پس منظر ‘ پیش منظر
حکیم اللہ محسود کی موت یا شہادت۔۔۔۔؟ آپ اور میں اسے کوئی بھی نام دے لیں لیکن اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت سے...
PESHAWAR:
حکیم اللہ محسود کی موت یا شہادت۔۔۔۔؟ آپ اور میں اسے کوئی بھی نام دے لیں لیکن اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت سے خوب واقف ہے۔ ان دنوں ہمارے دانشور، کالمسٹ، میڈیا پرسن، تجزیہ نگار حکیم اللہ محسود پر حملے کو حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں امریکی مداخلت قرار دیتے ہوئے سازش گردانتے ہیں۔ اور ماضی کے کئی ایک واقعات جو حالیہ واقعے سے مماثل ہیں کا ذکر کرتے ہیں جن میں کمانڈر نیک محمد، ملا نذیر ، بیت اللہ محسود کی مثالیں قابل ذکر ہیں۔ جب اس وقت کی امریکی حکومت نے بھی حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کو بالکل اسی انداز میں طالبان کے کسی اہم لیڈر کو ہلاک کر کے سبوتاژ کیا تھا۔ گویا ایسی امریکی کارروائیوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مخالف ہے۔ لیکن سوچنا ہو گا کہ پھر وہ کیا چاہتا ہے؟
کیا وہ طالبان سے ڈرون اٹیکس اور نیٹو افواج کے ذریعے نمٹنا چاہتا ہے؟ کیا طالبان رہنما اسے زندہ نہیں چاہئیں؟ یا کیا وہ اس خطے میں سرے سے ہی امن نہیں چاہتا اور یہاں قائم رہنے والی مسلسل بدامنی اس کے کسی خاص منصوبے کا حصہ ہے؟
یہ اور ایسے بہت سے حقائق ہمارے سامنے سوالیہ انداز لیے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سوالات سے زیادہ اہم ہے حکیم اللہ محسود کا ایک ڈرون حملے میں مارا جانا! ذرا سا سوچنے پر یاد آتا ہے کہ ابھی کچھ ہی دن قبل طالبان کی ایک کارروائی کے نتیجے میں میجر جنرل ثناء اللہ اپنے کچھ ماتحت افسران کے ہمراہ شہید ہو گئے تھے۔ بلاشبہ اس حملے میں طالبان نے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچایا تھا۔
دوسری جانب ملک بھر، خاص طور پر کراچی میں، 12 سے 15 ہلاکتیں پھر روز کا معمول بنی رہیں۔ چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں مہنگائی جیسا تیز اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن اس کا سرا کہاں ہے اور یہ ''کون'' ہے جو آگ پر تیل اور پٹرول ڈال کر اسے بجھنے نہیں دیتا۔ اور یہ چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ کا راز کبھی افشا نہ ہو سکا اور شاید ہماری زندگی میں تو سربستہ راز ہی رہ جائے گا۔
میں اکثر سوچتا ہوں۔۔۔۔ جب دنیا کے دیگر ممالک پر میری نظر جاتی ہے یا گردو پیش کے ممالک پر۔ تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری زمین میں ایسی کون سی زرخیزی ہے جس میں ہر وہ بیج دنوں میں بڑھ کر تناور درخت بن جاتا ہے جو کسی ہنگامے کا، دہشت گردی کا، تعصبات کا، لسانیت کا ہو اور ہر ایسی کونپل کیوں لمحوں میں مرجھا جاتی ہے جو خیر کی، امن کی، صلح اور بھائی چارے کی ہو۔ لیاری کو ہی دیکھ لیجیے۔ عرصہ دراز سے جنگ ہو رہی ہے۔ فی الحال لاڈلا گروپ اور عزیر بلوچ گروپ۔ رینجرز اور پولیس کی موجودگی کے باوجود برسر پیکار ہیں۔ ہزاروں گولیاں، بم ایک دوسرے پر داغے جا رہے ہیں۔ وہاں کے مستقل رہائشی بھی اب نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ قبل ازیں کچھی میمن کوچ کر چکے۔ جب کہ کہتے ہیں ''سجنا'' اور ''بلما'' گروپ منتظر ہیں کہ جاری لڑائی ختم ہو تو وہ اپنی ابتدا کریں۔
بلوچستان سے لے کر لیاری تک، وزیرستان سے لے کر کراچی تک یہ قوم پھر سے مہاجر ہے۔ تقسیم برصغیر کی ہجرت کے بعد یقین تھا کہ یہ زندگی میں آخری ہجرت تھی لیکن اب لگتا ہے کہ وہ یقین محض گمان سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا۔ کیونکہ فضا میں وہی چیخ و پکار، دھواں، بارود، ہنگامے، قتل و غارت گری اور۔۔۔۔ محترم وزیر داخلہ کے دعوے۔۔۔ موجود ہیں۔
صحافت کا تقدس اسے دیانتداری سے ادا کرنے اور امانتداری سے پہچانے میں پنہاں ہے۔ کسی پر کوئی الزام عاید کر دینا یا لگ جانا تو انسانی ارتقائی عمل کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن اسے ثابت کرنا شریعت سمیت ہر قانون سے ناگزیر ہے۔ ورنہ ایسا ہر عمل بہتان تراشی کے زمرے میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک ایسے مرحلے پر جب کہ صحافت و میڈیا ایک ٹوٹے پھوٹے نظام اور طرز معاشرت کے لیے Oxygen Mask کا کام دے رہا ہو یا کہا جائے کہ آخری Ventilator ہو تو براہ کرم اسے نہ چھیڑیے۔ ورنہ اگر جہاز ڈوبا تو اس میں رکھی ہوئی آپ کی اپنی چھوٹی سی کشتیٔ حیات بھی غرق ہو جائے گی۔ صحافتی برتری، اپنے اپنے Channels کی کامیابی کے دوسرے ہزار مثبت راستے موجود ہیں۔ لہٰذا کیا ضروری ہے کہ کسی کی خامیاں گنوا کر ہی اپنی خوبیوں کو اجاگر کیا جائے۔ چنانچہ Media War کی ابتدا تو ایسی محسوس ہو گی جیسے:
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں میں
اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا