نوجوانوں کے لیے روزگار اسکیم
ایک خبرکے مطابق وزیر اعظم نے نوجوانوں کے لیے 20 لاکھ روپے تک قرضہ اسکیم کی منظوری دے دی ہے ...
ایک خبرکے مطابق وزیر اعظم نے نوجوانوں کے لیے 20 لاکھ روپے تک قرضہ اسکیم کی منظوری دے دی ہے جس میں50 فیصد کوٹہ خواتین کے لیے مختص ہوگا۔وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ قرضہ اسکیم میں کوئی سیاسی اور انتظامی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس کاروباری اسکیم کے تحت ساڑھے تین لاکھ نوجوانوں کو قرضے دیے جائیں گے۔ اس اسکیم سے ملک بھر سے مجموعی طور پر ایک کروڑ افراد مستفید ہوں گے۔ قرضوں کے حصول کے لیے 21 تا 45 سال کے درمیان عمر کے مرد و خواتین اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں گے۔
یہ خبر بظاہر بہت اچھی ہے، اس لحاظ سے بھی کہ اس میں نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں گے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس اسکیم میں 50 فیصد قرضہ خواتین کو دیے جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ سب اچھا ہے؟ اس کے ثمرات و اثرات بھی اچھے ہوں گے؟ کیا یہ ہمارے معاشرے سے بھی ہم آہنگ ہے؟
ہمارا معاشرہ مغربی نہیں، یہاں کی ریت روایات، ثقافت، خاندانی نظام اور میاں بیوی کے تعلقات کی نوعیت مغربی معاشرے کے قطعی برعکس ہے۔ یہاں مرد حضرات گھر سے باہر ملازمت و کاروبار پر جاتے ہیں اور خواتین گھر کے کام کاج انجام دیتی ہیں۔ خاندان والے لڑکی کے لیے باروزگار لڑکے کی تلاش کرتے ہیں اور لڑکے والے گھریلو کام کاج کرنے والی لڑکی کا رشتہ پسند کرتے ہیں۔ مغرب کی طرح ہمارے ہاں میاں بیوی دونوں صبح تلاش معاش کے لیے گھر سے نہیں نکلتے۔ ہمارے ہاں وہی مثالی بہو اور بیوی سمجھی جاتی ہے جو شوہر کے کام کاج پر جانے کے بعد سارے گھر کو سنبھالے، دن بھر گھر کے کام کریں اور شام کو شوہر کو خوش آمدید کہے۔ اب ذرا تصور کے دوسرے رخ پر غور کیجیے۔ وزیر اعظم کی اسکیم کے تحت ملک بھر کے ایک کروڑ افراد کو قرضے دیے جاتے ہیں جس میں سے نصف خواتین ہوں گی، گویا 50 لاکھ خواتین کو روزگار دیا جائے گا۔
ان 50 لاکھ خواتین کو روزگار دینے کا مطلب کیا ہوگا؟ فرض کریں اگر یہ روزگار کو وقت دینے کے لیے اپنا قدم گھر سے باہر نکالتی ہیں تو سب سے پہلے سوال یہ ہے کہ اب ان کے حصے کا گھر کا کام کون کرے گا؟ یقینا گھر میں ایک اور فرد کو تنخواہ پر کام کاج کے لیے رکھا جائے گا، دوسرا سوال یہ کہ ان لاکھوں خواتین کو رشتے آسانی سے مل سکیں گے؟ کیونکہ ہمارے ہاں مرد حضرات کو گھریلو بیوی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ملازمت پیشہ لڑکی کی۔ تقریباً ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی نہ صرف اپنے بچوں اور گھر کا خیال رکھے بلکہ ساس سسر کی بھی خدمت کرے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ 50 لاکھ خواتین کو روزگار دینے کا مطلب صرف ان ہی خواتین کی مدد یا اس خاندان کی جس میں وہ رہتی ہیں جب کہ مرد کو روزگار دینے کا مطلب ایک نئے خاندان کی تخلیق، اس کو سہارا دینا ہے جس میں صرف مرد نہیں اس کی بیوی اور گھر کے دیگر افراد بھی شامل ہیں۔ باالفاظ دیگر ایک بیروزگار نوجوان کو روزگار مل جائے تو وہ کسی لڑکی سے شادی بھی کرے گا اور اپنے والدین کی خدمت بھی جب کہ کسی ایک نوجوان لڑکی کو روزگار دینے کا مطلب یہ گارنٹی نہیں کہ اس کا گھر بھی بس جائے کیونکہ لڑکے اور لڑکی کی شادی کے لیے ہمارے معاشرے میں لڑکے کا با روزگار ہونا شرط ہے لڑکی کا نہیں بلکہ شادی کے بعد (لڑکی اگر ملازمت کر رہی ہو تو) اسے گھر بٹھا لیا جاتا ہے۔ یوں ان 50 لاکھ خواتین کو روزگار دینے میں اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اس سے معاشرتی مسائل میں اضافہ ہو جب کہ ان 50 لاکھ خواتین کے بجائے 50 لاکھ مردوں کو روزگار دینے سے قوی امید یہی ہے کہ تمام نہ سہی مگر ان کی بھاری تعداد شادی کرکے گھر ضرور بسائے گی جس سے اتنی ہی تعداد میں نوجوان لڑکیوں کے گھر بس جائیں گے اور ان گھر بس جانے والی لڑکیوں کو کسی روزگار کے سہارے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔
راقم ضرورت مند خواتین کے روزگار کے خلاف نہیں لیکن بات یہ ہے کہ نوجوانوں پہ نوجوان لڑکیوں کو روزگار کے لیے ترجیح دینا ان کے ساتھ اور معاشرے کے ساتھ ہمدردی نہیں۔ ہمارے ہاں بے سہارا اور بیوہ خواتین کو ہمیشہ سے سلائی مشین اور دیگر طریقوں سے مدد کرکے روزگار فراہم کیا جاتا رہا ہے جوکہ اچھی بات ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں لڑکیوں کو ایک نئی راہ پہ لگانا معاشرتی نقصانات سے خالی نہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک کے تجربات کو دیکھ لیجیے، چین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ خواتین کے لیے شادی کرنا ایک معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ چین میں مردوں کی سوچ ہے کہ 20 سال تک کی خواتین بیوی کے لیے ہوتی ہے جب کہ 20 سال سے زائد مارکیٹ کے لیے زیادہ موزوں ہوتی ہے یعنی وہ اچھی بیوی یا گھریلو بیوی ثابت نہیں ہوسکتیں۔ چین میں اب اعلیٰ تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ خواتین جن کی تنخواہیں بھی پرکشش ہوتی ہیں شادی کے لیے ترجیح نہیں دی جاتی۔ بہترین ملازمت و اعلیٰ تعلیم کے ساتھ رشتہ حاصل کرنا چین میں ایک مسئلہ بن چکا ہے۔
بے روزگاری کا ایک تعلق وسائل کی کم یابی سے ہوتا ہے یعنی وسائل کم ہوں تو بیروزگاری زیادہ ہوگی ایسے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ملازمت یا روزگار کے مواقعے ترجیحی بنیادوں پر دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ترجیحی بنیاد پر مردوں کے روزگار کے مواقعے کم کر رہے ہیں۔
ذرا سوچیے 50 لاکھ نوجوان لڑکیوں کو ترجیحی بنیاد پر روزگار فراہم کرنے کا مطلب انھیں روزگار دینے کے بعد بھی رشتوں کے لیے انتظار میں بیٹھنا ہوگا جب کہ اسی تعداد کو مردوں سے تبدیل کردینے کا مطلب ان مردوں کو روزگار کی فراہمی بھی اور اتنی تعداد میں خواتین کو شوہر کی صورت میں مکمل گھرانے کی دستیابی بھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر آپ کے گھر میں بیٹا اور بیٹی ہوں تو آپ کیا چاہیں گے؟ یہی کہ بیٹے کو روزگار اور بیٹی کو رشتہ مل جائے!