پینگولِن۔۔۔ایک حیرت انگیز جانور

معدومیت کے شکار اس جانور کا تحفظ ضروری ہے


مرزا محمد رمضان January 19, 2020
معدومیت کے شکار اس جانور کا تحفظ ضروری ہے

دنیا بھر میں فروری کے تیسرے ہفتہ کے دن کو عالمی یوم پینگولن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد اِس حیرت انگیز جانور کی اہمیت وافادیت کے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

پینگولن جسے چیونٹی خور بھی کہا جاتا ہے بڑا مفید جانور ہے جو اپنے ماحولیاتی کردار پیسٹ کنٹرولر کی بدولت انتہا ئی اہم گردانا جاتا ہے۔ کرۂ ارض پر کیڑوں مکوڑوں کو چٹ کر کے فصلوں اور انسان کو ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتا ہے اور زمین کی زرخیزی بڑھانے میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ یہ فولی ڈونا خاندان کا ایک چھوٹا ممالیہ جانور ہے۔ دُنیا میں کم وبیش اس کی آٹھ اقسام پائی جاتی ہیں جن میں چار افریقہ اور چار ایشیا کے استوائی خطوں میں پائی جاتی ہیں۔

پینگولن جسمانی لحاظ سے ایک بڑے نیولے کی طرح کا جانور ہے جس کے جسم پر بڑے بڑے سخت چھلکے ہوتے ہیں۔ یہ چھلکے ایک مادے کیراٹن سے بنے ہوتے ہیں اور یہ چھلکے بے وجہ نہیں ہوتے بلکہ یہ اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب یہ کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس کرے تو یہ اپنے جسم کو ایک گولے کی مانند لپیٹ لیتا ہے اور ماسوائے چھلکوں کے اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ چھلکے انتہائی تیزدھار ہوتے ہیں اور جب اسے کسی گوشت خور جانور (درندے) سے خطرہ درپیش ہو تو یہ فوراً اپنے آپ کو لپیٹ کر اُس سے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے اگلے پاؤ ں خاصے لمبے ہوتے ہیں جب کہ پچھلے پاؤں چھوٹے ہوتے ہیں۔ چلنے کے لیے یہ زیادہ تر پچھلے پاؤں استعمال کرتا ہے۔ اس کے پنجوں کے ناخن بھی تیزدھار ہوتے ہیں اور یہ انہی ناخنوں کی مدد سے زمین کھود کر کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں تلاش کرکے کھاتا ہے۔ اس کی زبان لمبی اور پتلی ہوتی ہے جو اس کے پیٹ میں معدے تک جاتی ہے اور یہ 16انچ تک اپنی زبان کو منہ سے آگے کی طرف نکال سکتا ہے۔ اس کی زبان لبریکیٹ ہوتی ہے اور جونہی یہ دُور سے کیڑے مکوڑے چٹ کر نے کے لیے اپنی زبان نکالتا ہے تو کیڑے مکوڑے اس کی زبان لبریکیٹ ہونے کی وجہ سے اُس سے چپک جاتے ہیں۔ یہ حشرات کے بِلوں میں اپنی زبان ڈال کر اُنہیں اچک لیتا ہے۔ اس کے منہ میں دانت نہیں ہوتے اور یہ زمین میں خرگوش کی طرح سرنگیںکھود کر رہنا پسند کرتا ہے۔

اس کی کچھ اقسام کھوکھلے درختوں میں بھی رہتی ہیں۔ درختوں پر رہنے والے پینگولن کی دُم بہت مضبوط اور لچک دار ہوتی ہے جو اسے درختوں پر لٹکنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔ یہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جانے کے لیے اپنے ہاتھ اور پاؤں کے ساتھ دُم بھی استعمال کرتا ہے یہ درختوں کے سوراخوں میں موجود کیڑے مکوڑوں کو اپنی خوراک بناتا ہے۔

پینگولن ایک ڈرپوک اور ٖغیرجارح جانور ہے جو عموماً رات کو اپنی خوراک تلاش کرتا ہے۔ یہ سوراخوں میں رہائش اختیار کرتا ہے اور اکثر کسی سوراخ پر بڑا پتھر گرنے کے بعد اُس میں رہتا ہے اور ہمیشہ سوراخوں کی کالونیاں تلاش کرتا ہے۔ یہ دیمک، کیڑے اور ان کے انڈے وغیرہ بھی کھاتا ہے اور یہ سونگھ کر اپنی خوراک تلاش کرتا ہے۔

یہ آہستہ چلنے والا جانور ہے جس کی وجہ سے یہ سڑکوں پر انتہائی خطرے سے دو چار رہتا ہے اور خطرے کے وقت بڑی خفیف اور کم زور سی آواز نکالتا ہے۔ تاہم خطرہ بھانپنے کی صورت میں جب یہ اپنا جسم لپیٹ کر گیند کی مانند ہوجاتا ہے تو کوئی طاقتور آدمی بھی اِس کی دُم باہر نہیں نکال سکتا۔ پینگولن اپنی مادہ کے ساتھ بہت کم ملاپ رکھتا ہے اور اس سے محض ایک وقت میں ایک ہی بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔

کرۂ ارض پر ایک سال میں70ملین کیڑوں مکوڑوں کو چٹ کرجانے والے اس عجیب الخلقت جانور کو آج اپنی بقاء کے خطرات لاحق ہیں کیوںکہ ایک اندازے کے مطابق سال 2000 سے کم وبیش 10لاکھ پینگولن کی عالمی سطح پر غیرقانونی تجارت ہوئی اور آج دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل ہونے والا ممالیہ پینگولن ہی ہے۔ آئی یو سی این (انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر) کے مطابق دنیا میں پائی جانے والی پینگولن کی آٹھوں انواع آج انتہائی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں جن میں ایشیا میں پائی جانے والی چاروں انواع بھی شامل ہیں اور اسی کے پیشِ نظر ہی پینگولن کی تمام انواع کو کنونشن آن انٹر نیشنل ٹریڈآف انڈینجر ڈسپیشز کے اپنڈکس ون میں شامل کیا گیا ہے اور اس کی تجارت قطعی ممنوع قرار دی گئی ہے۔ اس کے باوجود یہ غیرقانونی تجارت بدستور جاری ہے۔ چین، ویت نام اور لاؤس اس تجارت کی بڑی منڈیاں ہیں جہاں پر ایک پینگولن ہزاروں ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے ۔

پینگولن کا گوشت، چھلکے اور خون خوراک، ادویات اور مصنوعات کی تیاری میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں غیرقانونی شکار، مساکن کی تباہی، زمین پر برقی تاروں اور باڑوں کے بچھائے جانے کی وجہ سے اور سڑکوں پر آہستہ چلنے کی وجہ سے حادثات کی صورت میں اموات سے بھی پینگولن کی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے پوٹھوہار اور سالٹ رینج کے اضلاع جہلم، چکوال اور راولپنڈی جب کہ خیبرپختونخواہ کے اضلاع کوہاٹ، مردان اور پشاور کے علاقوں میں یہ جانور پایا جاتا ہے جہاں پر ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ تاہم چند ہزار روپے کے لالچ میں مقامی لوگ اِسے پکڑکر اس کا غیرقانونی کاروبار کرنے والے عناصر کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں اور اکثر پکڑے بھی جاتے ہیں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات وپارکس پنجاب نے صوبے میں وائلڈلائف کرائمز پر کڑی نگرانی اور ان کی موثر روک تھام کے لیے ایک پیشہ ور ویجیلنس اسکواڈ تشکیل دے رکھا ہے جو نایاب اور قیمتی جنگلی حیات کی بذریعہ ہوائی سفر غیرقانونی اسمگلنگ، درآمد وبرآمد پر ہمہ وقت نظر رکھے ہوئے ہے جنہوں نے انتہائی چابک دستی سے گزشتہ سال کے دوران جنگلی حیات کی غیرقانونی اسمگلنگ کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا اور لاکھوں روپے کے بھاری جرمانے وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروائے۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران وائلڈ لائف اسٹاف اٹک اور راولپنڈی کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں پینگولن کے ایک ڈیلر کو اٹک سے گرفتار کر کے بھاری جرمانہ عائد کیا گیا اور پینگولن کو خیری مورت نیشنل پارک اٹک میں اُس کے قدرتی ماحول میں آزاد کردیا گیا۔

محکمہ جنگلی حیات پنجاب پینگولن کی آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے دست یاب وسائل ہر ممکن بروئے کار لا رہا ہے اور ایسے تمام علاقوں کی بذریعہ پروٹیکشن فورس خصوصی نظر رکھی جارہی ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جملہ مساعی سے تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی پینگولن کی اِس نایاب نسل کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔