وزیراعظم نوازشریف کا دورہ آواران

دورے کے دوران وزیر اعظم نے آواران میں زلزلے سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا جائزہ لیا۔


رضا الرحمٰن November 13, 2013
کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے، ہم ان ناراض بلوچ بھائیوں کو اپنا بھائی تصور کرتے ہیں، وزیر اعظم نوازشریف۔ فوٹو: فائل

QUETTA: وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے گذشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع آواران کا مختصر دورہ کیا۔

آواران میں زلزلے سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا جائزہ لیا اس موقع پر اُنہوں نے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر ناراض بلوچوں کو ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے، ہم ان ناراض بلوچ بھائیوں کو اپنا بھائی تصور کرتے ہیں اور میں اپنے بھٹکے ہوئے ان بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہتھیار پھینک کر ملک کی خدمت میں شامل ہوں کیونکہ لڑائی میں کچھ نہیں رکھا ،بلوچستان کی ترقی میں ہی پاکستان کی ترقی ہے، صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے، ہم ماضی میں بلوچستان کو ملنے والے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے یہاں امن، استحکام، ترقی و خوشحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔ اس موقع پر اُنہوں نے آواران کو ماڈل ضلع بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آفت کی اس گھڑی میں ہم آواران کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

تباہ ہونے والے مکانات کو دوبارہ اچھی کوالٹی میں تعمیر کیا جائے گا، اُنہوں نے زلزلے میں جاں بحق ہونے والے افراد کیلئے فی کس پانچ لاکھ جبکہ زخمیوں کیلئے ڈیڑھ لاکھ فی کس دینے کا اعلان کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ آواران میں بجلی کی چوبیس گھنٹے فراہمی یقینی بنانے کیلئے شمسی توانائی کا منصوبہ لگایا جائے گا مشکے،جھاؤ اور آواران میں سولر سسٹم لگائے جائیں گے اور علاقے میں گیس کی فراہمی کیلئے پلانٹ کی تنصیب کے منصوبے پر بھی جلد کام شروع کیا جائے گا۔سیاسی حلقے میاں نواز شریف کے ان اعلانات اور ناراض لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

تاہم ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح صرف اعلانات پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں، اس سلسلے میں وفاقی حکومت اپنے طور پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کربات چیت کے عمل کو آگے بڑھائے جس کیلئے حکومت کو بھی ماحول کو سازگار بنانے کیلئے ایسے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا پڑیں گے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان میں قیام امن اور مذاکرات کے عمل کیلئے اپنے طور پر کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے اس سلسلے میں وہ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کیلئے بھی کوشاں ہیں جس کیلئے بلوچستان کی مختلف قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے جا رہے ہیں۔

لاپتہ افراد کے لواحقین اور ورثاء کا کوئٹہ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ کراچی کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ وڈھ میں لانگ مارچ کے شرکاء کا استقبال سابق وزیراعلیٰ اور بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کیا اور پندرہ کلو میٹر تک شرکاء کے ہمراہ مارچ بھی کیا۔اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے سے قبل لاپتہ افراد کیلئے جان ہلکان کرنے والوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا، اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے لانگ مارچ کرنے والے لواحقین کے پیروں کے چھالے حکمرانوں کی ناکامی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔



بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جبکہ جانچ پڑتال اور کاغذات منظور یا مسترد کئے جانے اور اس حوالے سے اپیلیں دائر کئے جانے کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ بلوچستان بھر سے7189 نشستوں کیلئے مقابلہ ہوگا۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 134 نشستوں پرمقابلہ ہے اس میں134 نشستوں کیلئے1179 لوگوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اس حوالے سے آپس میں اتحاد کیلئے بھی بات چیت ہو رہی ہے جبکہ جمہوری وطن پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے جے ڈبلیو پی کا اس سلسلے میں یہ موقف ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کا حال بھی11 مئی کے عام انتخابات جیسا ہوگا کیونکہ بلوچستان تاحال زور آور خفیہ ہاتھوں کے رحم و کرم پر ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 11 مئی کے انتخابات میں عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود جے ڈبلیو پی کی قیادت کو ان کے آبائی علاقے میں آزادانہ طور پر انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

بااختیار الیکشن کمیشن کی بار بار یقین دہانیوں پر جے ڈبلیو پی نے ان الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا مگر الیکشن کمیشن بھی زور آور قوتوں کے سامنے بے بس ہوگیا اور اب تک لاکھوں بگٹی مہاجرین کو سوئی اور ڈیرہ بگٹی میں آباد نہیں کیا گیا۔ ان بگٹی مہاجرین کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جارہا ہے اور مصنوعی قیادت کو پروان چڑھانے کیلئے تمام حربے استعمال کئے جا رہے ہیں اس لئے جے ڈبلیو پی نے گیارہ مئی کے عام انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا اب بلدیاتی انتخابات کے بھی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔

گو کہ بلوچستان کی مختلف سیاسی جماعتیں ان بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ، تاہم بلدیاتی انتخابات دسمبر میں کرائے کے حوالے سے ان سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور خدشات بھی ہیں۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ دسمبر میں انتخابات کے دوران سردیوں کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں سے دیگر علاقوں میں منتقل ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی مخدوش ہے ان حالات میں اگر شفاف انتخابات کا انعقاد کرایا جائے تو اس کیلئے سب سے بہتر وقت مارچ کا ہے۔

ان سیاسی جماعتوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی جائے اس مطالبے کے باوجود سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے بلدیاتی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرائے گئے ہیں ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بلوچستان میں نئے سیاسی اتحاد بھی قائم ہوں گے اور اس وقت پرانے اتحاد ان میں توسیع یا پھر ٹوٹ کر نئے بننے کے بھی امکانات ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق اصل معاملہ صوبائی دارالحکومت کی میئر شپ کا ہوگا جس کیلئے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں ابھی سے ہی سر جوڑے بیٹھی ہیں اور میئر کیلئے ابھی سے یہ سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں ۔ ان الیکشن میں بننے والے اتحاد کے بعد میئر کے انتخاب کیلئے بھی مختلف سیاسی اتحاد بننے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔