تضاد

انسان بھی عجیب متضاد صفات کا مجموعہ ہے ایک طرف تو یہ کیفیت ہے کہ اپنی موجودہ حالت سے بیزار رہتا، اور گزشتہ کی ۔۔۔


راؤ سیف الزماں November 18, 2013

انسان بھی عجیب متضاد صفات کا مجموعہ ہے ایک طرف تو یہ کیفیت ہے کہ اپنی موجودہ حالت سے بیزار رہتا، اور گزشتہ کی طرف آہ سرد بھر بھر کر دیکھتا ہے۔ اور دوسری طرف جب خود اپنی طبع خدا داد پر نظر ڈالتا ہے تو سر افتخار آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے اور گزری ہوئی نسلوں کے بڑے سے بڑے کارنامے بھی اس کو ہیچ کے گرد و غبار میں لپٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ گو قدم سعی کا ہمیشہ آگے بڑھتے رہنا زمانے کا اقتضاء ہے اور جہاں ہم پرسوں تھے وہاں کل نہ تھے اور جہاں کل تھے وہاں آج نہیں ہیں۔

لیکن جس طرح کہ گھڑ دوڑ میں جیتنے کے مقام سے کوئی گھوڑا آگے اور کوئی پیچھے نکلتا ہے اسی طرح جولانگاہ عالم میں بعض قومیں مدارج ترقی پہلے طے کرتی ہیں اور بعض بعد میں لیکن سب کو کم و بیش ایک ہی راستہ قطع کرنا پڑتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زمانے کی مجموعی ترقی کے اعتبار سے متاخرین کو متقدمین پر تفوق ہوتا ہے کیونکہ ہر زمانے میں موجودہ نسل گزشتہ نسلوں کی وارث ہوا کرتی ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سی باتیں جو ہماری نظر میں جدت کا رنگ لیے ہوئے اور بلا تکلف اپنی ہی خدا داد ذہانت کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں دراصل نئی نہیں ہوتیں۔ بلکہ تاریخ عالم کے کرم خوردہ صفحات کو ذرا بھی توجہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قوم میں نہ سہی مگر دوسری قوموں میں ضرور اس قسم کے مدارج ترقی سب پہلے ہی طے ہوچکے ہیں۔ اور حضرت سلیمانؑ کا یہ ارشاد کہ ''آفتاب کے تلے کوئی نئی چیز نہیں ہے''۔ نہایت صحیح ہے۔

آئیے! ان ہی جملوں کی روشنی میں ہم حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ اپنی شوریٰ کے اجلاس کے بعد ترجمان تحریک طالبان کا بیان کم و بیش انھی اندیشوں پر مبنی ہے۔ جن کا اظہار میں اپنے گزشتہ کالم ''پس منظر یا پیش منظر'' میں کرچکا ہوں۔ بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
(i) اب حکومت پاکستان سے مذاکرات کا امکان صفر ہے۔
(ii) حکومت غیر سنجیدہ افراد پر مشتمل ہے۔
(iii) ہمیں مذاکرات کا جھانسہ دے کر حکومت امریکا سے ہماری بربادی کا سودا کر رہی تھی۔
(iv) ہم آیندہ کی حکمت عملی کے طور پر حکومت پنجاب اور آرمی تنصیبات پر حملے کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ تحریک طالبان کے اس بیان کے بعد حکومت کی ان تمام کوششوں پر پانی پھر گیا جن کا تعلق امن و امان سے تھا اور موجودہ مذاکرات و بات چیت کے ذریعے سے قائم کرنا چاہتی تھی۔ حکومت کے لیے طالبان کا پیغام لمحہ فکریہ بھی ہے اور مستقبل کے پیش آمدہ حالات کا آئینہ دار بھی۔

مجھے یاد نہیں یہ کس کا قول ہے کہ ''جو سب کے ساتھ ہوتا ہے وہ دراصل کسی کے ساتھ نہیں ہوتا'' یا ایک اور کہاوت کے مطابق ''دونوں ہاتھوں میں لڈو ممکن نہیں'' جب کہ ایک تیسری روایت کے مطابق ''دو کشتیوں کا مسافر کبھی ساحل پر نہیں پہنچتا۔''

وزیر اعظم صاحب ! یہ فیصلہ اب آپ کی فہم و فراست کا منتظر ہے کہ آپ دراصل کس کے ساتھ ہیں؟ بظاہر تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک ہی وقت میں امریکا بہادر کے مطالبات بھی من و عن ماننا چاہتے ہیں اور طالبان سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن بھی۔ سول اور فوجی قیادت کے درمیان یکجہتی اور ہم آہنگی کے خواہاں بھی ہیں۔ لیکن فیصلے اپنے اور اپنے رفقائے کار کی خواہشات پر بھی لینا چاہتے ہیں۔جب کہ آپ کی یہ سوچ محض کسی ایک یا موجودہ صورت حال تک محدود دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا دائرہ کار آپ کے پورے طرز حکومت تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ لہٰذا آپ کی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ سوچ۔۔۔۔ سوچنے کا تسلسل ہے۔ ایک کڑی ہے جو آپ کے سابقہ فیصلوں کی زنجیر کا حصہ ہے۔

مثلاً آپ ملک کے غریبوں کے ہمدرد بھی ہیں لیکن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اور بے لگام اضافہ بھی دیکھتے جا رہے ہیں۔ آپ اور آپ کی کابینہ ملک سے توانائی کے بحران کے خاتمے کے عزم کا اظہار بھی کرتی ہے جب کہ حکومت بنے مہینوں گزر گئے اس ضمن میں کوئی ایک ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آسکا سوائے بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے! بظاہرکشکول توڑنے گھر سے نکلے تھے واپسی پر اربوں ڈالرز قرض مانگ لائے!

افراط زر کی کمی کی خواہش رکھتے ہوئے اربوں اضافی روپے چھاپ لیے!

اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار اور اعلانیہ آپ نے کہا تھا کہ ''اب انصاف ہوگا جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے آپ ان سے ملکی دولت کی لوٹی گئی ایک ایک پائی وصول کریں گے، لیکن حکومت میں آنے کے بعد آپ نے ایسا نہیں کیا اور وہی اربوں، کھربوں روپے ہڑپنے والے لوگ سرکاری دعوتوں میں صف اول کی کرسیوں پر بڑے کروفر کے ساتھ تشریف فرما نظر آتے ہیں۔

چنانچہ آپ کی سوچ اور آپ کی تمام حکومتی پالیسیاں تضادات کے ایک مجموعے سے زیادہ کیا ہیں؟ لوگ سوال کرتے ہیں الیکشن میں آپ کے وعدے، دعوے اور نعرے ان دنوں کہاں محو خواب ہیں؟

وزیر اعلیٰ پنجاب کا وہ مشہور زمانہ جملہ ''علی بابا سن لو! ہم آپ کو 40 چوروں کے ساتھ جیل کی کال کوٹھڑی میں پہنچا کر دم لیں گے''۔ وہ جملہ اب کہاں کھو گیا؟ شاید حکومت کی غلام گردشوں میں یا وزیر اعلیٰ ہاؤس کی راہداریوں میں صدا بہ صحرا اب تک اپنی باز گشت کا منتظر ہے۔

صاف ظاہر ہوگیا کہ آپ کی منزل حکومت کا حصول تھا۔ صاف ظاہر ہوگیا کہ اقتدار تک سفر آپ کی منزل تھا اور اسے حاصل کرنے کے بعد اب عوام جانیں اور ان کے دکھ، درد اور مسائل۔۔۔۔ اور آپ جانیں اور حکومت کی طاقت، عیش و عشرت، دولت اور اقتدار کے مزے۔

لیکن یہ میڈیا کا دور ہے۔ ذرایع ابلاغ اب دنوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرتے ہیں۔ 1999 میں آپ میڈیا کو جہاں چھوڑ کر گئے تھے میڈیا اب وہاں پر نہیں ہے۔ وہ اس سے ہزاروں میل ترقی کا، آزادی کا سفر طے کرچکا ہے۔ اور اپوزیشن۔۔۔۔وہ کہاں ہے؟ مان لیا کہ پیپلز پارٹی اور آپ کی جماعت کا منشور اپنے مفہوم میں بڑی حد تک مماثلت رکھتا ہے اور مان لیا کہ وہ بھی آپ ہی کے انداز کی تقلید کرتے ہوئے محض دوستانہ مخالفت (Friendly Opposition) کا ارادہ رکھتے ہوں گے۔ لیکن عمران خان اور ان کی جماعت PTI کی جان دار اپوزیشن بھی اب تک دکھائی نہیں دی۔ کبھی کبھی وہ اپنی پریس کانفرنس میں یا لفظی مجالس میں حکومت کی کارکردگی پر ازراہ تفنن تنقید کرتے بھی ہیں تو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط مانع رہتی ہے۔

چنانچہ جمہوریت اور حسن جمہوریت کی تعریف اگر ایک جملے میں بیان کی جائے تو بس اتنا کہنا کافی ہے کہ ''جو ہوا اسے بھول جاؤ، جو ہورہا ہے اسے نظر انداز کردو اور جو ہونے والا ہے اسے بھی ہونے دو، صرف اپنی باری کا انتظار کرو۔ یہ ایک شریفانہ معاہدہ (Gentle Man Promise) ہمارے آپ کے بیچ میں طے ہوچکا اور اس کی پابندی کرنا ہر سیاسی جماعت پر لازم ہوگا۔ جب کہ خلاف ورزی کرنے والی جماعت کی ''سیاسی جماعت یونین'' Political Union Association) سے ممبر شپ ختم کردی جائے گی۔

جماعت اسلامی کے لیے جماعت قدیم کا لفظ مناسب ہے یا قدامت پرست جماعت کا! لیکن مجھ پر چننے کی ذمے داری عاید نہیں لہٰذا میں انتخاب کیوں کروں؟

البتہ چند ایک معاملات میں جماعت کی سوچ عوام کو درپیش مسائل کی آئینہ دار نہیں ہے اور ان کا نقطہ نظر ایک محدود اور مخصوص طبقہ فکر کی غمازی کرتا ہے جیساکہ طالبان، ان کا ایجنڈا، برسوں سے جاری ان کے حملے، خود کش کارروائیاں اور ان کارروائیوں میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ لوگوں کی ہلاکت، فورسز کے اہلکاروں کا اغوا و قتل اور اس صورت حال پر امیر جماعت منور حسن صاحب کا ایک تازہ ترین بیان کسی بھی زاویہ نگاہ سے انصاف اور عدل کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔

محترم امیر جماعت میں سمجھتا ہوں کہ آج تبلیغ اسلام کی دنیا غیر مسلم علاقے نہیں ہیں بلکہ مسلم بستیاں اور مسلم ممالک ہیں۔ ازراہ کرم یہ وقت ایک بوسیدہ اور رجعت پسند انداز فکر کا نہیں ہے بلکہ یہ موقع صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کا ہے۔

اتنا نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھو

اسلام دین فطرت ہے یا آپ فطرت کا مشاہدہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی ثنایت و مدحت آپ کی زبان سے جاری ہوجائے گی اور اسلام کی سچائی آپ پر عیاں ہوجائے گی لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کو اک ذرا سے لبرل منشور کی ضرورت ہے اگرچہ بنیاد کو قائم رکھنے میں مضائقہ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں