اخلاقی قدروں کی تعمیر

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خلیفہ مامون الرشید نے اپنے نوکر کو آواز دی:<br /> ’’اے لڑکے‘‘<br /> پھر دوبارہ آوازدی<br /> ’’اے لڑکے‘‘


Dr Naveed Iqbal Ansari November 18, 2013
[email protected]

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خلیفہ مامون الرشید نے اپنے نوکر کو آواز دی:
''اے لڑکے''
پھر دوبارہ آوازدی
''اے لڑکے''

دوبارہ آواز دینے پر ایک ترکی لڑکا بڑبڑاتا ہوا نکلا اور تند لہجے میں کہنے لگا: ''جہاں ہم آپ کے پاس سے نکلتے ہیں، آپ ''لڑکے، لڑکے'' پکارنے لگتے ہیں''

مامون الرشید یہ سن کر سرجھکاکر بیٹھ گیا۔ قریب ہی میں عبداﷲ بن طاہر بیٹھے تھے، ان کا کہناہے کہ وہ سمجھے اب خلیفہ مامون الرشید لڑکے کے قتل کا حکم دیںگے مگر خلیفہ نے حیرت انگیز طورپر ایسا نہیں کیا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہاکہ عبداﷲ اگر کوئی شخص اپنے اخلاق اچھے رکھنے کی کوشش کرے تو اس کے نوکروں کے اخلاق بگڑجاتے ہیں۔ اگر اس کے اپنے اخلاق خراب ہوجائیں تو اس کے نوکر خوش خلق ہوجاتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں کرسکتے کہ اپنے نوکر کے اخلاق سنوارنے کے لیے اپنا مزاج، اخلاق بگاڑلیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خلیفہ مامون الرشید کے مشہور جنرل طاہر بن حسین کو کسی شخص نے مغلظات بکیں مگر وہ خاموشی سے سنتا چلا گیا۔ ایک دوست نے یہ ماجرا جو دیکھا تو کہاکہ طاہر تم مامون الرشید کے سب سے بڑے جنرل ہو اور گالیاں خاموشی سے سنتے ہو، آخر اس شخص کو سزا کیوں نہیں دیتے؟

جنرل طاہر نے جواب دیا کہ مچھر کو مارنے کے لیے طاقت کا استعمال فضول سی بات ہے، اس دوست نے پھر کہا ''لیکن تم اس کو جواب میں گالیاں تو دے سکتے ہو تاکہ اس کی زبان بند ہوجائے'' جنرل نے جواب دیا:''میں کسی ایسی لڑائی میں حصہ نہیں لینا چاہتا جس میں غالب مغلوب سے زیادہ ذلیل ہوجاتاہے''

ایک مرتبہ بلخ کے قاضی ابو عبداﷲ کو کسی عالم نے ناراض ہوکر نہایت برا خط لکھا۔ اس خط میں قاضی پر لعنت اور گالیوں کی بوچھاڑ کی گئی تھی۔

عقل مند اور تحمل مزاج قاضی نے خط پڑھا اور جواب میں چند سطریں لکھ کر 20 سیر صابن روانہ کردیا۔
قاضی نے اپنے خط میں لکھا تھا:
''آپ کا خط موصول ہوا، نہایت عمدہ20سیر صابن خدمت میں ارسال ہے۔ اس سے اپنی زبان، قلم اور اعمال نامہ دھونے کا کام لیجیے اور اگر یہ ناکافی ہو تو لکھیے تاکہ مزید صابن ارسال کردیاجائے۔''

کہتے ہیں کہ خوارزم شاہی خاندان کا بادشاہ تکش ایک بار اپنے قریبی سردار نصیر الدین سے ناراض ہوگیا اور اس نے اپنے ایک سپہ سالار کو اس کا سرکاٹ کر لانے کا حکم دیا۔ نصیر الدین نے سپہ سالار کی بہت خوشامد کی اور اسے اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اسے تکش بادشاہ کے سامنے پیش کردے۔ جب بادشاہ کے سامنے نصیر الدین پہنچا تو اس نے بادشاہ کی خدمت میں سلام عرض کیا اور بولا:''آپ نے میرا سر مانگا تھا مگر میں نے سوچا کہ میں یہ امانت خود آپ کی خدمت میں پیش کروںگا، میں سر اپنی گردن پر اٹھاکر لایا ہوں۔''

اس کا یوں شیریں جواب سن کر بادشاہ تکش کا غصہ ختم ہوگیا اور اس نے نصیر الدین کو معاف کردیا۔

بلا شبہ اخلاقیات میں بڑی طاقت ہے مگر اخلاقیات کا مظاہرہ کرنا آسان نہیں، اس کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے، خاص کر اپنے ماتحت افراد کے ساتھ اخلاقیات کا مظاہرہ آسان نہیں، نوکروں، ملازمین کے ساتھ معاملات میں نرمی یا اخلاقیات کا برتاؤ انھیں بد اخلاق بنادیتاہے لیکن دوسری طرف اگر ماتحت اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے تو اسے بے وقوف یا احمق سمجھا جاتاہے اور اس کے جائز مطالبات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔ بازار میں جائیں تو معلوم ہوگا اشیاء فروخت کرنے والے کا اخلاق انتہائی اعلیٰ درجے پر ہوتاہے، زبان نہایت شیریں ہوتی ہے لیکن جب خریدار اشیا خرید کر کسی وجہ سے دوبارہ جاکر شکایت کرنا چاہے تو بد اخلاقی کا بھی زبردست مظاہرہ دیکھنے میں آتاہے۔ گویا اخلاقیات کا مظاہرہ مفادات کے تحت جڑا ہوا ہے۔ حالانکہ حقیقی اخلاقیات تو وہ ہے جو مفادات پر ضرب پڑنے کے بعد بھی کی جائے۔

راقم نے اپنی اخلاقیات کا بے شمار مرتبہ جائزہ لیا اور کوشش کی کہ اپنی اس چھوٹی سی خوبی کو وسعت دی جائے مگر اس کے لیے قربانی کا دائرہ بھی وسیع ہونے لگا۔ دوست واحباب نے اس ضمن میں رہنمائی اس طرح بھی کی کہ ''بھئی تم زندگی میں اس طرح کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے، اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوتاہے، ایسا نہیں کرسکتے تو کم از کم کچھ تو جواب دو، اپنے ماتحت ملازم سے کام کرانے ہو تو ان کو پیسے الگ سے کیوں دیتے ہو؟ اس طرح تو ان کا مزاج بگڑ جائے گا'' وغیرہ، وغیرہ۔

مذکورہ بیان کردہ واقعات پر جب غور کرتاہوں تو یہ تسلیم کرنا پڑتاہے کہ مجھ میں اور اس معاشرے میں ایسی اخلاقیات کا تو قطرہ ، ذرہ بھی نہیں۔
میں اکثر سوچتاہوں ہم اخلاقی زوال کی جانب اس قدر کیوں جارہے ہیں؟ کیا ہم اس منفی سفر کو مثبت سفر کی طرف تبدیل نہیں کرسکتے؟ آیئے اپنے اخلاق کوسنوارنے کی کوشش کریں، اپنے آقاؤں، ماتحتوں اور دوست و احباب کے ساتھ اخلاقیات سے پیش آنے کی کوشش کریں، آج سے اپنی اخلاقی قدروں کی تعمیرشروع کریں اور میں اور آپ اخلاقی قدروں کی تعمیر کے لیے آج ہی سے اپنے حصے کی ایک اینٹ رکھ کر اس کا آغاز کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔