ایک اور خوفناک عفریت خدایا مدد فرما
دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب طاعون اور ملیریا اور اس جیسی دیگر مہلک بیماریوں نے شہر کے شہر تباہ کردیے۔
چائنیزکرونا وائرس (NCOV-2019) بلاشبہ ایک خوفناک عفریت کے روپ میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ عام طور پر یہ خیال تقویت پکڑ رہا تھا کہ یہ لاعلاج اور مہلک وائرس صرف چین تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ آہستہ آہستہ لیکن بتدریج تمام دنیا کے ممالک کو اپنے خونی شکنجے میں جکڑ لے گا جس کی بدولت نہ صرف بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ہے بلکہ چین سمیت عالمی معیشت کو بھی شدید دھچکا پہنچنے کا شدید خطرہ ہے۔ اب جو خبریں آ رہی ہیں ان سے یہ خیال حقیقت بنتا معلوم ہو رہا ہے۔
چین کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس مہلک اور خطرناک وائرس سے متاثر افراد اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں، تاہم چین میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور ایک محتاط اندازے کیمطابق اب تک اٹھانوے ہزار افراد اس وائرس کی زد میں آچکے ہیں اور سیکڑوں کی اموات واقع ہوچکی ہیں اور اب عالمی سطح پر اس سے بچاؤ، حفاظتی اقدام اور انتظام کی تیاری ہو رہی ہے، دنیا بھر کے ممالک اپنی آمد ورفت میں انتہائی محتاط رویہ اختیارکرتے ہوئے ہر نئے آنیوالے شخص کا ایئرپورٹ، بندرگاہوں اور زمینی راستوں پر معائنہ کرتے ہوئے انسانی جسم کا بالخصوص درجہ حرارت چیک کر رہے ہیں اور متاثرین کا تمام ممالک نے اپنی حدود میں داخلہ سختی سے بند رکھا ہوا ہے کیونکہ اس لاعلاج وائرس کی روک تھام کے ضمن میں احتیاط ہی واحد راستہ ہے، عالمی ادارہ صحت نے بھی بین الاقوامی ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
چین ہمارا پڑوسی ہے لہٰذا ہمیں سب سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ،ہماری معیشت پہلے ہی کنارے لگی ہوئی ہے ، خدانخواستہ کرونا کے حملہ آور ہونے کی صورت میں رہی سہی کسر بھی برابر ہونے کا سنگین خطرہ ہے تاہم خوش قسمتی سے پاکستان تادم تحریر اس عذاب نما وائرس سے بچا ہوا ہے تاہم ایران سے آنیوالے دو تین زائرین میں اس کی علامات سامنے آئی ہیں ۔ اس وقت دنیا بھر میں جنگوں اور ناگہانی قدرتی آفات کے ہمراہ نت نئی بیماریوں سے بھی عالم انسانیت کو خطرات لاحق ہیں اور ان سے جنگی بنیادوں پر ہی نمٹنے کے لیے تیاریوں کی اشد ضرورت ہے۔
نوول کرونا وائرس کے چین کے علاوہ 28 ممالک میں اب تک مریضوں کی تعداد 40 ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق کرونا وائرس خطرناک عالمی خطرہ بن سکتا ہے موجودہ صورتحال کیمطابق امریکا، برطانیہ اورکینیڈا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی مذکورہ وائرس کی زد میں آچکے ہیں، برطانیہ نے کرونا وائرس سے بچاؤکے لیے ایک ویکسین تیارکر لی ہے تاہم ابھی یہ تجرباتی مراحل میں ہے اور جانوروں پر اس کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔
جی 77 گروپ اور اقوام متحدہ نے نوول کرونا وائرس کے خلاف چین کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کا بھی کہنا ہے کہ ہم اس سنگین صورتحال میں چائنیز کے ساتھ ویسے ہی کھڑے ہیں جیسے چین ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے مزید برآں پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے مذکورہ مہلک وائرس سے نبرد آزما ہونے کے لیے مکمل حفاظتی اقدام کرلیے ہیں، تاہم میرے خیال سے یہ دونوں ہی بیانات محض رسمی، دل کو بہلانے والے اور صرف مورال کو بلند کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ورنہ پاکستان کی اس وقت معیشت اور صحت کے شعبے میں جو موجودہ صورتحال ہے اس سے پوری قوم بخوبی واقف ہے۔
اس وقت ملک بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری سمیت جن معاشی مسائل اور مشکلات کا شکار ہے معاشی صورتحال، کاروباری حالات، برآمدات اور بینکنگ سیکٹر کی حالت زار مسلسل ابتر ہے اور معاشی صورتحال سرکاری بریفنگز میں کیے جانے والے دعوؤں سے یکسر مختلف ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں کمی پر پاکستان کے دورے پر آیا ہوا آئی ایم ایف مشن قطعی ناخوش ہے اور ٹیکس ریونیو میں اضافے پر زور دے رہا ہے نیز ہماری اسٹاک مارکیٹ اکثر اچانک شدید مندی سے دوچار ہو رہی ہے۔
پچھلے دو سال میں 22 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، بجلی کے نرخوں میں ایک بار پھر اضافہ کیا جا رہا ہے، حکومت کی جانب سے معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے باوجود زیادہ اچھے کی امید نہیں۔ بہرحال کرونا وائرس کے عالمی اثرات میں چین کی دیوہیکل معیشت اس وقت لڑکھڑا گئی ہے اور عالمی معاشی ڈھانچہ بھی ہل کر رہ گیا ہے اور ہمارے ملک کی معیشت کی پہلے ہی جو موجودہ صورتحال ہے اس کا مختصر خلاصہ میں مندرجہ بالا سطور میں بیان کر چکا ہوں۔
حیاتیاتی اور کیمیائی جنگیں نوع انسانی کا پہلے ہی بہت بیڑا غرق کرچکی ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر زبان زدعام ہو رہا ہے کہ ایک عالمی سازش کے تحت چین میں یہ مہلک وائرس مصنوعی طور پر پھیلایا گیا ہے، اگر یہ سچ ہے تو یہ بھی سچ ہے کہ اب چین تنہا نہیں رہا اور یہ وائرس بہت تیزی سے پوری دنیا کے ممالک اور ان کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ 2003 میں پھیلنے والے خطرناک ''سارس'' وائرس نے بھی چین میں بہت تباہی مچائی تھی تاہم چین نے صرف چھ ماہ میں سارس وائرس کی تباہ کاریوں پر کنٹرول کرلیا تھا لیکن دنیا کے دیگر ممالک اس وائرس کی تباہی اور معاشی اثرات سے کئی برس تک نہیں نکل سکے تھے۔
دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب طاعون اور ملیریا اور اس جیسی دیگر مہلک بیماریوں نے شہر کے شہر تباہ کردیے اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا تھا لیکن آج یہ امراض معمولی سمجھے جاتے ہیں لیکن اب ان کی جگہ دیگر امراض نے لے لی ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنے عالمی امن کے منشور میں بیماریوں کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کو شامل کرنا چاہیے اور اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایسے ادارے کا قیام بھی جلد عمل میں آنا چاہیے جس کے تحت عالمی صحت، ترقی و خوشحالی کے لیے دنیا کے تمام ممالک مشترکہ طور پر نئی بین الاقوامی سوچ کے تحت نووارد مہلک وباؤں کے مقابلے کے لیے مشترکہ تحقیق کریں۔
اس ضمن میں دنیا کے تمام ممالک کے ذہین ترین اذہان کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان مہلک وباؤں کے خلاف جنگ میں مشترکہ طور پر فتح حاصل کرنی ہوگی جس کے لیے جلد ہی جنگی بنیادوں پر ایک ضابطہ عمل فوری طور پر تشکیل پا جانا چاہیے۔
یہ مشترکہ لائحہ عمل نہ صرف مہلک بیماریوں بلکہ دنیا میں پائیدار امن اور انسانیت کی بقا اور فلاح و ترقی میں بھی بہت معاون و مددگار ثابت ہوگا۔ آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ معمول کے مطابق ہونے والا نزلہ ، زکام، بخار کرونا وائرس نہیں لہٰذا ہر چھینکنے والے شخص سے خوفزدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ، البتہ اسلام نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے دنیا جب تک ان کے استعمال سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتی مختلف قسم کی وباؤں اور عذابوں میں گھری اور مبتلا ہی رہے گی۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس عظیم ترین دین کا ہر اصول اپنی مثال آپ، بے مثال، بے نظیر، لاجواب و لازوال ہے اللہ نے رسولؐ پر جو کچھ اتارا ہے، پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے ہی نازل فرمایا ہے، پس تمام انسانیت کو مکمل ایمانداری کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔