نقش فریادی اور جلال و جمال

20نومبر1916کو احمد ندیم قاسمی اس دنیا میں آئے اور 20نومبر 1984کو فیض صاحب کا انتقال ہوا۔


Amjad Islam Amjad November 20, 2013
[email protected]

20نومبر1916کو احمد ندیم قاسمی اس دنیا میں آئے اور 20نومبر 1984کو فیض صاحب کا انتقال ہوا۔ یوں دیکھا جائے تو یہ دن ہماری ادبی تاریخ میں دوہری حیثیت کا حامل ہے میری اور میری ہم عصر نسل کی خوش بختی ہے کہ اسے ان دونوں اکابرین ادب کی صحبت اور زمانہ نصیب ہوئے۔ فیض صاحب کہتے ہیں

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

اور قاسمی صاحب اپنے فلسفہ حیات کا ایک رخ کچھ اس طرح سے دکھاتے ہیں کہ

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام

ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

یہ دونوں حضرات وقت اور رتبے کے حوالے سے ترقی پسند تحریک کے اولین اور معتبر ترین نمایندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ فیض صاحب کے تنقیدی مضامین بھی ''میزان'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے اور ان کا تعلق صحافت' ٹریڈ یونین اور تدریس سے بھی رہا عمر کے آخری حصے میں ایفرو ایشیائی ادیبوں کے نمایندہ رسالے ''لوٹس'' کی ادارت سے بھی وہ منسلک رہے لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت کی بنیادی وجہ ان کی شاعری ہی ٹھہرتی ہے جس کا نقش ان کے اولین شعری مجموعے ''نقش فریادی'' کی اشاعت کے ساتھ ہی قائم ہونا شروع ہو گیا تھا دوسری طرف احمد ندیم قاسمی اپنے پہلے شعری مجموعے ''جلال و جمال'' کی اشاعت کے وقت بھی اپنے دور کے اہم افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے تھے بعد میں وہ ''امروز'' کی ادارت اور اپنے فکاہیہ کالم ''حرف و حکایت'' کے ذریعے صحافت کے میدان میں بھی معروف و محترم ہوئے۔ فیض صاحب جتنی تو نہیں لیکن ان کی طرح قید بھی کاٹی اور پھر مشہور ادبی مجلے ''فنون'' کے مدیر کے طور پر تقریباً چار دہائیوں تک نہ صرف ہم عصر ادب کا حوالہ ٹھہرے بلکہ اس کی وساطت سے انھوں نے ادیبوں کی کم از کم دو نسلوں کی ذہنی' فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بھی وہ اعلی اور مثالی کردار ادا کیا جو اپنی مثال آپ ہے لیکن اتنے سارے محاذوں پر ایک ساتھ ڈٹے رہنے کی وجہ سے ان کی شاعری کو وہ مقام نسبتاً کم ملا ہے جس کی وہ صحیح معنوں میں حق دار تھی

کوئی کوہکن ہو کہ قیس ہو کوئی میر ہو کہ ندیم ہو

سبھی نام ایک ہی شخص کے سبھی پھول ایک ہی ڈال کے

جب فیض صاحب کا انتقال ہوا تو میں' مرحومہ پروین شاکر اور جمیل الدین عالی صاحب کے ہمراہ امریکا اور کینیڈا کے ایک مشاعراتی دورے پر تھا۔ ہم نے اپنے میزبان اشفاق حسین (جس نے فیض صاحب پر بہت عمدہ اور وقیع کام بھی کیا ہے) سے مل کر ٹورانٹو میں ان کے لیے ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا جو غالباً دنیا بھر میں فیض کے حوالے سے پہلا باقاعدہ تعزیتی اجلاس تھا۔ محفل میں فیض صاحب کے کینیڈین میزبان عبدالرحیم انجان اور ان کے دوست اور نظریاتی ساتھی علی سردار جعفری (مرحوم) سمیت عاشقان فیض بہت بڑی تعداد میں شامل تھے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایکسپریس میڈیا گروپ کی اردو کانفرنس کے حوالے سے روس سے فیض کی دوست، پرستار اور مترجم لڈمیلا ویسی لیوا تشریف لائیں تو انھوں نے بتایا کہ روس کے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی فیض صاحب کا شمار برصغیر کے مقبول ترین ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے جس کا ایک ثبوت ان کو ملنے والا لینن امن انعام بھی ہے اور یہ کہ ان کا کم و بیش تمام کلام روسی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے اس بات پر بہت فخر ہے کہ انھوں نے میرے دوسرے شعری مجموعے ''ساتواں در' کا فلیپ لکھا اور میری فلسطینی مزاحمتی شاعری کے منظوم تراجم پر مشتمل کتاب ''عکس'' کا ذکر بھی ہر جگہ بڑی محبت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اس ضمن میں انھوں نے مجھے مراکو کے شاعر معین بسیسو کی کچھ نظمیں بھی تیونس سے برائے ترجمہ بھجوائی تھیں۔ برادرم واجد جواد نے کراچی میں ان کے کلیات کا پاکٹ ایڈیشن ''سارے سخن ہمارے'' کے نام سے بہت خوبصورت طباعت کے ساتھ بطور تحفہ ادب دوست احباب کے لیے شایع کیا ہے جو اس وقت میرے سامنے ہے اس کے آخر میں انھوں نے ''متفرق کلام'' کے عنوان سے ان کے کچھ منتخب اشعار ایک جگہ جمع کر دیے ہیں، میں اس میں سے مزید انتخاب کرتے ہوئے چند اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ کی گنجائش اس کالم کی حد تک موجود نہیں

تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو

مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے

ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے

وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساط محفل میں

کہ دل کے داغ کہاں ہیں' نشست درد کہاں!

نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے

مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم

وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

دل عشاق کی خبر لینا

پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاک جگر' ساغر میں ہے خون حسرت مے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں

ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا

دل آرزو سے پر کرو آنکھیں لہو سے پر

پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم

پھر ضبط آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

اورآخر میں ایک غزل کے چند اشعار جس میں فیض صاحب کا فلسفہ حیات اور ان کے عہد کا آشوب یک جان ہو گئے ہیں۔

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی

مقابل صف اعداء جسے کیا آغاز

وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی

کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا

بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی

یہ برہمن کا کرم' وہ عطائے شیخ حرم

کبھی حیات' کبھی مے حرام ہوتی رہی

جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیض لٹ کے یاروں سے

تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں