عذاب یافتہ کون

چین پر فتوے لگانے کے بجائے اپنے ملک کی موجودہ صورتحال کو عذاب الٰہی کی صورت سمجھتے ہوئے اپنی فکر کیجئے


چین عوام کو بہترین طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے اور ہمارے ملک میں مریض اسپتال کے فرش پر دم توڑ رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

وطن عزیز کی موجودہ صورت حال پر یہ لطیفہ صادق آتا ہے۔ ایک جہاز تباہ ہوگیا، تمام مسافرہلاک ہوگئے۔ جہاز میں سوار صرف ایک بندر بچا۔ حادثے کی تفتیش کرنے والی ٹیم نے بڑی تگ و دو کے بعد بندر کی زبان میں اس سے بات کرنے کا بندوبست کیا۔ بات چیت شروع ہوئی تو بندر سے پہلا سوال کیا گیا جب جہاز تباہ ہورہا تھا تو مسافر کیا کررہے تھے؟ بندر نے اشاروں سے بتایا کہ وہ سورہے تھے۔ پائلٹ کیا کررہا تھا؟ وہ ایئر ہوسٹس کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا تھا۔ ساتھی پائلٹ کیا کررہا تھا؟ وہ موبائل پر مصروف تھا۔ اور تم کیا کررہے تھے؟ بندر سے آخری سوال کیا گیا۔ میں جہاز چلارہا تھا۔ بندر نے جواب دیا۔

اس وقت ملک کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مہنگائی گزشتہ نو سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ بقول مشاہداللہ خان موت زندگی سے سستی ہوچکی ہے۔ ہم دن بدن زوال پذیر ہیں۔ 2009 میں جب پی پی پی کی حکومت تھی ایک درہم 21 روپے کے برابر تھا۔ ن لیگ کے دور میں یہ 30 اور پی ٹی آئی کی تبدیلیوں کی بدولت اب یہ 42 تک جاپہنچا ہے۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ملک کا وزیراعظم کہہ رہا ہے دو لاکھ تنخواہ میں میرا گزارا نہیں ہوتا۔ اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 20 ہزار تنخواہ لینے والا کس حال میں ہوگا؟

کچھ دیر کےلیے مان لیتے ہیں کہ یہ سب گزشتہ حکومتوں کی بدولت ہے۔ لیکن وہ کام جو آپ کرسکتے تھے، یعنی امن و امان قائم کرنا، اس کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ یہاں پر نہ 7 سالہ معصوم پریاں محفوظ ہیں، نہ 15 سالہ بچیاں، چلتی وین میں بچیوں سے زیادتی، مدرسے آتی جاتی بچیوں سے زیادتی، ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی بری خبر سننے کو مل جاتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس صورتحال پر اجتماعی سوچ و بچار کرتے۔ اپنی اصلاح احوال کی کوشش کی جاتی۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے وزیراعظم اپنا گھر درست کرنے کے بجائے دوسروں میں ثالثی کروانے میں مصروف ہیں۔ کچھ مشیر آٹا، چینی بحران پیدا کرنے میں اور کچھ اسے حل کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔ حکومتی ارکان ایک دوسرے پر نوکریاں بیچنے کے الزامات لگارہے ہیں۔ حکومتی اتحادی 'دیکھو اور انتظار کرو' کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اپوزیشن عوام کو یہ باور کروا رہی ہے کہ یہ وہ تبدیلی ہے جس کی خاطر آپ نے 126 دن دھرنا دیا تھا۔ تبدیلی آگئی ہے، اب بھگتو اس کو۔ عوام جی ہاں پڑھے لکھے نوجوان، حکومت کو بیدار کرنے کے بجائے، سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے پڑوسی ملک چین میں آنے والے کرونا وائرس کو بنیاد بناکر عذاب الٰہی کے فتوے لگانے اور پھیلانے میں مصروف ہیں۔

آئیے تنہائی میں بیٹھ کو غور کریں ''عذاب الٰہی'' میں چین مبتلا ہے یا ہم؟ وہ چائنیز جو مردار تو کھاتے ہیں مگر کسی کا حق نہیں مارتے۔ پانچ سالہ بچی ہو یا 15 سالہ، اکیلی ہو یا محرم کے ساتھ، ہر ایک محفوظ ہے۔ کرپشن، دھوکا دہی نہیں ہے۔ راہ چلتی عورت کو لوگ بھوکے کتے کی طرح تاڑتے نہیں۔ لوگوں کی جان و مال اور عزت محفوظ ہے۔ کہیں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ گدھے کا گوشت فروخت ہوتا ہے تو وہ گدھا ہی ہوتا ہے، نہ کہ بکرا بناکر پیش کردیا جاتا ہے۔

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یہ عذاب نہیں بلکہ چین پر آزمائش ہے، جس کا وہ ثابت قدمی اور بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب چین اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلے گا۔ یہ آزمائش چین کو مزید مضبوط بنادے گی۔

دوسری جانب ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہم دن بدن زوال پذیر ہیں۔ 2009 میں جب پی پی پی کی حکومت تھی، مہنگائی، امن و امان، بیروزگاری اور کرپشن کے مسائل اس وقت بھی تھے۔ ن لیگ کے دور میں بھی کچھ خاص نہ بدلا۔ اس دور میں بھی ریکارڈ توڑ مہنگائی کی خبر کی شہ سرخی بنتی تھی اور اب پی ٹی آئی کی تبدیلیاں تو آپ ملاحظہ فرما ہی رہے ہیں۔ اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر ہی نہیں آتی۔

آئیے ہم چین پر فتوے لگانے کے بجائے موجودہ صورتحال کو عذاب الٰہی کی صورت سمجھتے ہوئے اپنی فکر کریں۔ اپنے گھر کو درست کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں اپنی ذات سے ابتدا کریں۔ خود، اپنے اہل و عیال کو، اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اصلاح واحوال کی کوشش کریں اور برادر ملک چین کےلیے خدائے بزرگ و برتر کے حضور دعا گو ہوجائیں۔ بصورت دیگر چین تو بچ جائے گا اور ہم فتوے لگاتے ہوئے امت مسلمہ کی ثالثی میں مصروف رہ کر عذاب الٰہی کا شکار رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں