محبت میں ٹوئسٹ اور ہیپی اینڈنگ

عشق کی داستانوں میں تو عام سا فرہاد بھی شیریں کو حاصل کر لیتا ہے۔


عینی نیازی February 15, 2020

اور پھر اس کے بعد شہزادے اور شہزادی کی شادی ہو گئی ، عوام خوشحال تھے، سب مل کر ہنسی خوشی محبت سے رہنے لگے۔ بادشاہ شہزادے اور پریوں کی کہانیوں میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے ان کہانیوں میں ٹوئسٹ نہیں آتا کبھی آپ نے سوچا ان کہانیوں میں اپنائے جانے والے ہیپی اینڈنگ کہاں تک سچ ہوتا ہو گا۔

عشق کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد مسائل ختم ہو جاتے ہوں گے، کسی قسم کی کوئی ڈپلومیسی کوئی سازش جنم نہیں لیتی ہو گی۔ شاہی محلات کی غلام گردشیں ہوں اور سازشیں نہ ہوں ایسا ہو نہیں سکتا۔ تاریخ کی سبھی کتابوں میں شاہی محلات کے اندر رہنے والوں کے گرد خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہے ہیں ، کوئی نہیں کہہ سکتا کون سا تیرکوئی ہتھیار یا پھر کوئی بغاوت آپ پر حملہ آور ہو جائے اور شاہی بساط پر چھائے تمام مہرے آپ کے خلاف ہو جائیں۔ باد مخالف کی تمام لہریں سب کچھ بہا کر لے جائیں۔ یہ سب پچھلے ادوار میں بھی ہوتا رہا ہے اورآج بھی رائج ہے کبھی کوئی شہزادہ سب کچھ داؤ پر لگا کر اپنی محبت جیت لیتا ہے۔

عشق کی داستانوں میں تو عام سا فرہاد بھی شیریں کو حاصل کر لیتا ہے۔ عشق میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ تخت و تاج کو ٹھکرایا جا سکے جیسے 1936ء میں موجودہ برطانوی ملکہ الزبتھ کے چچا کنگ ایڈورڈ نے طلاق یافتہ امریکی خاتون سے محبت کی۔ شاہی محل کے رسم و رواج حائل ہوئے بالکل فلمی سین کی طرح یا تو اس لڑکی کو چھوڑ دو یا پھر ان آسائشوں سے عاق کر دیے جاؤ گے۔ کنگ نے شاہی تخت و تاج کو ٹھکرا کر اپنی محبت کو عزت و احترام کا رنگ دیا، شادی کی لیکن اس جرم میں سلطنت کو خیر باد کہنا پڑا انھوں نے اپنی محبت کے ساتھ بن پاس لے لی۔

تاریخ نے اپنے آپ کو پھر دہرایا، اسی بکنگھم پیلس میں 2018ء میں ایک شہزادے نے محبت کی لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ شہزادہ ہیری نے ایک عام امریکی سیاہ فام طلاق یافتہ اپنے سے تین سال بڑی خاتون سے شادی کی تو اسے شاہی محل اور ملکہ نے قبول کر لیا۔ برطانوی شہزادے پرنس ہیری اور میگھن مارکل کی داستان محبت 2016ء اکتوبر میں ایک مشترکہ دوست کی پارٹی میں شروع ہوئی۔ پہلی نظر میں پیار کی یہ کہانی جس میں دونوں نے سمجھا یہی تو ہے جس کی مجھے تلاش تھی میں اپنی تمام زندگی کا سفر اسی کے ساتھ بسر کرنا چاہتی تھی، دونوں نے اپنے رشتے کو دنیا والوں سے چھپا کر رکھا اور ڈیڑھ سال تک اسے بچا کر رکھنے کے بعد شادی کا اعلان کر دیا۔

دونوں کے بیک گراؤنڈ میں بہت فرق تھا، رنگ، نسل، شہریت اور شعبے سب ہی مختلف تھے۔ شہزادہ ہیری نے فوج سے تربیت حاصل کی تھی تو میگھن مارکل نے شوبز میڈیا کو چنا تھا محبت عمر رنگ و نسل کے فرق کو بھی نہیں دیکھتی سچی محبت ان قیود سے آزاد ہوتی ہے عزت و احترام کروانا جانتی ہے تاحیات ساتھ نبھانا پسند کرتی ہے۔

سو اس کہانی میں بھی شہزادے نے عام سی لڑکی سے شادی کر لی۔ شادی میں شاہی خاندان نے شرکت کی پورے شان و شوکت کے ساتھ یہ رسم ادا ہوئی، تمام دنیا کے اخبارات و شوبز میڈیا نے اسے سراہا کوریج دی اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے، لیکن چونکہ یہ ایک حقیقی دنیا کی کہانی تھی، اس لیے اس قصے میں ایک ٹوئسٹ آ گیا۔ ایک چونکا دینے والی خبر آئی شادی کے بیس ماہ بعد اس جوڑے نے اعلان کیا کہ ہم شاہی خاندان سے الگ رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جہاں وہ سکون سے رہیں گے، ہمیں یہ محل آرام آسائشیں نہیں چاہئیں، ساری زندگی بیٹھ کر انجوائے نہیں کرنا چاہتے، کسی پروٹوکول کی خواہش نہیں ، اب ایسی آسان زندگی کون نہیں چاہے گا مگر شہزادے نے سب کچھ چھوڑ کر دوسرے ملک میں بسنے کا فیصلہ کر لیا اور ان کی فیملی اس پر عملدرآمد بھی کر رہی ہے۔

اب ہم سب عوام نے ہمیشہ کہانی یہیں تک سنی تھی کہ شادی ہو گئی سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ کہانیوں میں ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ شاہی محل میں زندگی گزارنے کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جنھیں فالو کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے کھانے پینے کا سلیقہ بات چیت میں حفظ مراتب کا خیال رکھنا عوام سے ملنے کے آداب اور سب سے بڑھ کر سفارت کاری کے اصول وغیرہ فالو کرنے پڑتے ہیں یہ وہ مائیز ہوتی ہیں جن پر ساری عمر پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے اگر کوئی ان سے انحراف کرے تو موت ان کا مقدر بن جاتی ہے، جس کا ادراک کرتے ہوئے شاہی جوڑے نے عوامی زندگی کو ترجیح دی ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ کہاں تک اپنے فیصلوں اور ترجیحات پر قائم رہ پاتے ہیں۔

ہم عام انسانوں کی زندگی بہت کٹھن ہے امتحان عشق سے آگے بھی ایک طویل زندگی ہے، جس کے بڑے چیلنجز ہیں۔ زندگی محض ویلنٹائن ڈے کا ایک دن نہیں کئی دہائیوں پر مبنی زندگی کا نام ہے جہاں ہمارے آس پاس ہمارے قریبی رشتے ہیں۔ معاشرہ ملک ہے جس میں ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم سر اٹھا کر دنیا کا مقابلہ کر سکیں۔ ان کے ہم پر حقوق ہیں قرض ہے اور سب سے بڑھ کر آنے والی نسلوں کو ایک صاف پر امن دنیا لوٹانی بھی تو ہے کہ جس بچپن کو ہم نے انجوائے کیا یہ نومولود بھی لطف اٹھا سکیں یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے جہاں اللہ نے اسے بھی نواز دیا ہے، جو اس کا اہل نہیں سیکڑوں مثالیں ایسی ہیں جہاں ساری زندگی محنت کے بعد بھی انسان لاحاصل رہتا ہے، عجیب داستان ہے زندگی! ہم کھوجتے سمجھتے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں لیکن یہ محبت بھی تو ضروری ہے کہ یہ زندگی کا حصہ ہے تمام رشتوں کی بنیاد ہے۔

گارسیامارکیز کہتا ہے کہ ''میں لوگوں کو بتاؤں گا غلط سمجھتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں تو محبت نہیں کر سکتے انھیں نہیں معلوم وہ جب محبت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو بوڑھے ہو جاتے ہیں۔'' اب پڑھنے والے اسے کسی اور معنوں میں نہیں لے لیجیے گا، ورنہ آپ کی زندگی میں محبت ٹوئسٹ تو آ سکتا ہے ہیپی اینڈنگ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔