کورونا وائرس اور پاکستانیوں کی مستیاں

پاکستان میں کورونا وائرس کی آمد کے ساتھ ہی نیم حکیموں کے ٹوٹکے سوشل میڈیا پر تھوک کے حساب سے ملنا ہونا شروع ہوچکے ہیں


ہمیں ہر وقت تفریح چاہیے ہوتی ہے چاہے وہ کورونا وائرس کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا وائرس کیا ہے، کیسے پھیلتا ہے، اس کے کیا اثرات ہیں، احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟ ان سب کو ردی کی ٹوکری میں ڈالیں اور سکون سے رہیں۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین پر چین اور دنیا کے دیگر ممالک نے سر پکڑ لیے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او بھی ابھی تک اس ویکسین سے متعلق کسی امید افزا نتائج پر نہیں پہنچ سکا۔ لیکن پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہے جو سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے بچاؤ کے ٹوٹکے مفت میں شیئر کیے جارہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ملنے والے ٹوٹکے کہاں تک درست ہیں؟ ان کا علم تو انہیں بھی نہیں جو اندھادھند بس شیئر کیے جارہے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس پر جتنی مستی اس وقت سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہے، اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ دنیا کا کوئی بھی خطرناک وائرس کم از کم پاکستانیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پاکستانی موت سے کھیلنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ پتھر کے دور میں بھی آرام سے زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ جب ہمیں بھارت کے معاملے پر ڈرایا جاتا ہے کہ جنگ ہوئی تو یہ ہوجائے گا، وہ ہوجائے گا۔ لیکن پاکستانی ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں 'صرف ایک بار جنگ تو کرو، پھر دیکھو پوری بھارتی فلم انڈسٹری پر ہمارا ہی قبضہ ہوگا'۔ ہمیں ہر وقت تفریح چاہیے۔ چاہے وہ پھر کورونا وائرس کی صورت میں ہو یا بھارت سے جنگ کی صورت میں۔

پاکستان میں کورونا وائرس کی اطلاعات میڈیا پر نشر ہوتے ہی نیم حکیموں کے ٹوٹکے بھی مارکیٹ میں تھوک کے حساب سے دستیاب ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ کراچی والے ماسک پہننے کو ترجیح دینے کے بجائے الٹا گریبان بھی چوڑا کرکے گھوم رہے ہیں۔ بقول ان کے جب یہاں کی دھول مٹی، گندگی اور فضائی آلودگی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو یہ وائرس ابھی ہمارے سامنے بچہ ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس پاکستان میں اپنا علاج کرانے اور صحت مند ہونے آیا ہے، تاکہ وہ دوسرے ممالک جاکر تباہی مچاسکے۔

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا 'ہم کورونا وائرس کو کراچی آنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں'۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے اپنی وال پر لکھا 'کورونا وائرس کی اتنی خدمت کرو کہ دنیا کو معلوم ہوجائے ہم کتنی مہمان نواز قوم ہیں'۔ اسی طرح کی ایک اور پوسٹ میں تحریر کیا گیا 'اس وقت پاکستان کی 70 فیصد آبادی ڈاکٹر اور حکیموں پر مشتمل ہے'۔ 'فجر کے وقت دو چمچ دہی کھائیں اور کورونا وائرس کو بھگائیں'۔ 'کورونا وائرس کراچی میں بیمار پڑگیا، الٹی، موشن لگ گئے ہیں، وجہ لوگوں کو پان اور گٹکا کھانے کے بعد لمبی پچکاری مارتا دیکھ کر۔ کورونا وائرس کی چین سے درخواست، مجھے یہاں سے نکالو، گندگی سے میرا دم گھٹ رہا ہے'۔

ایک اور صاحب نے لکھا 'کورونا وائرس تبدیلی کی آواز سن کر پاکستان آتو گیا ہے، مگر اب جائے گا کیسے؟'

اسی طرح کی کئی اور پوسٹس اور ان کے نیچے کمنٹس سے کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ وائرس پاکستانیوں کی صحت پر کچھ اثر کرے گا؟ ایک حقیقت تو یہ بھی ہے کہ یہاں جتنی گندگی اور دھول مٹی ہے اس سے پیدا ہونے والی دیگر موذی بیماریاں بھی کراچی والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ تو یہ وائرس یہاں کیا گل کھلا پائے گا۔ پاکستان آنے کے بعد کورونا وائرس بچارہ خود اپنی سوانح حیات لکھنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ ملاحظ کیجیے۔

میرا نام کورونا وائرس ہے اور میں چین میں پیدا ہونے کے بعد آدھی سے زیادہ دنیا گھوم چکا ہوں۔ اسی طرح گھومتے گھومتے میں پاکستان پہنچ گیا۔ لیکن یہاں آنے کے بعد میری طبیعت انتہائی ناساز ہوچکی ہے۔ جب میں یہاں آیا تو کافی صحت مند تھا۔ سوچا تھا یہاں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو متاثر کروں گا۔ لیکن... یہاں آنے کے بعد میں خود بیمار پڑگیا ہوں۔ میرے بیمار ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں، جن میں فضائی آلودگی، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، پان اور گٹکے کی پچکاریاں۔ سب سے زیادہ مجھے جس چیز نے متاثر کیا وہ یہ کہ کراچی کے لوگ نالوں پر رہتے ہیں۔ میں نے سوچا تھا یہاں ان لوگوں کو متاثر کروں گا، مگر جب میں ان کے قریب گیا تو ایک نوجوان نے پان کی ایسی پچکاری ماری جو سیدھی میرے منہ پر آکر گری، جس کی وجہ سے مجھے کل رات سے الٹیاں لگ گئی ہیں۔ میری طبیعت اس وقت بہت زیادہ پتلی ہورہی ہے۔ جس آئی سی یو میں مجھے رکھا گیا ہے وہاں کی حالت دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی زندگی میں دوبارہ تندرست ہوپاؤں گا۔ آئی سی یو میں جگہ جگہ چوہے نظر آرہے ہیں۔ یہ آئی سی یو کم، ڈسٹ بن زیادہ لگ رہا ہے۔ شاید یہ ایک سرکاری اسپتال ہے، جہاں مجھے گزشتہ رات لایا گیا۔ تاہم اب میری سانسیں اکھڑ رہی ہیں اور میں یہاں سے نکل کر کسی کھلی فضا میں جانا چاہتا ہوں تاکہ زندہ رہ سکوں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کے سرکاری ڈاکٹر مجھے یہاں سے زندہ نکلنے دیں گے۔ میرا سوانح حیات لکھنے کا مقصد دنیا میں موجود میرے دیگر کورونا وائرس بچوں اور بڑوں کو نصیحت کرنا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی رہ لینا مگر پاکستان آنے کی غلطی مت کرنا۔ یہاں تمہاری دال نہیں گلے گی۔ الٹا بیمار ہوکر بستر مرگ پر پڑ جاؤ گے۔

میں نے یہاں کیا کیا دیکھا؟

جب میں ایران سے فضائی سفر کرکے کراچی پہنچا تو بہت خوش تھا کہ یہاں آنے کا موقع بھی مل گیا۔ اسی خوشی خوشی میں، میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بھول گیا اور سید ھا ایئرپورٹ سے باہر نکل آیا۔ جب ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو بدترین ٹریفک نے میرا استقبال کیا۔ ہر طرف گاڑیوں کا شور اور دھواں دیکھ کر میری طبیعت خراب ہونے لگی۔ میں نے یہ سوچ کر جلدی جلدی ایک گلاس گنے کا جوس پی لیا۔ لیکن جب میں نے گلاس خالی کرکے دیکھا تو اس میں مکھیوں کا جوس نکلا ہوا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے پہلی الٹی کی تھی۔ بڑی مشکل سے چلتا ہوا آگے گیا اور سوچا کچھ نمکین کھالوں۔ یہ سوچ کر میں نے ایک سموسہ لے لیا۔ سموسہ ابھی آدھا ہی ہوا تھا کہ مجھے سموسے میں کیڑا لگا ہوا آلو نظر آیا۔ میری طبیعت مزید خراب ہوگئی اور بچی کچھی سانسیں بھی نڈھال ہونے لگیں۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور سیدھا وہاں سے نکل کر کچی آبادی کا رخ کیا۔ مگر یہاں بھی میں کسی کو متاثر نہ کرسکا، بلکہ ایک کو ہدف بنانے کی کوشش کی ہی تھی کہ اس نے اچانک مجھ پر گٹکے کی پچکاری مار دی۔ بس پھر میری طبیعت نہیں سنبھلی۔ الٹیاں کر کرکے میری حالت اب مرنے والی ہوگئی ہے۔ اوپر سے جس سرکاری اسپتال کے آئی سی یو میں مجھے رکھا گیا ہے وہاں میری طبعیت سنبھلنے کے بجائے مزید خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔

مزید برآں میرے نام پر لوگوں نے کمائی کا الگ دھندہ شروع کردیا۔ یہاں تو لوگوں کو میرے آنے کی اتنی خوشی ہے جتنی مجھے یہاں آنے سے قبل ہوئی تھی۔ عوام کو تو چھوڑیئے، حکومتی سطح پر بھی میرے نام پر فنڈز جاری ہورہے ہیں، جو یہاں کے بااثر لوگوں کی جیبوں میں ہی ٹرانسفر ہوں گے۔

یہاں کے عوام جیسے جی رہے ہیں، اس ماحول میں، میں یہاں کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر مجھے یہاں سے نکالنے کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا تو میں جلد ہی مرکر گمنام ہوجاؤں گا۔ میری تمام کورونا وائرسوں سے گزارش ہے کہ وہ غلطی سے بھی پاکستان کا رخ نہ کریں، ورنہ بے موت مارے جائیں گے۔

آپ کا مخلص، کورونا وائرس۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں