عالمی یوم بیت الخلا
ایک تحقیق کے مطابق ایک عام انسان اپنی زندگی کے چار سال کے مساوی وقت بیت الخلا میں گزارتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ایک عام انسان اپنی زندگی کے چار سال کے مساوی وقت بیت الخلا میں گزارتا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ہمارے ایک دوست ایک عام فرد کی بہ نسبت بیت الخلا میں 4 گنا زیادہ وقت گزارتے ہیں اور اگر کوئی باہر سے دروازے پر دستک نہ دے تو یہ وقت بعض اوقات اور بھی بڑھ جاتا ہے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کرہ ارض پر بعض ہمارے دوست جیسے افراد اپنی زندگی کے 4 نہیں 12 سال وہاں گزارتے ہیں۔ ''سوچنے کا مقام'' ۔
آپ سوچیں گے کہ آخر بیٹھے بٹھائے ہمیں یوں بیت الخلا کا خیال کیسے آیا؟ بھئی! اس لیے کہ حال ہی میں عالمی سطح پر ''بیت الخلا'' کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ عالمی سطح پر تو یہ سوچ ہے کہ بیت الخلا جیسی جگہ کے لیے بھی عالمی دن مقرر کیا گیا ہے لیکن ہمارے پاکستان میں دن منانا تو درکنار اس جگہ کے بارے میں بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں عوامی بیت الخلا کی تعداد اور حالت دونوں ہی قابل تشویش ہیں۔
کراچی جیسے گنجان آبادی والے شہر میں عوامی بیت الخلا کی تعداد کیا ہونی چاہیے؟ قابل افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر میں تقریباً 40 عوامی بیت الخلا ہیں اور اس میں بھی نصف ناقابل استعمال ہیں۔ یہاں تفریح گاہیں بھی بہت بڑی بڑی ہیں جہاں بیک وقت ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے تفریح کے لیے جمع ہوتے ہیں لیکن ان تفریح گاہوں میں بھی تعداد کے اعتبار سے بیت الخلا کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ چنانچہ ''کثرت سے استعمال'' کے باعث گندگی اور تعفن ہی دستیاب ہوتا ہے جس سے صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ گھروں میں خاص کر فلیٹوں میں ''اٹیچڈ باتھ'' کے تصور نے گھریلو ماحول کو بھی بہت آلودہ کر دیا ہے جس سے انجانے میں بھی بیماریاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ ''اٹیچڈ باتھ'' میں عموماً ایگزاسٹ فین نہیں ہوتے اور یوں تمام گندی ہوا کمروں میں پھیل جاتی ہے جو ظاہر ہے کہ صحت کے لیے نہایت نقصان دہ ہوتی ہے۔
بہرکیف بات چھوٹی سی اور نہایت معمولی سی اور لفظ بیت الخلا معیوب سا سمجھا جاتا ہے، لوگ اس پر بات کرنا بھی اچھا نہیں سمجھتے لیکن جناب! اسی سے نہ صرف صحت کے مسائل جڑے ہوتے ہیں بلکہ بہت سے لوگوں کے ''ایمرجنسی مسائل'' بھی اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک کلاس فیلو ان دنوں گردے میں پتھری کے مرض میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق انھیں بار بار پانی پینا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ جب وہ بار بار پانی پیتے ہیں تو پھر اس کے اخراج کے لیے بھی انھیں بار بار بیت الخلا جانا پڑتا ہے گھر اور دفتر میں تو وہ باآسانی بیت الخلا جا سکتے ہیں لیکن دوران سفر (یعنی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر وغیرہ) انھیں بیت الخلا کی ضرورت محسوس ہونے پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ان دوست کا کہنا ہے کہ جناب! با جماعت نماز کا وقت ہو تو انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی وہ سیدھے مسجد جا کر بیت الخلا استعمال کر لیتے ہیں لیکن با جماعت نماز کے ایک آدھ گھنٹے آگے پیچھے ضرورت پڑے تو مساجد میں تالے پڑے ملتے ہیں، یوں یہ سہولت ان کے لیے ناپید ہو جاتی ہے۔
بات یہ ہے کہ مساجد بے شک بیت الخلا کے استعمال کے لیے نہیں بنائی جاتیں، مگر ماضی میں ہماری مساجد مسافروں یا بیرون شہر سے آنے والوں کے لیے سہولت فراہم کا ذریعہ بھی ہوتی تھیں جہاں مسافر منہ ہاتھ دھو کر، حاجت سے فارغ ہو کر نماز بھی ادا کرتا تھا اور انتظار کے لیے بھی مسجد میں ہی ٹھہرا کرتا تھا۔ آپ کسی بھی وقت مسجد میں چلے جائیں آپ کو تمام مساجد کے دروازے کھلے ملتے تھے آپ با جماعت نماز کے اوقات کے علاوہ بھی مسجد میں عبادت اور آرام کر سکتے تھے۔
آج سیکیورٹی کے مسائل کے باعث اور دیگر وجوہات کے باعث مساجد تمام اوقات میں آنے والوں کے لیے کھلی نہیں ہوتیں۔ یہ مسائل اپنی جگہ، مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مساجد میں بیت الخلا الگ سے بنائے گئے ہیں اور وہاں علیحدہ سے افراد کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جو چند روپے لے کر ان بیت الخلا کو استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اس سے کم از کم کسی مسافر کو چند روپوں کے عوض یہ سہولت مل جاتی ہے۔ اگر شہر کی دیگر مساجد بھی اس طرح کا اہتمام کر لیں تو ''بیت الخلا'' کی کمی پوری ہو سکتی ہے اور مساجد کے بیت الخلا کی صفائی ستھرائی کا کام بھی اسی رقم کے عوض ہو سکتا ہے جو یہاں سے حاصل ہو گی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بڑے شہروں میں مسافروں کی ایک سے دوسرے شہر آمد و رفت جاری رہتی ہے اور معمر افراد کی اکثریت ہونے کے ناطے نہ صرف ان مسافروں کو مساجد میں نماز ادا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے بلکہ بیت الخلا جانے کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس بڑی تعداد میں بیت الخلا تعمیر کرنا اور پھر انھیں عوامی سہولت کے لیے جاری و ساری رکھنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ یہاں کرپشن کے باعث ہر منصوبہ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
بہرکیف یہ قابل غور بات ہے کہ گردے کے مریضوں اور دیگر بیماروں کو دوران سفر جب بیت الخلا کی ضرورت پڑتی ہے تو انھیں ناقابل بیان تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام افراد تو برداشت کر لیتے ہیں مگر مریض کے لیے آسان نہیں۔ پاکستان کے اکثر شہروں میں فٹ پاتھ پر گندگی نظر آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے شہروں سے آنے والوں کو گھنٹوں سفر کرنے کے بعد بھی بیت الخلا دستیاب نہیں ہوتا، لاری اڈے (بس اڈوں) پر تعفن اور پراگندہ ماحول اس بات کا ثبوت ہے۔ ماحول کو صاف ستھرا بنانے کے لیے آئیے! اس معیوب سے لفظ ''بیت الخلا'' سے منسلک مسائل پر بھی سوچیں۔