ضرورت رشتہ سے شادی تک

ہمارے معاشرے میں میرج بیورو ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے جس سے پورا فائدہ لڑکے والے اٹھاتے ہیں۔


عینی نیازی January 09, 2020

مجھے آپ کا نمبر میرج بیورو نے دیا ہے ، ہم اپنے بیٹے کے سلسلے میں آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں ، دوسری جانب سے جواب دیا جاتا ہے '' جی ضرور! آپ تھوڑا اپنے بیٹے کی کوالیفکیشن وغیرہ ، کچھ اپنا تعارف کروا دیں'' دوسری جانب سے کہا جاتا ہے، دونوں طرف سے تبادلہ خیال شروع ہوتا ہے۔

سب تفصیلات فون پر بتائی جاتی ہیں پھر لڑکے والے آج ہی آنا چاہتے ہیں، لڑکی کی ماں تھوڑا گھبراتی ہیں ''اتنی جلدی! تھوڑا ٹھہریے میں گھر والوں سے مشورہ تو کر لوں'' دوسری طرف سے جواب ملتا ہے ''آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں ہم بس تھوڑی دیر کو آئیں گے آپ کوئی اہتمام مت کیجیے گا'' لڑکی کی ماں سوچ میں پڑ جاتی ہے، اسے کئی طرح کی فکریں ہیں اگر وہ لوگ آئے اور ناپسند کر کے چلے گئے تو کیا ہو گا؟

سب سے پہلے بیٹی کی طرف دھیان جاتا ہے وہ کتنی آزردہ ہو گی سارا دن جو خاطر و مدارات کی تیاری کی گھرکے افراد جس طرح ذہنی طور پر انوالو ہوئے وہ کیا محسوس کریں گے؟ سوچوں کا سلسلہ رک جاتا ہے کہ دوسری جانب سے اصرار بڑھتا ہے ''کس سوچ میں پڑ گئیں، آپ کیا ہوا؟'' ''جی کچھ نہیں ضرور آئیے آپ کا اپنا گھر ہے'' کہہ کر فون بند کر دیا جاتا ہے۔

یہ آج کی بات نہیں تھی سب کچھ تو کئی مہینوں سے چل رہا تھا مختلف میرج بیورو سے رابطہ تھا جہاں بیٹی کی تصویر کے ساتھ ایڈوانس بھی ادا کیا جا چکا تھا آئے دن کوئی نہ کوئی فون کال اور رشتے کے لیے آتے رہتے تھے دونوں جانب سے سب پرفیکٹ ہوتا لڑکی بھی پسند آ جاتی اس کی اعلیٰ تعلیم گھر والوں کا رکھ رکھاؤ سے لے کر تہذیب و آداب سب ایک مڈل کلاس گھرانے کے لحاظ سے مکمل ہوتا پھر ایسا کیا تھا کہ دیکھنے والے کوئی جواب دیے بنا چلے جاتے۔

انکار کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تو استخارے کا بہانہ سب سے بہترین وجہ ہوتی، ادھر سب گھر والے ایک دوسرے کو ڈھارس دیتے ہیں کوئی بات نہیں اس میں بھی خدا کی کوئی بہتری ہو گی۔ آخر لڑکی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے وہ کہہ دیتی ہے کہ ''مجھے روز روز رشتے والوں کے سامنے تماشا نہیں بننا، اگر زیادہ پیچھے پڑے تو خودکشی کر لوں گی'' ماں باپ لاکھ سر پٹختے رہیں مگر لڑکی نہیں مانتی۔

ہمارے معاشرے میں میرج بیورو ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے جس سے پورا فائدہ لڑکے والے اٹھاتے ہیں۔ آئے دن اپنی فیملی کے ساتھ لڑکی کے گھر آؤٹنگ پر نکلتے ہیں بہت عزت کے ساتھ بہترین ناشتے چائے اور پھر مفت میں لڑکی کو دیکھنے کا تماشا الگ مل جاتا ہے۔

قطع نظر کہ دوسروں پر کیا گزرے گی جی ہاں! بے شمار لمحات میں یہ ایک پل بھی شامل ہے جسے ہم سب بیٹی کے پیدائش پر ماتم کے سبب کو جان سکتے ہیں ہمارے ملک میں غریب اور مڈل کلاس طبقہ اپنی غربت اور سفید پوشی کی سزا ساری زندگی کاٹتا ہے، میرا موضوع میرج بیورو یا رشتے کرانیوالی خواتین کے بارے میں نہیں کہ ان کے حوالے سے اب ایک عام رائے بن چکی ہے کہ کس طرح اپنی دکانیں سجانے کی خاطر مکر و فریب کا لبادہ اوڑھے چند روپوں کے لالچ میں لڑکی کی پوری زندگی برباد کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے لیکن اس کے ساتھ لڑکے والوں کا رویہ بھی قابل گرفت ہے جو لالچ و خوب سے خوب تر کی تلاش میں حد سے بڑھ جاتے ہیں، بیٹی والے جب رشتہ طے پانے کی اذیت کو عبور کر لیتے ہیں۔

شادی طے ہونے کے بعد لڑکے والوں کی جانب سے ڈیمانڈ کی لمبی فہرست جسے یہ کہہ کر جائز بنایا جاتا ہے جو کچھ دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے۔ امیروں کے لیے شادی دولت کی نمائش کا ایک ذریعہ ہے مگر سفید پوش طبقہ اس میں پِِس جاتا ہے۔ بارات ایک ایسا بوجھ ہے جو خوامخواہ لڑکی والوں پر لادا گیا ہے یہ بھی عجیب منطق ہے کہ نکاح میں چھوارے لڑکے والے لائیں گے اور کھانا لڑکی والوں کی طرف سے ہو گا۔

جس میں درجنوں ڈشز، مہنگے ہالوں کا خرچہ، سلامی میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر دینا لازم ہے ارے جو کھانا کھلا سکتا ہے کیا وہ چھوارے نہیں بانٹ سکتا؟ یہ تکلف بھی کیوں کیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ بحیثیت مسنوم نکاح مسجد میں ہونے کے بعد بیٹی کو سادگی سے رخصت کر دیا جائے ہم سے بہتر تو غیر مسلم ہوئے جنھوں نے اپنے پادری اور چرچ کا تقدس بحال رکھا ہوا ہے شاہی خاندان سے لے کر عام آدمی تک سبھی نکاح کے لیے چرچ جاتے ہیں۔ بے شک یہ ایک بدعت ہے حضورؐ کے دور میں ایسی کوئی مثال نہیں اس کی اصلاح ضروری ہے۔

اسلام میں بارات لفظ کے کوئی معنی عربی کی کسی ڈکشنری میں نہیں، جہیز کا کوئی تصور اسلام میں نہیں، یہ خالص ہندوانہ رسم ہے اس لیے کہ وہ جائیداد میں بیٹی کو کوئی حصہ نہیں دیتے تو اس طرح دان ادا کر کے سبکدوش ہو جاتے ہیں لیکن اسلام بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی ماں باپ کی ترکے میں حقدار ٹھہراتا ہے خود آپؐ نے اپنی کسی بیٹی کو کوئی جہیز نہیں دیا۔

بی بی فاطمہؓ کی شادی کے وقت آپؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا ''آپ کے پاس کچھ رقم ہے مہر ادا کرنے کے لیے'' تو انھوں نے فرمایا نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا ''تمہارے پاس ایک زرہ ہے اسے بیچ دو'' حضرت علیؓ نے وہ زرہ حضرت عثمان غنیؓ کو تیس درہم میں فروخت کر دی (جو بعد میں حضرت عثمانؓ نے تحفتاً واپس کر دی تھی) حضرت علیؓ نے کچھ رقم بی بی فاطمہؓ کے کپڑوں کے لیے اور مہر کے لیے ادا کی۔ گھر کے استعمال کے لیے ایک گدا، دو تکیے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ایک چکی اور ایک پانی کا مشکیزہ خریدا کوئی بارات نہیں گئی۔ مسجد میں نکاح ہوا شام کو چند خواتین نبیؐ کی لاڈلی بیٹی کو رخصت کرنے حضرت علیؓ کے دروازے تک آئیں جب حضورؐ کی تمام بیٹیوں کی شادیاں سادگی سے ہو سکتی ہیں تو کون سی بیٹی ان سے معتبر ہو سکتی ہے۔

سعودی عرب میں نکاح لڑکی کے گھرکیا جاتا لیکن دعوت کا جو اہتمام ہوتا ہے اس کا سارا خرچہ لڑکے والے ادا کرتے ہیں، بس یہی ایک کھانا ہوتا ہے جسے ولیمۃ العرس کہا جاتا ہے کاش کہ ہم اپنے ملک میں اس رسم کو کسی بھی قسم کی دل آزاری کے بنا نافذ کر سکیں ، آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا، ہر گھر میں لڑکی اور لڑکے دونوں موجود ہوتے ہیں پھر ہم اپنی بیٹی کے لیے سوچتے ہیں، ایسا رشتہ مل جائے جہاں ہماری بیٹی پہلے چائے پیش کرنے کی اذیت میں پاس ہو جائے اور جہیز کے بوجھ سے بھی بچ جائیں تو پھر بیٹے کے معاملے میں ایسا فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟ وہاں تو الٹا بڑھ چڑھ کر تقاضے کیے جاتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو بیٹی بیاہنے میں اسی پل صراط سے گزرے ہیں ہم تو گن گن کر بدلے لیں گے۔ آپ ایک بار درگزر کر کے معاشرے میں سادگی کی بنیاد تو ڈالیں بالوں میں چاندی کے تار لیے سیکڑوں بیٹیوں کے گھر بس جائینگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔