ڈرون حملوں کے معاملے پر سب سے بڑا فورم پارلیمنٹ ہے

عالمی برادری دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی قربانیوں کو تسلیم کرے، گورنر پنجاب۔


Shehzad Amjad November 14, 2013
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال ۔ فوٹو : فائل

ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کی خود مختاری کیخلاف ہیں اب حکومت نے ہی اس حوالے سے اقدامات کرنے ہیں اس کیلئے بہترین فورم قومی اسمبلی اور آل پارٹیز کانفرنس ہے۔

ملکی مسائل کے حل کیلئے سیاستدان متحد ہوجائیں قوم مزیدکسی کشیدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ پنجاب کے تمام سکولوں میں ایک سال کے دوران صاف پانی مہیا کردیا جائیگا۔جی ایس پی پلس سٹیٹس ملنے سے اب ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ 13 ارب ڈالرسے بڑھ جائیگی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اورلاکھوں لوگوں کوروزگار کے مواقع میسر آئیں گے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی،گیس اور دیگرسہولتیں باآسانی فراہم کی جائیں اور بینک ٹیکسٹائل سیکٹر کو آسان شرائط پر قرض فراہم کریں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔عالمی برادری دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے۔

سمندر پار پاکستانیوں کی اپنے ملک میں موجود پراپرٹی پر قبضے کی شکایات عام ہیں اگر انکی جائیدادوں پر سے قبضے چھڑا دئیے جائیں تو پاکستان میں سالانہ 15 ارب ڈالر کی ترسیلات زر دوگنی ہو کر 30 ارب ڈالر تک جاسکتی ہیں۔بلدیاتی الیکشن میں بھی دھاندلی کے الزامات لگے تو جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔پاکستان میں اس وقت پانی کا بحران سب سے اہم ہے اگر اس کا حل نہ نکالا گیا تو لوگ بجلی کے بحران کو بھول جائیں گے۔ بھارت دریاؤں پر ڈیم بناکر پاکستان کا پانی کو روک رہا ہے مختلف ممالک میں پاکستانی اپنی کمیونٹی میں مضبوط ساکھ کے مالک ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں پاکستان کی سافٹ امیج بلڈنگ کیلئے لابنگ کریں۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ان ممالک کی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کی آواز کو ہر فورم پر اٹھایا جاسکے۔ یہ لڑائی ہم اکیلے نہیں لڑسکتے اس کیلئے بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کو بھرپورکردار اداکرنا ہوگا۔ان خیالات کا اظہارگورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ''ایکسپریس'' فورم میں کیا۔

گورنرپنجاب چودھری محمد سرورنے کہا کہ بلدیاتی الیکشن جلد بازی میں نہ کرایا جائے کیونکہ اگر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے عام انتخابات کی طرح بلدیاتی الیکشن میں بھی دھاندلی کے الزامات لگے تو جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ہم عدلیہ کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ہماری عدالتیں فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ الیکشن کمشن اگر سمجھتا ہے کہ اتنے مختصر وقت میں آزادانہ اور شفاف الیکشن کرواسکتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن تمام پہلوؤں پرغور ضرورکرلیں۔ہمارے قائد وزیراعظم میاں نواز شریف عدلیہ کی بحالی کیلئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر لانگ مارچ کیلئے ماڈل ٹاؤن سے باہر نکلے تھے حالانکہ انہیں برطانیہ ، امریکہ اور ملکی ایجنسیوں کی طرف سے کہا گیا تھاکہ انکی جان کو خطرہ ہے لیکن وہ عدلیہ کی بحالی کیلئے باہر نکلے اس لیے ہم عدالت کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔پاکستان میں اس وقت پانی کا بحران سب سے اہم ہے اگر اس کا حل نہ نکالا گیا تو لوگ بجلی کے بحران کو بھول جائیں گے۔ ہم نے 30سکولوں کا سروے کروایا جن میں سے ایک بھی سکول کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کی اپنے ملک میں موجود پراپرٹی پر قبضے کی شکایات عام ہیں اگر ان کی جائیدادوں پر سے قبضے چھڑا دئیے جائیں تو پاکستان میں سالانہ 15 ارب ڈالر کی ترسیلات زر دوگنی ہو کر 30 ارب ڈالر تک جاسکتی ہیں۔عمران خان ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں آل پارٹیزکانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ تمام پارٹیوں نے مل کرکیا تھا ، قوم مزیدکسی کشیدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین اور پاکستان کی خود مختاری کیخلاف ہیں اب حکومت نے ہی اس حوالے سے اقدامات کرنے ہیں اس کیلئے بہترین فورم قومی اسمبلی اور آل پارٹیز کانفرنس ہے۔

یورپی یونین سے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حصول کیلئے میرے ہمراہ وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر نے یورپ جاکر بھرپور لابنگ کی۔ اس وقت ہمارے ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات کا حجم 12ارب ڈالر سے زائد ہے جی ایس پی پلس سٹیٹس ملنے سے اب ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ 13 ارب ڈالرسے بڑھ جائیگی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اورلاکھوںلوگوں کوروزگار کے مواقع میسر آئیں گے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی،گیس اور دیگرمداخل باآسانی فراہم کیے جائیں اور بینک ٹیکسٹائل سیکٹر کو آسان شرائط پر قرض فراہم کریں اسی صورت میں ہم جی ایس پی پلس سٹیٹس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حصول کیلئے جب ہم یورپی یونین کے رہنماؤںسے ملاقاتیںکررہے تھے تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو انکے حقوق حاصل نہیں، خواتین اور چائلڈ لیبرکے مسائل ہیں تو ہم نے انہیں کہا کہ ہمارا دین اسلام ہمیں اقلیتوںاورخواتین کے حقوق کی تعلیم دیتا ہے اس حوالے سے پراپیگنڈہ بے بنیاد ہے۔

پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔عالمی برادری دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے۔ ہمارا یہ بھی موقف تھا کہ ملک میں جمہوریت ابھی کمزور ہے اور کچھ قوتیں ایسی ہیں جو پاکستان کوکمزور دیکھنا چاہتی ہیں تو اگر آپ جی ایس پی پلس میں ہمیں سپورٹ کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ جمہوریت کوسپورٹ کرتے ہیں۔دہشتگردی کے حوالے سے بھی ہم نے انکو یہ بتایاکہ ہم خود بڑے پریشان ہیں۔پشاور چرچ میں جو حملہ ہوا ہے اس پر ہر پاکستانی کو بڑا افسوس ہے اور اس پر ساری قوم نے مسیحی برادری کیساتھ ہمدردی کا اظہارکیا۔اس کیساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہماری مساجد پر بھی حملے ہورہے ہیں۔

ہماری امام بارگاہوںاور پولیس ہیڈکوارٹرز پر بھی حملے ہورہے ہیں، پاکستانیوں نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جتنی قربانیاں دیںدنیا بھر میں کسی اور ملک نے نہیں دیں۔ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ معیشت کا ہے، جب تک ہماری معیشت ٹھیک نہیں ہوگی، لوگوں کو ملازمت نہیں ملے گی، بیروزگاری ہوگی امن وامان کی صورتحال خراب رہے گی اس لیے ہمیں اپنی معیشت کو بہتر بنانا ہے اور معیشت کی مجبوری یہ ہے کہ ملک میں بجلی اورگیس کا ملک میں بحران ہے۔ جب تک یہ نہیں ملیں گی تو ہماری بند پڑی انڈسٹری نہیں چلے گی، جی ایس پی پلس کا بھی صحیح معنوں میں فائدہ تبھی پہنچے گا۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس کا حصول ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔میں وزیراعظم نوازشریف کی ٹیم کا حصہ ہوں، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور سرتاج عزیز بھی انکی ٹیم کا حصہ ہیں قیادت نے مجھ پر اعتماد کرکے وہاں بھجوایا گیا۔ یہ میاں نوازشریف کی لیڈرشپ ، ہماری ٹیم بلکہ یہ پوری قوم کی کامیابی ہے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرورنے کہا کہ اگر ہم نے نوجوانوںکو نہ سنبھالا تو وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے جائینگے۔

اﷲ نے بڑا اچھا موقع دیا ہے اور میاں نوازشریف کی قیادت میں ہم بھرپورکوشش کررہے ہیں کہ بجلی کے بحران پر جلد قابو پالیا جائے۔اس وقت پانی کے بحران کامعاملہ سب سے اہم ہے جس کا اگر حل نہ نکالا گیا تو لوگ بجلی کے بحران کو بھول جائیں گے، پانی کی کمی ایک قومی مسئلہ ہے اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ بھارت دریاؤں پر ڈیم بناکر پاکستان کا پانی کو روک رہا ہے جب سیلاب آتا ہے تو پانی پاکستان کے طرف پھینک دیا جاتا ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی کی کمی بھی ہورہی ہے جس کی وجہ سے سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے جس سے ہیپاٹائٹس اور کیسنر جیسے موذی امراض پھیل رہے ہیں۔ سکولوں میں پینے کے پانی کو چیک کرنے کیلئے ہم نے 30سکولوں کا سروے کروایا جن میں سے ایک بھی سکول کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

بچے ہمارا مستقبل ہیں اگر وہ بیمار ہونگے تو پاکستان ترقی نہیں کرسکے گا۔ ہم کام کررہے ہیں اور پنجاب کے تمام سکولوں میں ایک سال کے دوران صاف پانی مہیا کردیا جائیگا اس کیلئے فلٹریشن پلانٹ لگائے جارہے ہیں اور ہر بچے کو صاف پانی فراہم کرینگے۔ اس کیلئے صرف حکومت پر ذمہ داری نہیں ڈالنی چاہیئے بلکہ این جی اوز، مخیر حضرات کو آگے ہونا ہوگا تاکہ پنجاب کے تمام بچوں کو صاف پانی مہیا کیا جاسکے۔ وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف کا توجہ اس بات پر ہے کہ ایک دو سال کے اندر تمام سکولوں میں درکار سہولیات پوری کی جائیں اس سلسلے میں این جی اوز بھی کام کررہی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تاثر اجاگرکرنے کیلئے ہمیں سخت محنت کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ وہ ملک کے سفیرکی طرح ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک میں پاکستانی اپنی کمیونٹی میں مضبوط ساکھ کے مالک ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں پاکستان کی سافٹ امیج بلڈنگ کیلئے لابنگ کریں۔

سمندر پار پاکستانیوں کو ان ممالک کی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کی آواز کو ہر فورم پر اٹھایا جاسکے۔ یہ لڑائی ہم اکیلے نہیں لڑسکتے اس کیلئے بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کو بھرپورکردار اداکرنا ہوگا جس کیلئے ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ برطانیہ میں 40 سے زائد انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں پاکستانی کمیونٹی کی حمایت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ پاکستان آنیوالاہر غیر ملکی یہاں سے خوشگوار یادیں اور مثبت تاثر لے کر جاتا ہے ضرورت صرف اس امرکی ہے کہ ہم عالمی برادری تک اپنا یہ پیغام موثر طریقے سے پہنچائیں کہ پاکستان عالمی کمیونٹی کا ذمہ دار ملک ہے اور ہم نے دہشت گردی کے خلاف 50ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور 80ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھایا ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کی اپنے ملک میں موجود پراپرٹی پر قبضے کی شکایات عام ہیں اگر انکی جائیدادوں پر سے قبضے چھڑا دئیے جائیں تو پاکستان میں سالانہ 15 ارب ڈالر کی ترسیلات زر دوگنی ہو کر 30 ارب ڈالر تک جاسکتی ہیں۔ مجھے میاں نوازشریف نے پنجاب کا گورنر بنوایا، اب اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جن توقعات کے ساتھ میری تقرری کی گئی ان پر پورا اترسکوں اور اﷲ ہمت دے کہ میں پاکستان اور پنجاب کے عوام کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرسکوں۔ ایکسپریس میڈیا گروپ ملکی مسائل کے حل اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی بہت خدمت کررہے ہیں جو کہ انتہائی قابل تحسین ہے۔

اس وقت پاکستان کو کئی چیلنجزکا سامنا ہے مگر ایک بات حوصلہ افزا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا ہے۔ ملک کے حالات جو بھی ہوں اگر کوئی سیاسی جماعت یا حکومت ڈلیور نہیں کرتی تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ جمہوریت ناکام ہوگئی ہے۔ میری میڈیا اور پاکستانی عوام سے بھی گزارش ہے کہ ملک میں جمہوری نظام کو تقویت ملنے دیں اور ان شاء اﷲ جب یہ پراسیس چلے گا تو جمہوریت میں مزید بہتری آئیگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کمیونٹی بڑی سمجھدار ہوگئی ہے مشکل حالات کے باوجود میں نے دیکھا ہے کہ کسی نے بھی نہیں سوچا کہ جمہوریت پٹڑی سے اترجائے۔ دہشت گردی کے واقعات میں ہمارے پچاس ہزار لوگوں نے شہادتیں دیں۔

چودھری محمد سرور نے کہا کہ میرے گورنر نامزد ہونے پرکسی ایم این اے ، ایم پی اے سمیت کسی نے کوئی تنقید نہیں کی، میں دل کی گہرائیوں سے سب کا شکرگزار ہوں ۔ سب یہ سمجھتے ہیں کہ میرے عزائم اچھے ہیں میں چاہتا ہوں کہ جو تجربات برطانیہ میں حاصل کئے ان سے پاکستانی قوم کو فائدہ پہنچا سکوں۔کسی مینشن میں رہنے کا میرا کوئی شوق نہیں تھا،میں تو آزاد خیال شخص تھا کہ اپنا بیگ پکڑکر ہرجگہ چلا جاتا تھا، عام آدمی تھا اور عام چیزوں کو پسند کرتا تھا لیکن اب یہاں پروٹوکول کا مسئلہ درپیش ہے اور سکیورٹی والے بھی مجھے کہیں جانے نہیں دیتے۔ میں یہاں کسی شان وشوکت کیلئے نہیں آیا۔اﷲ نے مجھے وہاں پر بڑی عزت دی تھی، پہلا مسلمان پارلیمنٹرین تھا جس نے برطانیہ میں دس صدیوں میں پہلی بار قرآن پاک پر حلف اٹھایا اس سے بڑی سعادت میرے لئے اورکوئی نہیں ہے۔ میں نے برطانوی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بھی کشمیر، فلسطین، عراق اور افغانستان کی بات کی۔ میں نے افغانستان کے مسئلے پر 2001ء میں وہاں جو بات کی بالکل وہی کچھ ہورہا ہے۔

میں نے کہا تھا کہ افغانستان پر حملہ نہ کریں، ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں 19لوگ شامل تھے جن میں نہ کوئی پٹھان ، نہ کوئی پاکستانی اور نہ ہی کوئی پنجابی شامل تھا لیکن امریکی بدلہ لینا چاہتے تھے اور پہاڑوں پر بم برساکر غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے اور وہی انہوں نے کیا ۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے میری پالیسی بڑی واضح ہے۔اس سے ہماری خودمختاری پر بھی زد پڑتی ہے جبکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اب حکومت پاکستان نے ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہے۔عالمی سطح پر پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کیلئے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان کے جوشدید مخالف ہیںوہ بھی پاکستان آتے ہیں تو یہاں سے اتنی اچھی یادیں لے کر واپس جاتے ہیں کہ وہ ہم سے بھی زیادہ پاکستان کے حمایتی بن جاتے ہیں۔

قطرکے ایک بزنس مین دوست نے مجھے بتایاکہ اگر کوئی یہاں چھ ماہ رہ لے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان کتنا اچھا ملک ہے ، اسی طرح بنگلہ دیش کے سفیر نے ایک ملاقات میں مجھے بتایاکہ پاکستان میں میں تین سال سے رہ رہاں ہوں یہ دنیا کا بہترین ملک ہے۔اسی طرح یورپی ممالک سے پاکستان آنے والے ارکان پارلیمنٹ بھی ہمارے حمایتی بن کر جاتے ہیں۔سوفٹ امیج کیلئے ہمیں اپنے رابطے مزید بڑھانے پڑیں گے۔پہلے تو ہم فرانس، جرمنی ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی الگ الگ سپورٹ حاصل کرتے تھے لیکن اب یورپی پارلیمنٹ ایک حقیقت بن گئی ہے، اب وہاں جوبڑے فیصلے ہوتے ہیں ان کے سلسلے میں ہمیں اپنے تعلقات ان سے بہتر بنانا ہوں گے۔انہیں زیادہ سے زیادہ اپنی طرف راغب کرنا چاہیے۔ دیگر ممالک میں پاکستانی سفیروں کے معاملے پر میں کمنٹ نہیں کروں گا کیونکہ یہ فارن آفس کا معاملہ ہے میں تو بیرون ملک پاکستانیوں کی بات کروں گا چاہے وہ یورپ میں، برطانیہ میں یا امریکہ میں رہتے ہیں اھ کو اپنا سفیر سمجھیں جو اپنے طور پر جی این پی پلس میں میرا قطعاً کوئی کمال نہیں۔

برطانیہ میں بہت سے پاکستانی بزنس میں اور پروفیشنل بڑے وائبرنٹ ہیں جن کی تمام سیاسی پارٹیوں میں نمائندگی موجود ہے اسلیے یورپی پارلیمنٹ میں جب بھی کوئی ایشو آتا ہے تو ان پاکستانیوں کے پریشرکی وجہ سے ساری برطانوی پارٹیاں ہمیں سپورٹ کردیتی ہیں ، اب ہمیں یورپ میں بھی پاکستانی کمیونٹی کو فعالکرنا پڑے گا کہ وہ وہاں کی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوں اور وہاں کے رکن پارلیمنٹ بنیں۔ سب سے بڑا فائدہ آپکو پاور میں آنے کا یہ ہوگا کہ اگر برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستانیوں کی نمائندگی موجود ہے تو وہاں کی حکومت پاکستان کے بارے میں کوئی بیان دینے سے پہلے دو دفعہ سوچتی ضرور ہے۔انکو پتہ ہے کہ ووٹ کی پاورکیا ہے کیونکہ برطانیہ میں تیس سے چالیس حلقے ایسے ہیں جہاں پاکستانیوں کا بڑا ووٹ ہے جو فیصلہ کن ہے۔

برطانیہ اور دیگر ممالک میں اوورسیز پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے صرف یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر انکی جو جائیدادیں ہیں جس پر مافیا نے قبضہ کررکھا ہے وہ چھڑوادیں اگر آج ہم انکے قبضے کے مسائل حل کردیں تو میں آپکو یہ گارنٹی دیتا ہوں کہ انکی جانب سے بھجوائے جانے والے 15بلین ڈالر سال میں بڑھ کر 30 بلین ڈالر ہوسکتے ہیں بس ہمیں اوورسیز پاکستانیوں کو آن بورڈ کرنا ہوگا۔ پانی کے مسئلے پر میں کئی سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ آنے والے سالوں میں یہ بڑا بحران ہوگا۔ میڈیا بھی اس پر مباحثے نہیں کروارہا۔ایک تو یہاں ہر کسی کی اپنی الگ ترجیحات ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنی ذاتی ترجیحات کو چھوڑ کر قومی ترجیحات متعین کرنا ہونگی۔ پانی کا بحران بہت زیادہ ہے ، انڈیا جب چاہتا ہے پانی بند کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے زیادہ پانی چھوڑ کر سیلاب ہمیں دے دیتا ہے۔

جس سے ہمیں شدید نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں پینے کے صاف پانی کا بھی بڑا مسئلہ چلا آرہا ہے، کہیں آرسینک زیادہ ہے تو کہیں بچے ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایک بچے کو ایک روپے روزانہ میں پینے کا صاف پانی مل سکتا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کا ٹارگٹ ہے کہ پنجاب کے سکولوں میں جو سہولیات موجود نہیں انہیں ایک سال میں فراہم کیا جائے خواہ کہیں چاردیواری کا مسئلہ ہو، ٹائلٹس یا فرنیچرکا مسئلہ ہو۔میں سمجھتاہوں کہ سارے کام ہماری حکومت اکیلے نہیں کرسکتی۔یہاں بڑے بڑے تاجر ہیں، اوورسیز پاکستانی ہیں اور غیر سرکاری تنظیمیں ہیں اگر ہم سب مل کر حکومت کا ہاتھ بٹائیں اور گندہ پانی پینے والے بچوں کو اپنے بچے سمجھ لیں تو بچوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرسکتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے ساتھ میڈیا کے دوست بھی شامل ہوجائیں تو ہم پنجاب کے تمام سکولوں میں صاف پانی پہنچاسکیں گے، یہ کوئی مہنگا پراجیکٹ بھی نہیں ہے۔

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور،ہمہ جہت شخصیت
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا تعلق مردم خیز خطے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 333گ۔ب سے ہے۔ ابتدائی تعلیم چک نمبر 331گ ب سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1976ء میں برطانیہ منتقل ہوگئے اورچھوٹے پیمانے پرکاروبار کا آغاز کیا۔اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر چند ہی سال میں اسے ایک بڑی بزنس ایمپائر میں تبدیل کردیا۔ 90ء کی دہائی میں برطانیہ سے ہی اپنی سیاست کا آغاز کیا اور 1992ء میں لیبر پارٹی کی طرف سے کونسلر منتخب ہوئے، ان کاسیاسی سفر جاری رہا اور 1997ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلم ممبر منتخب ہوکر تاریخ رقم کی اور برطانوی پارلیمنٹ میں قرآن مجید پر حلف اٹھایا۔

وہ 2001ء اور پھر 2005ء میں دوبارہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے وہ 2010ء تک ممبر پارلیمنٹ رہے، اب ان کے فرزند انس سرور ان کی نشست پر برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔چودھری محمد سرور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بھرپوراورمربوط کوششیں کرتے ہیں۔ انہی کی کوششوں سے یورپی یونین نے پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو جی ایس پی پلس سٹیٹس دے کرپاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو اپنی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری رسائی دے دی ہے۔ اس کا اطلاق یکم جنوری 2014ء سے ہوگا۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس سے 3500 پاکستانی مصنوعات کو یورپی مارکیٹ تک رسائی ملے گی اس سے ملکی ایکسپورٹ میں ڈیڈھ ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ متوقع ہے۔

برطانیہ میں طویل عرصہ تک سیاسی و سماجی خدمات سرانجام دینے کے بعد اب چودھری محمدسرور پاکستان اور خصوصی طور پر صوبہ پنجاب کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرنے چاہتے ہیں۔ اس لئے جب انہیں صوبہ پنجاب کا گورنر بنانے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے اپنی برطانوی شہریت ترک کرکے پنجاب کا گورنر بننے کی پیشکش قبول کرلی اور اب وہ پنجاب کی ترقی اور خصوصی طور پر تعلیم و صحت کے شعبوں میں بہتری کیلئے دن رات سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔ چودھری محمد سرور نے برطانیہ میں ممبر پارلیمنٹ اور مختلف کمیٹیوں کے سربراہ کی حیثیت سے جو تجربات حاصل کئے ہیں وہ ان کو پنجاب میں بروئے کار لاتے ہوئے پنجاب کو برطانیہ کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن کرناچاہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں