’کرونا وائرس‘ سے کیسے محفوظ رہا جائے

شیطان وائرس حملہ آور ہوجائے تو کیا علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کا علاج کیسے کیاجاسکتاہے؟


شیطان وائرس حملہ آور ہوجائے تو کیا علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کا علاج کیسے کیاجاسکتاہے؟

کروناوائرس نے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ چند ہی دنوں میں یہ وائرس ایک قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔

چین کے صدر کے مطابق کرونا وائرس ایک '' شیطان'' ہے، اس شیطان کا ساری دُنیا کو مقابلہ کرنا ہے۔ وائرس سے ہونے والی پھیپھڑوں کی بیماری اور اس کا انفیکشن جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

پچھلے دو ہفتوں میں'کرونا وائرس' چین میں 132 انسانوں کو نگل چکا ہے جبکہ اس وقت چین میں ساڑھے چار ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہیں۔ دُنیا بھر میں ہیلتھ الرٹ جاری کئے جا چکے ہیں۔ چین آنے اور جانے والوں کی ائیرپورٹس پر اسکریننگ ہو رہی ہے۔ متعدد ممالک نے چین آنے اور جانے والی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے 'کرونا وائرس' کے پھیلاؤ کو ایک میڈیکل ایمرجنسی قرار دیا ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیربھی جاری کی ہیں۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے وائرس سے دُنیا کو پالا پڑا تھا جن میں ڈینگی وائرس، وائن فلو وائرس، برڈ فلو اور سارس جیسے وائرس شامل ہیں مگر ان کی تباہ کاریاں 'کرونا' جیسی نہ تھیں مگر'' کرونا وائرس'' نے ساری دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

میڈیکل سائنس میں اتنی ترقی اور جدت کے باوجود ابھی تک وائرس سے پھیلنے والے امراض کے علاج کے لیے کوئی واضح پروٹوکول موجود نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی خاص ویکسین دستیاب ہے۔ نتیجتاً وائرس کی وجہ سے ہونے والے امراض میں اموات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ چین سے ملحقہ ممالک بھی اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

آسڑیلیا، تائیوان، نیپال، جاپان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا بلکہ امریکا میں بھی کرونا وائرس سے متاثر افراد کے کیسز دیکھنے میں آئے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے چینی انجنئیرز اور ورکرز متعدد قومی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، اس لئے پاکستان میں بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔

'کرونا وائرس' کی خبروں کی بعد اورنج لائن ٹرین اور دوسرے منصوبوں جات پہ کام کرنے والے چینی باشندوں کا کام سے روک دیا گیا ہے اور انہیں اسکریننگ ہونے تک ان کی رہائش گاہوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ 'کرونا وائرس' کے بارے میں قومی ادارہ صحت نے بھی ہیلتھ ایڈوائزری جاری کی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مختلف ائیر پورٹس پر اس سلسلے میں ہیلتھ کاؤنٹرز قائم کر دیئے ہیں۔

مختلف ہسپتالوں میں علیحدہ آئسولیشن وارڈبنا دیے گئے ہیں۔ بیماری کی تشخیص کے لیے چین سے 'کرونا وائرس' کی تشخیص کے لئے ٹیم آج پاکستان پہنچ جائے گی دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندے نے بھی تشخیصی کٹس کی فراہمی کر دی ہیں۔

٭کرونا وائرس کیا ہے؟

٭بیماری کا آغاز کب ہوا؟

٭ کرونا وائرس کا انفیکشن کیسے پھیلتاہے؟

٭اس سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں؟

٭اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

عوام الناس کی رہنمائی کے لیے اس مضمون میں ان تمام سوالوں کا جواب دیا جا رہا ہے۔ کرونا وائرس سے متاثرہ لوگوںکو زکام، گلا خراب، سر درد اور بخار کی علامات ہوتی ہیں، جسم تھکا تھکاسا لگتا ہے، ناک مسلسل بہتی ہے۔ انفیکشن زیادہ ہو جائے تو پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ خطر ناک وہ لمحہ ہوتا ہے جب انفیکشن کی وجہ سے نمونیہ ہو جائے۔ اس سے پھیپھڑوں میں زبردست انفیکشن ہو جاتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، بخار زیادہ ہو جاتا ہے، ایسے میں فوری طور پر ہسپتال میں علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انفیکشن زیادہ ہونے کی صورت میں سانس رک جاتی ہے اور مصنوعی تنفس دینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس حالت میں یہ میڈیکل ایمرجنسی بن جاتی ہے۔ اگر انفیکشن پھیل جائے تو سانس رک جاتا ہے اور چند گھنٹوں ہی میں موت واقع ہو سکتی ہے۔

کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کی تمام علامات نمونیہ سے ملتی جلتی ہیں۔ اس سے ہونے والی بیماری کا آغاز دسمبر2019ء میں چین کے صوبے ہوبی کے شہرو وہان میں ہوا جہاں اب تک 132 اشخاص جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بیجنگ میں بھی ایک شخص کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ بھارت میں بھی ایک موت ہوئی ہے۔ اس سے ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ 9 ہزار سے زیادہ مشکوک کیسز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین کے صوبہ ہوبی اور ووہان میں پانچ سو سے زیادہ پاکستان طالب علم وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، انہوں نے ارباب اختیار سے اپیل کی ہے کہ انہیں فوری طور پر وہاں سے نکالا جائے تاکہ وہ اس جان لیوا وائرس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔

کرونا وائرس آسانی سے ایک متاثرہ شخص سے صحت مند شخص کومنتقل ہوجاتا ہے۔ متاثرہ شخص دو سے پانچ دن تک بیماری کو دوسروں تک پھیلا سکتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کسی کو بیماری کی تشخیص ہوگئی ہو تو اسے کم از کم ایک ہفتے تک علیحدگی میں رکھا جاتا ہے تاکہ صحت مند اشخاص وائرس سے بچے رہیں۔ بیماری کے آغاز میں علامات زکام اور نظام تنفس کے بالائی حصے کے انفیکشن سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لیے اس دوران علاج سے افاقہ ہو جاتا ہے مگر سب سے ضروری امر یہ ہے کہ اس دوران مریض کو علیحدگی میں رکھا جائے تاکہ دوسرے صحت مند اشخاص بیماری کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے اور جسم میں وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے بلڈ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

چین میں کروناوائرس سب سے پہلے سانپوں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔ پالتو بلیاں اور کتے بھی اس وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان سے وائرس انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ زکام کی طرح کرونا وائرس سے ہونے والی علامات بھی زیادہ تر 7 دن سے لیکر 10 دن تک جاری رہتی ہیں اگر اس دوران مکمل آرام کیا جائے اور ڈاکٹر کے مشورہ سے ادویات لی جائیں تو مرض میں افاقہ ہو جاتا ہے اور آدمی صحت مند ہو جاتا ہے۔ اس لیے کرونا وائرس سے زیادہ گھبرانے اور پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ زیادہ تر متاثرین ہفتے دس دن تک خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے چین نے اپنے مختلف صوبوں میں لاک ڈاؤن کردیا ہے۔ شہروں میں6 کروڑ سے زیادہ چین باشندے اپنے شہروںتک محدود ہو کے رہ گئے ہیں۔ شنگھائی شہر میں نئے سال کی چھٹیاں 9 فروری تک بڑھا دی گئی ہیں۔ ابھی تک چین میں متاثرہ افراد کی تعداد 5974 تک پہنچ گئی ہے جس میں 976 افراد کی حالت نمونیہ کی وجہ سے تشویشناک ہے۔ چینی کی یونیورسٹیوں میں داخلے کے ٹیسٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یعنی زبردست میڈیکل ایمر جنسی لگا دی گئی۔ وزارتِ خارجہ کے اعلان کے مطابق چین کے شہر ووہان میں 515 پاکستان طالب علم زیر تعلیم ہیںاور وہ الحمداللہ صحت مند ہیں۔ کسی بھی طالب علم میں وائرس کی موجودگی کے آثار نہیں پائے گئے مگر سب بچے پریشان ہیں اور وہاں سے وطن منتقل ہونے کے متمنی ہیں۔ اللہ ان طالب علموں کی حفاظت فرمائے۔

چین کے شہری کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ بینرز لگے ہوئے ہیں:'' ہم کرونا وائرس سے شکست نہیں کھائیں گے، ہم شیطان وائرس کو مار بھگائیں گے''۔ ووہان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے سبزیوں اشیائے خورو نوش اور ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ چین کے دوسرے شہروں سے چینی کے بہادر لوگوں نے ووہان کے ہم وطنوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے سبزیوں ، اشیائے خورو نوش اور ادویات کے سینکڑوں کنٹینرز ووہان پہنچا دیئے ہیں ۔ اگرچہ کرونا وائرس نے چین کے ساتھ دُنیا بھر میں کھلبلی مچا دی ہے، اس سے ہلاکتوں اور متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کا علاج اتنا مشکل نہیں ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والا زکام یا اس سے ہونے والی سانس میں رکاوٹ ابتدائی طور پر جاں لیوا مرض نہیں۔ آرام کرنے، بخار اور کھانسی اور انفیکشن کی ادویات لینے سے مرض کی علامات میں افاقہ ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو جائے یا اس جیسی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں تو اس مریض کو کم از کم سات دن کے لیے علیحدگی میں رکھا جائے۔ اگر ٹیسٹ کرونا وائرس کے لیے پازیٹو آجائے تو ٹیسٹ آنے کے کم از کم ایک ہفتہ تک اس مریض کو مکمل علیحدگی میں رکھا جائے۔ ضروری ہے کہ مریض اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والے تمام اشخاص احتیاطی تدابیر، ماسک اور دستانے استعمال کریں۔ مریض کے کمرے میں اسپرے کیا جائے اور اس کے زیرِ استعمال ٹشو پیپرز کو علیحدہ تلف کیا جائے۔ کرونا وائرس زکام کے وائرس کی طرح Heat Sensitive وائرس ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مریض کو بھاپ دی جائے اور پینے کے لیے قہوہ، سبزیوں کا سوپ دیا جائے تا کہ بیماری کی علامات کم سے کم رہیں۔

بخار ہونے کی صورت میں بخار ختم کرنے والی ادویات دی جائیں۔ کھانسی کی صورت میں ایک کپ گرم پانی میں دو چمچ شہد اور تھوڑی سی کالی مرچ ڈال کر دیں۔ بیماری کی تشخیص ہو جائے تو صبح شام ایک کپ گرم دودھ میں ایک چمچ ہلدی ایک چمچ زیتون کا تیل اور ایک چمچ شہد ڈال کر دیں۔ ہلدی اور زیتون کے تیل میں اللہ تعالیٰ نے بے حد شفاء رکھی ہے۔

ان دونوں میں انفیکشن کنٹرول کرنے کے صلاحیت اور اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ شہد ویسے ہی ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ زکام اور گلے کے انفیکشن کے لیے پودینہ، سونف، دار چینی اور ادرک کا قہوہ بھی مفید ہے۔ مریض کو پینے والی گرم چیزیں دینے سے مرض میں خاطر خواہ افاقہ ہوتا ہے۔ مریض کے ساتھ خوشی گوار رویہ رکھا جائے کیونکہ علیحدگی میں رکھنے کے باوجود مریض سے رابطہ رکھا جاسکتا ہے۔ چین کی اپنے شہریوں تک محدود کرنے کی ہدایات سے 1440 سال پہلے رسول اللہﷺ کی دی گئی ہدایات یاد آتی ہیں۔

مدینہ میں جب طاعون کی بیماری پھیلی تو آپ نے اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو اپنا شہر چھوڑنے سے منع فرمایا تاکہ مرض دوسرے علاقوں میں صحت مند افراد میں منتقل نہ ہو۔ مسلم شریف کی جلد نمبر 2 میں حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ طاعون اور متعدی بیماری ایک عذاب ہے جو پہلی امتوں پر مسلط کیا گیا۔ جب کسی علاقے یا شہر میں کوئی وبا پھیل جائے تو ضروری ہے کہ متاثرہ شہر کے باشندے اپنا علاقہ چھوڑ کر نہ جائیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے شہروں کے لوگ متاثرہ شہر یا علاقے میں نہ جائیں۔ جو ہدایات آج کی میڈیکل سائنس میں اب سامنے آرہی ہیں وہ ہادی دو جہاں ﷺ نے ہمیں 1440 سال پہلے بتا دیں (ماشاء اللہ) ۔

پاکستان میں بھی بیماری کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔ 5 مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ مریض کے زیر استعمال ٹشو پیپرز اور دوسری اشیاء کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے جبکہ کھانسی یا چھینک آنے پر منہ اور ناک کو ٹشو یا رومال سے ڈھانپ کر رکھا جائے۔ بخار، کھانسی اور سانس لینے کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر یا ہسپتال سے رابطہ کریں۔ نزلہ، زکام اور سانس میں رکاوٹ محسوس ہو تو دفتر یا سکول ، کالج جانے سے پرہیز کریں، گھر میں رہ کر آرام کریں ، دوچار دن آرام کرنے سے طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔

بیماری اور وبا اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ سے خیروعافیت کی دُعا کریں۔ بیماریوں سے پناہ مانگیں اور مندرجہ ذیل دُعا پڑھیں:

اَللّٰہُمَّ اِنّیِ اَعُُوذُبِکَ مِنَ البَرَصِ وَالجنونِ وَالجُذَامِ وَ مِن سَیِئی الا سقَام (آمین)

'' ا ے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برص سے، دماغی خرابی سے، کوڑھ سے اور ہر قسم کی بُری بیماریوں سے۔''

اس دُعا کے بار بار پڑھنے سے اللہ آپ کو 'کورنا وائرس' سمیت ہر طرح کے متعدی امراض سے محفوظ رکھے گا۔ صدقہ بلا اور بیماری کو ٹالتاہے۔ اس لیے صحت مند رہنے کے لیے دوا، دُعا کے ساتھ صدقہ بھی ضرور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں