کے نام پر طاقت کا استعمال کرتی ہے تو دراصل وہ اپنے تشدد اور طاقت کا جواز تراشتی ہے۔ لہذا بورژوا انسانی اقدار کے برعکس حقیقی آزادی، انسانی حقوق، انصاف اور مساوات کے نام پر برپا ہونے والی عوامی تحریکیں ریاستی تشدد اور دہشت کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔
دنیا کی کم و بیش تمام ریاستیں دو سطحوں پر کام کرتی ہیں۔ ''ایک تو ریاست کی متشدد اور دہشت انگیز شکل ہے جو پولیس، فوج، انتظامیہ، جیلوں اور عدالتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ طاقت ان اداروں کے اندر ہمہ وقت موجود رہتی ہے، مگر انھیں ایک محرک چاہیے جو طاقت کے استعمال کا جواز فراہم کرے۔ یہ محرک انھیں طبقاتی امتیازات کی صورت میں میسر ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں کا واحد مقصد حکومت، جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی پر مشتمل ہوتی ہے، کے نمایندوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ بورژوا جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی مخصوص طبقات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ طبقاتی سماج میں امیر ترین لوگ ہی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ مقصد ان کا انتخابات میں فتح حاصل کر کے حکومت بنانا ہوتا ہے تا کہ وہ ریاستی مشینری میں موجود طاقت اور تشدد جیسے پہلوئوں کو اپنے زیرِ تسلط لا کر اپنے مخصوص طبقاتی اور آئیڈیولاجیکل مفادات کے تحفظ کے لیے ان کا بہتر استعمال کر سکیں۔
ریاست کی دوسری سطح تھوڑی اصلاحی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس میں جبر و تشدد کے براہِ راست استعمال سے زیادہ آئیڈیولاجیکل عوامل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ آئیڈیولاجیکل سطح پر عوام کسی حد تک خود کو آزاد تصور کرتے ہیں، جب کہ حقیقت وہ آزادی سے زیادہ آزادی کے احساس یا تصور کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ ریاست کی نظریاتی سطحوں میں اذہان کو مقید کرنے والے عوامل کہیں زیادہ پُر اثر ہوتے ہیں۔ نظریاتی سطحوں میں جب رجعتی عقائد اذہان میں گہرے راسخ ہو جائیں تو تمام تر طبقاتی امتیازات کے باوجود وہ برسر اقتدار طبقات کی جارحیت کو ہی جواز فراہم کرتے ہیں، جس سے سماج میں تبدیلی کا عمل رک جاتا ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل کی جگہ ناقص نظریات و عقائد لے لیتے ہیں۔ اس طرح حقیقی طبقاتی رشتے بھی ماند پڑنے لگتے ہیں۔
''ترقی یافتہ'' سرمایہ دارانہ معاشروں میں بھی طبقاتی معاشرتی عوامل کو عقائد اور فلسفیانہ نظریات سے دھندلانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ نظریاتی عوامل میں تعلیمی ادارے، قانونی نظام، ثقافتی اشکال (ادب، آرٹ اور شاعری وغیرہ)، ذرایع ابلاغ، مذہبی ادارے اور سیاسی پارٹیاں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ طاقت چونکہ ریاستی اداروں میں مجتمع ہوتی ہے اس لیے ان میں سے سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کا مقصد انتخابی عمل کے ذریعے ریاستی اداروں پر براجمان ہونا ہوتا ہے تا کہ وہ اپنی فوقیت کو قائم رکھ سکیں۔ جونہی یہ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں انتخابات میں فتح کے بعد ریاستی اداروں پر براجمان ہوتی ہیں، اپنے معاشی و نظریاتی مفادات کے لیے ان اداروں میں موجود متشدد عوامل کا استعمال کرتی ہیں۔ مقصد ان کا طاقت کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور مفادات کی بنیاد پر طاقت کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ یہ ایسی سطح ہوتی ہے کہ جب ریاست کے متشدد ادارے اور سیاسی پارٹیوں کے نظریات میں مکمل ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔
سماج چونکہ طبقات میں بٹا ہوا ہوتا ہے، جب کہ ریاست کا وجود سماج کے سب سے طاقتور طبقے پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے ریاستی وجود سماج کے تمام طبقات کے حقوق کو مساواتی بنیادوں پر تحفظ دینے سے قاصر ہوتا ہے۔ ریاست سماج کے سب سے طاقت ور طبقے کی نمایندگی کرتی ہے، اسی طبقے کے مفادات کے تحفظ کو ریاست اپنی اولین ذمے داری گردانتی ہے۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جہاں سے مختلف طبقات کے مابین خلیج میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ طبقاتی تضادات میں اضافے سے ریاستی مشینری کے متشدد پہلوئوں میں مزید شدت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ مارکس اور اینگلز نے اسی لیے کہا تھا کہ بورژوا سماج میں طبقاتی تضادات کے درمیان شدت ریاست کے وجود کو ناگزیر بنا دیتی ہے، جب کہ حقیقت میں ریاست کی ناگزیریت کا قضیہ سماجی تضادات کی شدت سے جڑا ہوتا ہے۔
بیسویں صدی میں فرانسیسی فلسفی لیوئی التھیوسے نے ریاست اور آئیڈیالوجی کے تعلق سے ان تمام ذرایع کا گہرا تجزیہ پیش کیا ہے، جن کی بنیاد پر ریاست اپنی مرکزیت کو قائم رکھتی ہے۔ اگرچہ فرانسیسی فلسفی نے ریاست کے تعلق سے طاقت کے فلسفے پر روشنی نہیں ڈالی، تاہم اس نے ان تمام ریاستی اداروں کے حقیقی تفاعل کا عمیق تجزیہ پیش کیا ہے جن میں ریاستی طاقت مرتکز ہوتی ہے اور جو ریاستی طاقت کو برقرار رکھنے میں معاون ہوتے ہیں، جن کو بروئے کار لا کر ریاست پر مشتمل بالائی طبقات اپنی مرکزیت کو دوام اور اپنے مفادات کو تحفظ عطا کرتے ہیں۔
ریاستی متشدد اداروں کی نوعیت بظاہر کیسی ہی خیر خواہانہ ہو، عوامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ان میں ''تکثیریت'' کو دفن کرنے کا رجحان پنہاں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ''ترقی یافتہ'' بورژوا ریاست کی نوعیت خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو، آخری تجزیے میں وہ تکثیریت کی نفی کرتی ہے۔ لوئی التھیوسے نے متشدد ریاستی اداروں میں مرتکز اس ردِ تکثیری رجحان کو ریاست کی مرکزیت یا وحدت سے تعبیر کیا ہے، جب کہ دیگر آئیڈیولاجیکل عوامل کو قدرے تکثیری قرار دیا ہے۔ سیاسی اور مذہبی پارٹیوں میں تکثیری رجحان کو تسلیم کرنا ایک غلطی ہے، بالخصوص اس وقت جب سیاسی اور مذہبی پارٹیاں ریاستی اداروں پر براجمان ہونے کو ہمہ وقت تیار رہتی ہوں۔ سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے ریاستی اداروں پر قبضہ کرنے کا مقصد کسی تکثیری سماج کی تشکیل و ارتقا نہیں، بلکہ اپنے معاشی اور نظریاتی وجود کو دوام بخشنا ہوتا ہے۔ انھی رجحانات کے تحت سرمایہ دارانہ نظام اپنی سرشت میں ایک غیر تکثیری سماج کی نمایندگی کرتا ہے۔
ریاستی اداروں میں مجتمع طاقت اور سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کی اس طاقت کو حاصل کرنے کی خواہش ایسے عوامل ہیں جو حقیقی سماجی رشتوں کی نمایندگی نہیں کرتے، نہ ہی محض ریاست کی جامد و ساکت طاقت کی ساخت اور ریاست کی آئیڈیولاجیکل اشکال کی بنیاد پر ہی سائنسی تجزیے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ سماج کا سائنسی تجزیہ متصورہ نوعیت کی نظریاتی اساس کے برعکس سماج میں متحرک حقیقی انسانی رشتوں سے شروع ہوتا ہے۔ سماج کے یہ حقیقی رشتے آئیڈیالوجی سے ذرا فاصلے پر ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں موجودہ سیاسی پارٹیوں کی ہیئت ترکیبی کا جائزہ لیں تو یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ یہاں سیاسی پارٹیوں نے حکومت پر براجمان ہو کر ریاستی اداروں کی مدد سے انسانوں کے مابین حقیقی رشتوں کو پسِ پشت ڈال کر، سماج کو فرقہ پرستی، نسل پرستی، لسانیت، علاقائیت، دقیانوسی ملائی اخلاقیات اور باطل جمہوری نظریات کی تبلیغ و اشاعت پر محض اپنی طاقت کو قائم رکھنے کے لیے جھونک دیا ہے۔ ان حالات میں مزاحمت کا جنم لینا لازمی ہے۔
بنظر ِغور دیکھنے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہو گی کہ یہاں مزاحمت کی کم و بیش تمام اشکال، خواہ وہ غلط ہوں یا ''صحیح'' ریاستی متشددانہ عمل کا ردِ عمل ہوتی ہیں۔ طاقت ریاست میں مرتکز ہوتی ہے اور اس کا اظہار مزاحمت کو جنم دیتا ہے۔ رنگ، نسل، لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی مزاحمت کی نوعیت سائنسی کے برعکس آئیڈیولاجیکل ہوتی ہے، جب کہ آئیڈیالوجی کی ہر شکل انسانوں کے مابین حقیقی رشتوں کو مخفی رکھتی ہے اور طبقات کے مابین اصل تضادات کو چھپاتی ہے۔ اس لیے ایسی مزاحمت کے کامیاب ہونے کی صورت میں بھی پسے ہوئے اور استحصال زدہ عوام کے حقیقی مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ ایک مختلف سطح پر از سرِ نو جدوجہد کا آغاز کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا آئیڈیولاجیکل سطح پر مزاحمت پسے ہوئے طبقات کی قوت کے زیاں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ بورژوا جمہوریت میں طبقات کے مابین حقیقی تضادات کو چھپایا جاتا ہے اور اس کے برعکس محض آئیڈیولاجیکل عوامل کی اہمیت کو واضح کیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا کا ''اسلامی بنیاد پرستی'' کے نعرے کی آڑ میں اسامہ بن لادن کو اساطیری کردار کے روپ میں پیش کرنا کئی سطحوں پر آئیڈیولاجیکل عوامل کو تقویت دینے کا باعث بنا۔ اس سے امریکی متشدد ریاستی اداروں کو آئیڈیولاجیکل بنیادوں پر دہشت و بربریت برپا کرنے کا جواز بھی مل گیا۔ اسامہ بن لادن تو ہلاک ہو گیا مگر وہ مصنوعی نظریاتی خلیج جو امریکی بربریت کا جواز بنی اس میں مزید شدت پیدا ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اقوام کے درمیان تو نفرت بڑھ گئی، امریکی معاشرے میں پائے جانے والے تضادات پر بھی کچھ دیر کے لیے پردہ پڑ گیا، مگر عوام کے حقیقی مسائل جوں کے توں موجود رہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت میں طبقات کے درمیان تضادات پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور ان کے متوازن مصنوعی نوعیت کے نظریاتی تضادات کو نمایاں کیا جاتا ہے، جس سے ریاستی متشدد مشینری کو اپنی طاقت کے استعمال کا جواز میسر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ دارانہ کھوکھلی جمہوریت کی حقیقت کو سمجھا جائے، ہر نوعیت کے آئیڈیولاجیکل عوامل کا فہم حاصل کیا جائے، تا کہ ان سے محفوظ رہ کر، طبقاتی بنیادوں پر، جمہوریت پرست پارٹیوں کی آمریت اور ریاستی جبر و استبداد کے خلاف مزاحمت کو موثر بنایا جا سکے۔