انرجی کا بحران۔۔۔۔۔پاکستان کی بقاء کے لیے امڈتا ہوا خطرہ

وطن عزیز میں ایک جانب گرمیوں میں بجلی کا بحران بڑھ جاتا ہے دوسری جانب سردیوں میں گیس کی زبردست قلت ہوجاتی ہے


Muhammad Akhtar November 10, 2013
گرمیوں میں بجلی غائب اور سردیوں میں گیس ندارد ، مستقبل کا آئینہ کیا دکھا رہا ہے؟۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں انرجی کا بحران دن بدن بگڑتا جارہا ہے۔ انرجی بالخصوص بجلی اورگیس کی شدید قلت کے باعث یہاں تک کہا جارہا ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان کی بقاء کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

وطن عزیز میں ایک جانب تو ہرسال خاص طور پر گرمیوں کے دنوں میں بجلی کا بحران اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں تو دوسری جانب سردیوں کے دنوں میں گیس کی زبردست قلت ہوجاتی ہے اور لوگ گھروں میں کھانا پکانے جیسا معمول کا کام کرنے سے بھی عاجز آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسم سرما قریب آتے ہی ایک بار پھر گیس کا بحران سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس سال موسم سرما میں لگ بھگ تین مہینوں تک سی این جی اسٹیشن مکمل طورپر بند رہیں گے۔سی این جی اسٹیشن بند رکھنے کا مقصد شہریوں کو کھانا پکانے اور دیگر استعمال کے لیے گیس کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم سی این جی اسٹیشن تین مہینے تک بند رکھنا بھی بہت سے مسائل کا سبب بنے گا۔ انرجی کے بحران کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ، کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔

پاکستان میں انرجی کے بحران کے حوالے سے نہ صرف اندرون ملک تشویش پائی جاتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا یہ بحران دنیا کی نگاہوں میں آچکا ہے اور یوں نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے بلکہ اس سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں دلچسپی بھی کم ہورہی ہے اور وطن عزیز کو ملکی اور بین الاقوامی سمیت ہر سطح پر اس کا نقصان پہنچ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی جریدے ''ٹائم'' نے پاکستان میں اس بحران کے حوالے سے ایک طویل مضمون شائع کیا ہے۔یہ عالمی جریدہ پاکستان میں انرجی کے بحران کو کس نظر سے دیکھتا ہے، مذکورہ مضمون کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کو درپیش اس سنگین بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کرنے سے پہلے اس بحران کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جس قدر لوگ اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں، اس پر قابو پانے میں اتنی ہی آسانی پیدا ہوگی۔

بجلی چوری کا مسئلہ

یہ گرمیوں کا موسم ہے۔ ظہر کی نماز ختم ہوچکی ہے اور نمازیوں کا ہجوم لیاری ٹائون کی ایک چھوٹی سی مسجد کے باہر جمع ہوکر بجلی سپلائی کے محکمے کے ایک الیکٹریشن کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ایک بڑی سیڑھی کے سرے پر بیٹھا یہ الیکٹریشن بجلی کی ہائی وولٹیج تاروں کے الجھے ہوئے جال کے درمیان کام کررہا ہے۔ یہ تاریں ایک بڑی اپارٹمنٹ بلڈنگ کے مکینوں کو بجلی کی سپلائی دے رہی ہیں۔ بجلی کی ان تاروں میں کنڈے لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے بجلی چوری کی جارہی ہے۔ الیکٹریشن ان کنڈوں کو ایک ایک کرکے اتار رہا ہے۔وہاں پر جمع ہجوم اور بالکونیوں میں کھڑے افراد اس منظر کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔



اس کے سوا کوئی چارہ نہیں

الیکٹریشن کا نام محمد علی ہے اور وہ شہر کی بجلی سپلائی کمپنی میں کام کرتا ہے۔وہ کراچی شہر کے بدنامی کی حد تک لاقانونیت والے علاقے لیاری کی گلیوں میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے ساتھ ساتھ غیرقانونی کنڈے اتارنے کا کام کرتا ہے تاکہ بجلی کی چوری کو روکا جاسکے۔اس علاقے میں بجلی چوری کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ روزانہ بیس کلو وزن کے برابر کنڈے اتار لیتا ہے۔لیکن جب وہ کنڈے اتار کر چلاجاتا ہے تو صارفین دوبارہ کنڈے لگا کر مزے سے بجلی چوری کرنے لگتے ہیں۔مذکورہ بالا بلڈنگ میں رہنے والا اسی سالہ حاجی عمر اس حوالے سے کہتا ہے کہ وہ بجلی چوری نہیں کرتا لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے آس پاس رہنے والے ایسا کیوں کرتے ہیں۔لوگوں کو بجلی بہت مہنگی ملتی ہے لیکن مہنگی ہونے کے باوجود بجلی اکثر غائب رہتی ہے اور کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے۔''گرمی بہت زیادہ ہے اور ہر طرف اندھیرا ہے۔'' محمد علی کا کہنا ہے۔''ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔''

پاکستان دنیا کے خطرناک ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اسے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں نے بھی چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔دھماکے اور قتل عام ہیں۔آئے روز دہشت گردی کے دل دہلا دینے والے واقعات ہوتے ہیں۔ امریکی افواج اگلے سال افغانستان سے نکل رہی ہیں اور وہاں پر طالبان کے اقتدار میں آنے کی صورت میں قتل وغارت بھی بڑھ جائے گی۔ اس صورت میں پاکستان دہشت گردی کا ایکسپورٹر بھی بن سکتا ہے۔اس قسم کے تشدد بشمول ہمسایہ ملک بھارت سے عشروں پرانی دشمنی کی وجہ سے پاکستانی حکومت مجبور ہے کہ اپنے سالانہ بجٹ کا 19 فیصد فوج کے لیے مختص کرے حالانکہ دوسری صورت میں یہ پیسہ ملک کی ترقی پر خرچ ہوسکتا ہے۔

صبر کا پیمانہ لبریز

مضبوط معیشت کی صورت میں پاکستان میں روزگار میں اضافہ ہوگا اور مستقبل کے لیے امکانات میں اضافے کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی بھی کم ہوگی۔تاہم انرجی بحران بالخصوص بجلی کی قلت ملک کی خوش حالی میں رکاوٹ ہے۔گذشتہ پانچ سال کے دوران ملک کی جی ڈی پی گروتھ اوسطاً تین فیصد تک رہی جو کہ غربت کے خاتمے اور روزگار پیدا کرنے کے لیے بہت کم ہے۔ ملک میں جو بجلی پیدا اور سپلائی ہورہی ہے وہ طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔بحران کے عروج کے دنوں میں روزانہ بارہ سے سولہ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر میں کاروبار متاثر ہوتے ہیں اور بے روزگاری بڑھتی ہے بلکہ غم و غصے کے شکار شہری احتجاج کے لیے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔گذشتہ موسم گرما میں جب بنوں شہر میں بل ادا نہ کرنے پر بجلی بند کی گئی تو ضلع بھر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیزاسلام آباد کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل کے بقول لوگوں میں برداشت ختم ہوچکی ہے۔



پاکستان میں انرجی کے ذخائر کی افراط ہے۔ اندازے کے مطابق ملک میں کوئلے کے زخائر کی مقدار 186 بلین ٹن ہے جبکہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کا پوٹینشل ایک لاکھ میگا واٹ اور ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا پوٹینشل ساڑھے تین لاکھ میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔تاہم ان وسائل کو زیراستعمال لانے کے لیے ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری محدود ہے۔ملک کی تیس فیصد بجلی درآمد شدہ ایندھن سے تیار کی جاتی ہے اور یہ پلانٹ فرنس آئل سے چلتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو بہت مہنگی بجلی ملتی ہے۔سسٹم جو سرکاری اور نجی سیکٹر پر مشتمل ہے، کو چلانے یا ٹھیک کرنے کے لیے زیادہ پیسہ بھی موجود نہیں اور ناقص انفراسٹرکچر کے باعث بہت سی بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔دوسری جانب انرجی کے موثر متبادل پر کام کرنے کے لیے بھی زیادہ پیسہ نہیں۔sustainable development policy institute(SDPI) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری کے مطابق مسائل اور مشکلات کا ایک سلسلہ ہے جو چل رہا ہے۔

پورا جنوبی ایشیا انرجی بحران سے دوچار

انرجی کے بحران سے دوچار پاکستان اکیلا ملک نہیں۔پورا جنوبی ایشیا اس مسئلے سے دوچار ہے۔ناکافی سرمایہ کاری ، ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن کی وجہ سے اس خطے کا انرجی کا شعبہ زبردست مسائل سے دوچار ہے۔جنوبی ایشیا کے لوگ فی کس سالانہ 517 کلو واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ امریکہ کے لوگ فی کس 13 ہزار کلوواٹ سالانہ تک بجلی استعمال کرتے ہیں۔ انرجی کی قلت کے حوالے سے ہر ملک کے اپنے اپنے اسباب ہیں۔بھارت میں اس کا سبب بیوروکریسی کی نااہلی ، بنگلہ دیش میں کثرت آبادی ، افغانستان میں جنگ اور نیپال میں اس کی وجہ فرسودہ ٹیکنالوجی ہے۔ تاہم اس کے نتائج سب کے لیے مشترکہ ہیں۔انرجی کی قلت اور درآمدی ایندھن پر انحصار کی وجہ سے روزگار متاثر ہورہا ہے۔حکومتیں قرضوں میں جکڑی ہوئی ہیں اور جو پیسہ تعلیم و صحت پر خرچ ہونا چاہیے، وہ بھی انرجی کے اوپر لگ رہا ہے اور متاثر غریب ہی ہورہا ہے۔اگر خطے میں بجلی کی قلت نہ ہوتی تو معیشت زیادہ پیداواری اور معاشرہ زیادہ خوش و خرم ہوتا۔نئی دہلی میں واقع انرجی اینڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پی کے پچوری کا کہنا ہے کہ بجلی کے بحران کے نتیجے میں پیداوار اور لوگوں کی فلاح وبہبود دونوں یکساں طورپر متاثر ہورہے ہیں۔

بجلی نہیں تو کچھ نہیں

پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ انرجی کے بحران کے باعث ملکی معیشت کو سالانہ پانچ فیصد جی ڈی پی کے برابر یعنی سالانہ دس ارب ڈالر کانقصان ہورہا ہے۔پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے الیکشن جیتنے کے بعد چار سال کے اندر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ان کی حکومت کے پہلے سودن کے دوران انتظامیہ نے بجلی کی طلب اور رسد کے د رمیان خلا کو پانچ ہزار میگاواٹ سے تین ہزار میگاواٹ کردیا تاہم اس کی وجہ جزوی طورپر طاقتور مون سون کی وجہ سے ہائیڈرو پلانٹ کی پیدوار میں اضافہ اور جزوی طور پر ادائیگیاں کرکے رکے ہوئے پاور پلانٹ چلانا بتائی جاتی ہے۔حکومت کی جانب سے پانچ ارب ڈالر کی ادائیگی سے بھی صورت حال میں بہتری ہوئی۔اس طرح آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت سات ارب ڈالر ملنے کے بعد حکومت صارفین اور تجارتی اداروں کے لیے سبسڈی بھی کم کررہی ہے۔ادھر ملک کے وفاقی وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے تین سال کے اندر بجلی کے بحران کو حل نہ کیا تو پاکستان محفوظ نہیں رہے گا۔بجلی نہیں ہوگی تو پانی ، روزگار اور پیسہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ہماری بقاء کے لیے یہ مسئلہ حل ہونا بہت ضروری ہے۔



گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے

جنوبی ایشیا میں انرجی بحران کے لیے جدوجہد کے حوالے سے اگر پاکستان گرائونڈ زیرو ہے تو کراچی اس کے فال آئوٹ میں آنے والاشہر ہے۔یہ شہر نہ صرف دو کروڑ دس لاکھ انسانوں کا مسکن ہے بلکہ یہاں پندرہ ہزار کے قریب مختلف صنعتیں ہیں اور ساتھ ہی یہ بھانت بھانت کے سیاسی و مذہبی عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بھی ہے جنہوں نے گذشتہ کئی عشروں سے یہاں پر بے چینی اور تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔زیادہ تر جرائم اس شہر کے ان علاقوں میں ہوتے ہیں جو مختلف جرائم پیشہ گروہوں کے کنٹرول میں ہیں اور شہری حکام بھی یہاں پر بے بس ہیں ، بجلی کے میٹر چیک کرنے والے تو دور کی بات ہے۔شہر کو بجلی سپلائی کرنے کی ذمہ دار کمپنی کے ای ایس سی نے بلوں کے اعتبار سے اس شہر کو اچھے اور خراب صارفین کی درجہ بندی میں تقسیم کررکھا ہے۔اچھے صارفین وہ ہیں جو ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں زیادہ تر لوگ بجلی کے بل دیتے ہیںاور بجلی چوری بھی نہیں کرتے اور اس کے نتیجے میں وہاں پر بالکل بھی اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں کی جاتی۔ تاہم غیراعلانیہ طورپر یہاں بھی کچھ گھنٹوں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ خراب صارفین وہ ہیں جو ان علاقوں ، مثال کے طورپر لیاری، میں رہتے ہیں جہاں کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق لوگ بجلی کے بل ادا نہیں کررہے اور کنڈوں کے ذریعے بجلی چوری کررہے ہیں۔یہاں اعلانیہ طور پر روزانہ ساڑھے سات گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔چونکہ کمپنی انفرادی طورپر لوگوں کی بجلی نہیں کاٹ سکتی ، اس لیے اس کی سزا لوڈشیڈنگ کے طور پر سب کو اجتماعی طورپر دی جاتی ہے۔ کے ای ایس سی کے چیئرمین طالب گوہر کے مطابق یہ اس طرح کی صورت حال ہے کہ یا تو سب کو فائدہ ہوتا ہے یا سب کو نقصان ہوتا ہے۔

شہر کے اس قسم کے علاقوں کی بجلی منقطع کرنے کی وجہ سے لوگوں میں کے ایس سی اے کے خلاف غم وغصہ پایا جاتاہے کیونکہ یہاں پر ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو قانو ن پسند ہیں۔لیکن کے ای ایس سی کا کہنا ہے کہ معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے اور کمپنی کو منافع بخش بنانے کے لیے ان کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔2008 میں دوبئی سے تعلق رکھنے والے ابراج گروپ نے سرمایہ کاری کرکے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔نئی ٹیم نے ادارے سے تقرییاً سات آٹھ ہزار ملازمین کو فارغ کردیا۔ملازمتوں سے نکالے جانے پر ملازمین نے کراچی میں کے ای ایس سی کے ہیڈکوارٹر کا گھیرائو کرلیا اور دفتر کے باہر کھڑی گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔یہ واقعہ 2011 میں پیش آیا۔تاہم کمپنی اب اپنے پائوں پر کھڑی ہوچکی ہے اور گذشتہ سال اس نے سترہ سال بعد پہلی بار منافع کمایا جو اگرچہ محض 29.4 ملین ڈالر تھا لیکن بہرحال آغاز تو ہوا۔



کے ای ایس سی کی صورت حال

پاکستان میں انرجی کا بحران اس معاملے سے بہت بڑا ہے کہ کوئی ایک کمپنی منافع کمانے میں کامیاب ہوئی ہے یا ناکامی سے دوچار رہی ہے۔کے ای ایس سی کے زیادہ تر پاور پلانٹ ملک کی قدرتی گیس سے چلتے ہیں تاہم گاڑیوں میں ایندھن کی طلب ، کھاد کی تیاری اور گھریلو استعمال کی ڈیمانڈ کی وجہ سے ان پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی کم ہوتی رہی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کے ای ایس سی کی تمام گیس ٹربائن کام نہیں کررہیں۔اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے ساتھ غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ہسپتال جنہیں گیس کی بلاتعطل فراہمی کی ضمانت دی جاتی ہے، اپنے بیک اپ جنریٹر سے بھی کام لیتے ہیں جبکہ دیگر بڑے کاروبار اور دولت مند گھروں میں بھی جنریٹر استعمال ہوتا ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس کی ایک رپورٹ کے مطابق لوڈ شیڈنگ کے علاوہ حکومت کی جانب سے سبسڈی ختم کیے جانے کے باعث بھی بجلی کی قیمت بڑھ چکی ہے جس کے نتیجے میں فیکٹریوں نے اپنی کام کی شفٹیں کم کردی ہیں۔چیمبر کے صدر محمد ہارون کے مطابق ہر کوئی مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہے۔ اگر ملک میں بے روزگاری کی صورت حال بدتر ہوئی تو امن وامان کی صورت حال بھی بدتر ہوجائے گی۔

بہت سے افراد کے لیے خاصی دیر ہوچکی ہے۔مغربی کراچی میں ایک علاقہ سعید آباد ہے جو صنعتی علاقہ کہلاتا ہے۔اس علاقے کی گلیاں پاور لومز فیکٹریوں کی دھمک سے لرز رہی ہوتی ہیں کیونکہ یہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں کپڑا تیار کرنے والی پاور لومز لگی ہوئی ہیں جو نہ صرف ملکی ضرورت بلکہ برآمدکی غرض سے بھی کپڑا تیار کرتی ہیں۔ کے ای ایس سی نے اس علاقے کے زیادہ تر حصے کو ترجیحی انڈسٹریل زون کا درجہ دے رکھا ہے اور یہاں پر لوڈ شیڈنگ نہیں کی جاتی تاہم کمپنی کی لائنز سے دور چھوٹی پاور لومز فیکٹریوں کو اس مصیبت کا بدستور سامنا رہتا ہے۔یہاں ایک پاور لومز فیکٹری کے مالک نے دس سال قبل یعقوب سلک کے نام سے کپڑا فیکٹری شروع کی تو اس کے پاس کام تیز ہونے کے دنوں میں پچیس افراد کام کرتے تھے لیکن اب صرف پانچ لوگ کام کرتے ہیں۔ایک ہال نما مستطیل کمرا جہاں کبھی ہر وقت مشینوں کی آواز گونجتی تھی ، اب وہاں گرد وغبار اور خاموشی کے سوا کچھ نہیں۔مشینیں کب کی بیچی جاچکی ہیں۔فیکٹری مالک کے بقول یہاں پر روزانہ آٹھ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ اس دوران بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے بعد اس کا خیال ہے کہ وہ اگلے سال تک اپنی فیکٹری برقرار رکھ لے تو غنیمت ہے۔'' میں بیان نہیں کرسکتا کہ یہ خالی کمرہ دیکھ کر میں کس قدر اداس ہوجاتا ہوں۔'' اس کا کہنا تھا۔''میں نے تو کاروبار اس نیت سے شروع کیا تھا کہ یہ ترقی کرے گا لیکن یہ تو الٹا پیچھے جارہا ہے۔''

باقی ملک میں حالات اور بھی بدتر

پاکستان کے دیگر حصوں میں حالات اور بھی زیادہ خراب ہیں اور یہاں پر بجلی زیادہ دیر غائب رہتی ہے اور پرائیویٹ کمپنیاں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہروقت اوور ٹائم کام نہیں کرتیں۔نئی حکومت کوشش کررہی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے تیل کے استعمال کے بجائے دیگر ایندھن جیسے کوئلہ ، ہائیڈرو اور ہوائی چکیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جبکہ ساتھ ہی پاور جنریشن ، ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن کی نجکاری کی جائے۔حکومت کے ایک پالیسی بیان کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ انرجی کی کمی سے دوچار امپورٹر بن کر رہنے کے بجائے خود کو انرجی کے علاقائی ایکسپورٹر میں تبدیل کیا جائے۔



اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کی صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ ہدف حاصل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری جو 2007-08 میں 5.4 بلین ڈالر تھی ، گذشتہ مالی سال کے دوران کم ہوکر 1.4 بلین ڈالر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود تبدیلی آرہی ہے۔کراچی سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہوائی چکیوں سے بجلی پیدا کرنے کا ایک منصوبہ چل رہا ہے۔یہاں پر 33 کے قریب جرمن اور ڈینش ہوائی چکیاں چلنے لگی ہیں اور ترکی کے ''زورلو انرجی گروپ''کی پاکستانی سب سڈری نے گذشتہ جولائی میں ان ہوائی چکیوں سے بجلی کی پیداوار شروع کردی ہے۔ ابھی ان ہوائی چکیوں سے صرف 56.4 میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے جو بہت کم ہے۔تاہم اس کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ایک چینی کمپنی بھی ہوائی چکیوں کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ لگا رہی ہے اور ساتھ ہی چین نے کوئلے سے چلنے والے حتیٰ کہ ایٹمی پاور پلانٹ لگانے کے معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔زورلو کمپنی کے انجینیر زبیر احمد کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہوا مفت کا مال ہے۔ اگر ہم اس کو استعمال کرکے بجلی نہیں بناتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ہوائی توانائی کو ضائع کررہے ہیں۔

ایک اور حکمت عملی یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک ایک دوسرے سے انرجی حاصل کریں۔اس سلسلے میں اتحاد بن رہے ہیں۔جنوبی ایشیائی ممالک میں بھوٹان واحد ملک ہے جسے بجلی کی قلت کا سامنا نہیں اور اس کے پاس ہائیڈرو پاور کی صورت میں خاصی بجلی ہے۔بھوٹان اب بھارت کو بجلی سپلائی کررہا ہے۔دوسری جانب گذشتہ ماہ سے بھارت نے بنگلہ دیش کو کچھ مقدار میں بجلی کی فراہمی شروع کی ہے۔sustainable development policy institute(SDPI) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سلہری کہتے ہیں کہ اگر انرجی نہیں ہوگی تو کوئی معاشی سرگرمی نہیں ہوگی۔ کوئی معاشی سرگرمی نہیں ہوگی تو آمدنی کم ہوگی اور حکومت کے لیے کم ٹیکس جمع ہوں گے۔حکومت کو جب معاشی ابتری کا سامنا ہوگا تو اس سے سب سے زیادہ غریب لوگ متاثر ہوں گے۔

اس دوران پاکستانی لوگ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔کراچی کی مشہور کلفٹن بیچ پر شام کے جھٹ پٹے میں ہلکی ہلکی روشنیوں سے سجی بگھیاں ساحلی ریت پر متحرک ہیں اورلوگ ان میں بیٹھے لطف اندوز ہورہے ہیں۔اونٹ بھی دکھائی دے رہے ہیں جن کے مالک اونٹ کی سیر کے خواہش مند لوگوں کے انتظار میں ہیں۔گیلی ریت پر ٹھیلے والوں نے پلاسٹک کی کرسیاں رکھی ہوئی ہیں اور جوڑے سمندر کے پانی میں اٹھکیلیاں کررہے ہیں۔شام کی ساحلی ٹھنڈی ہوا ان خاندانوں کے لیے سکون کا باعث ہے جو دن بھر بجلی سے محروم گھروں اور کام کاج پر گرمی سے جھلسنے کے بعد یہاں پر کچھ وقت گذارنے آئے ہیں۔

''اتنی گرمی میں کھانا پکانا کسی عذاب سے کم نہیں۔''کراچی کے صنعتی علاقے کورنگی کی رہائشی خدیجہ انصاری بتارہی تھیں۔خاوند محمد زاہد بھی ان کے ساتھ تھے۔

''جب ہم گھر سے نکلے تو وہاں پر بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔'' محمد زاہد کا کہنا تھا۔''بجلی کے بغیر پاکستان میں زندگی بہت مشکل ہوچکی ہے۔''

کچھ لمحوں کے لیے تازہ ہوا ، ایک آئس کریم کے ٹھیلے کی مدھر موسیقی اور تلے ہوئے مکئی کے دانوں کی خوشگوار مہک سے لوگوں کا دھیان کچھ دیر کے لیے زندگیوں کی تلخیوں سے ہٹ جائے گا۔اس کے بعد وہ ایک بار پھر اپنی اندھیری گلیوں اور تاریک گھروں کو لوٹ جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔