ایف آئی اے نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی رپورٹ عجلت میں حکومت کے حوالے کی

مشرف کے عدم تعاون پر پی ٹی وی، کابینہ ڈویژن، وزارت داخلہ سے متعلقہ ریکارڈ لیا گیا.


Iftikhar Chohadary November 18, 2013
مشرف کے عدم تعاون پر پی ٹی وی، کابینہ ڈویژن، وزارت داخلہ سے متعلقہ ریکارڈ لیا گیا۔ فوٹو: فائل

ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی خاطر انکوائری میں پرویزمشرف کو متعدد مرتبہ بیان ریکارڈکروانے کے سمن جاری کیے جبکہ مشرف کی جانب سے مسلسل عدم تعاون پرایف آئی اے نے 3 سرکاری محکموں سے بعض ریکارڈ حاصل کرکے رپورٹ مکمل قراردے کر بھجوائی جس میں کمیٹی نے اپنے تئیں مجوزہ جرم کو ثابت کرنے میں تقویت دینے والاریکارڈ منسلک کیا ہے۔

باخبرذرائع نے اتوار کوایکسپریس کوبتایاکہ پرویزمشرف نے بیان ریکارڈنہ کرایا مگر پی ٹی وی ،کابینہ ڈویژن اوروزارت داخلہ سے بعض متعلقہ ریکارڈحاصل کیاگیاتاکہ کمیٹی اپنا بنیادی کام مکمل کرپائے جس میں ابھی یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ جس نے حکم دیااس پرتوآرٹیکل 6لگے اورجنھوںنے اس پرحقیقی معنوں میں عملدرآمد کرایاان کیساتھ کیاسلوک ہوگا؟ کیا یہ معاملہ مجوزہ خصوصی عدالت جس نے پرویزمشرف کیخلاف باضابطہ مقدمے کی سماعت کرنا ہے نے واضح کرنا ہے؟ اس گومگوکی کیفیت کاشکاررہنے کے بعدایف آئی اے کی انکوائری کمیٹی جس نے چندیوم میں عجلت میں رپورٹ مکمل کرکے حکومت کے حوالے کی ابھی تک اسی کشمکش میں ہے کہ اسوقت کے آئی جی پولیس،چیف کمشنر،ڈپٹی کمشنر،ایس ایس پی آپریشنزاسلام آبادحتیٰ کہ ماتحت پولیس وانتظامیہ کے افسران کے بھی بیانات ریکارڈکئے جاناتھے کہ نہیں؟



ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکم پرعملدرآمدایگزیکٹیو اتھارٹی نے کرانا ہوتا ہے جس میں اسوقت کے وزیراعظم سے لیکر اسوقت کے سابق وزیرداخلہ، سیکریٹری داخلہ سمیت مذکورہ بالا دیگر افسران پربھی سوالیہ نشان باقی ہے جسکی وجہ سے ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی جسے براہ راست ڈی جی ایف آئی اے سعود مرزا مانیٹرکرتے رہے نے انکوائری میں متعلقہ افسران کے بیانات ریکارڈنہ کرکے ذمے داری مجوزہ خصوصی عدالت پرڈالنے کی کوشش کی ہے دوسری جانب مذکورہ کمیٹی کے قریبی ذرائع نے اسوقت کے سابق سیکریٹری قانون کابیان ریکارڈکرنے کی تصدیق کی ہے لیکن انکوائری کمیٹی کو اپنے مینڈیٹ کے مطابق ملکی تاریخ کے اہم ترین اوراپنی نوعیت کے پہلے مقدمہ میں انکوائری میں مروجہ طریقہ کارکے تحت بھرپورقانونی تقاضے پورے کرناتھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں