’’دوست‘‘ بے نقاب ہوگیا

اس حملے میں حکیم اﷲ محسود کے ہمراہ طالبان کے وہ اہم کمانڈر بھی مارے گئے جو مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔


[email protected]

انتہائی بے یقینی کی کیفیت طاری اور بداعتمادی کی فضا قائم ہے، امریکا پاکستان کو ڈبل کراس کررہا ہے اور امریکا کا خیال بھی یہی ہے کہ پاکستان بھی وکٹ پر دونوں اطراف بیٹنگ کرنے میں لگا ہے یعنی دونوں ہاتھ میں لڈو رکھنا چاہتا ہے۔ ایک طرف امریکا سے یاری تو دوسری جانب طالبان سے دوستی کے لیے مذاکرات، اگرچہ اے پی سی اور فوج کی طرح خود امریکا نے بھی طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان کی حمایت کی اور میاں صاحب کے دورہ امریکا کے دوران اوباما نے طالبان سے مذاکرات کی تائید بھی کی اور تاکید بھی، تاہم عین مذاکرات والے دن کہ جب پاکستان کا تین رکنی وفد مذاکرات کے لیے جارہا تھا اور خود حکیم اﷲ محسود بھی اپنی شوریٰ اور اہم طالبان کمانڈروں کے ہمراہ ان مذاکرات پر غور وخوض کررہے تھے، امریکا نے پاکستان کو ڈبل کراس کرتے ہوئے میران شاہ ڈانڈے درپہ خیل میں طالبان کے اہم مرکز پر ڈرون حملہ کرکے پاکستانی طالبان کے سربراہ اور طالبان مذاکراتی ٹیم کے امیر حکیم اﷲ محسود کو مار ڈالا۔

اس حملے میں حکیم اﷲ محسود کے ہمراہ طالبان کے وہ اہم کمانڈر بھی مارے گئے جو مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔ پاکستان نے امریکا کو متنبہ کیا تھا کہ حکیم اﷲ محسود مذاکراتی ٹیم کا سربراہ ہے لہٰذا اسے نشانہ نہ بنایاجائے جب کہ امریکا اسے مارنے پر مسلسل بضد تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکیم اﷲ محسود 2009 سے پاکستانی طالبان کا سربراہ تھا، اسے عین اسی روز کیوں نشانہ بنایا گیا کہ جب مذاکرات عمل میں آنے جارہے تھے۔ گویا امریکا کی جانب سے یہ ڈرون اٹیک درحقیقت محسود پر ہی نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان کے مذاکراتی عمل پر بھی حملہ ہے، طالبان نے محسود کے قتل کو بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے اور خیال پایا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے یہ طالبان کو پہنچنے والا دوسرا سب سے بڑا نقصان ہے، جس کے بعد اب پاکستان اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی امیدیں وقتی طورپر دم توڑ گئی ہیں۔ لیکن اگر مذاکرات نہ ہوئے تو یہ امریکا کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی اور اس کی دیرینہ خواہش و منشا پوری ہوجائے گی۔

پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کا آغاز 2004 میں ہوا جب امریکا نے 18 جون 2004 کو ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر نیک محمد کو ہلاک کردیا، نیک محمد نے پاکستانی حکام کے ساتھ شکئی امن معاہدہ بھی کیا تھا لیکن یہ معاہدہ بھی ناکام ہوگیا تھا۔ نیک محمد کے بعد تحریک طالبان کے سربراہ بیت اﷲ محسود کو 5 اگست 2009 کو اس وقت نشانہ بنایاگیا جب وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ سسرال میں تھے اور یہ واقعہ جنوبی وزیرستان کے علاقے زنگر میں عمل میں آیا۔ تحریک طالبان کے ڈرون حملے میں مارے جانے والے ایک اور اہم کمانڈر مولوی نذیر تھے جنھیں 2 جنوری 2013 کو امریکی ڈرون طیارے نے انگوراڈا کے علاقے میں نشانہ بنایا، وہ علاقے میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف تھے اور انھیں پاکستانی حکومت کا حامی تصور کیا جاتا تھا، مولوی نذیر کے بھائی حضرت عمر کو بھی اکتوبر 2011 میں امریکی ڈرون طیارے نے کئی ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا تھا۔

جنوبی وزیرستان میں طالبان کے اہم کمانڈر ولی الرحمن کو 29 مئی 2013 کو امریکی ڈرون طیارے نے نشانہ بنایا، جب کہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت سے پہلے ان کے اہم ساتھی لطیف اﷲ محسود کو افغانستان میں ایساف فورسز نے گرفتار کرلیا، پاکستان کے مانگنے کے باوجود امریکا نے انھیں دینے سے انکار کردیا۔ طالبان سے کیے گئے دو معاہدے ماضی میں ناکام ہوچکے ہیں تاہم حالیہ مذاکرات کو پاکستان کے حالات کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیا جارہا تھا لیکن امریکی ڈرون نے اس مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کردیا، گویا امریکا نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بروقت وار کیا، یہ امریکی ڈرون حملہ پاکستان کے خلاف ایک ایسی سازش ہے جس کے ممکنہ ردعمل کے طور پر ملک میں حالات خراب اور عسکری کارروائیوں کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں اور ان میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، گویا ایسے اہم موڑ پر غیر متوقع حملے سے پاکستان کا ''دوست'' بے نقاب ہوگیا۔

امریکا نے حکیم اﷲ محسود کے سر کی قیمت 5 ملین ڈالر مقرر کر رکھی تھی، اگرچہ محسود کی ہلاکت طالبان کا ایک بہت بڑا نقصان ہے اور اس سے مذاکراتی عمل کو دھچکا بھی پہنچا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب کبھی پاکستان اور طالبان میں مذاکرات کا عمل شرمندہ تعبیر ہی نہیں ہوپائے گا، یقیناً جس طرح القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ان کی جگہ بطور سربراہ ایمن الظواہری نے لے لی، اسی طرح حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد تین اہم ناموں عمر خالد خراسانی جو کہ مہمند ایجنسی کے امیر ہیں، ملا فضل اﷲ جو کہ مالاکنڈ کے امیر ہیں اور خالد سعید عرف سجنا جو کہ جنوبی وزیرستان کے امیر ہیں ان کے ناموں پر غور کے بعد طالبان سربراہ کے انتخاب کی تیاریاں ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ خالد سعید سجنا بطور سربراہ ذمے داریاں سنبھال لیںگے اور پھر فوری طورپر نہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد دوبارہ پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل ضرور شروع ہوگا اور بالآخر پایہ تکمیل تک بھی پہنچے گا۔ خواہ در پردہ امریکا کتنا ہی ان مذاکرات کے خلاف سازشیں کرے اور حربے اختیار کرے اور پاکستان کو ہمیشہ کی طرح ڈبل کراس کرے۔ اگر ان حالات میں پاکستان امریکا سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کی جرأت کرنے کی جسارت کرنے جارہا ہے تو وہ یقیناً حق بہ جانب ہے، امریکی سفیر کی دفتر خارجہ میں طلبی اور نیٹو سپلائی لائن کو منقطع کرنے پر غور یقیناً راست اقدام ہیں اور ان سے امریکا پر دبائو بڑھنے کا امکان بھی ہے، نیز پاکستان کا سلامتی کونسل میں ڈرون حملوں کا مسئلہ اٹھانا بھی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

ڈرون حملے پاکستان میں دہشت گردی بڑھنے کا سب سے بڑا سبب ہیں، گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان کے ڈرون حملے سے متاثر رفیق الرحمن نے اپنے متاثرہ بچوں سمیت واشنگٹن میں ایوان نمایندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے پاکستان پر ڈرون حملوں کی شدید مخالفت کی اور کانگریس کے ارکان سے پوچھا کہ اس کی بوڑھی ماں مومنہ بی بی اور بچوں نبیلہ اور زبیر کا کیا قصور تھا؟ جس میں اس کی معصوم ماں کی جان گئی اور نبیلہ اور زبیر سمیت اس کے آٹھ پوتے اور پوتیاں مجروح ہوئے، یہ شمالی وزیرستان پر سی آئی اے کے ان 45حملوں میں سے ایک تھا جو جنوری 2012 اور اگست 2013 کے درمیان کیے گئے اور جن کا جائزہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لیا، نیو امریکا فائونڈیشن وہ تھنک ٹینک ہے جو پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کا حساب رکھتا ہے۔ اس کا کہناہے کہ 2005 کے بعد کل 365 حملے ہوئے، ان سے 1600 سے 2200 تک عسکریت پسند مارے گئے اور 258 تا 307 عام شہری جاں بحق ہوئے۔ اگرچہ شروع میں امریکن انتظامیہ ان حملوں میں عام شہریوں کے جانی نقصان کی تردید کرتی تھی مگر اب مانتی ہے کہ بے گناہ لوگ بھی مارے گئے ہیں جب کہ امریکی رکن کانگریس ایلن گریس نے بیچ چوراہے پر بھانڈا پھوڑدیا ہے کہ ''پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل ہی بند ہوسکتے ہیں، پاکستان کی منظوری کے بغیر اس طرح کے حملے ممکن نہیں، پاکستان کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ڈرون روک سکے لیکن سیاسی حکومت اس کے ہاتھ باندھے رکھتی ہے''۔

بہر حال بارہ برس آگ و خون اور ڈالروں کی بارش کے بعد امریکا بھی سرزمین افغانستان سے سوویت یونین کی طرح ناکام و نامراد ہی لوٹ رہا ہے، امریکی انخلا کے بعد ہمارے لیے کوئی راہ فرار نہیں، جس کامیاب افغان گوریلا جنگ کا سامنے سوویت یونین کے بعد امریکا بھی نہ کرسکا پاکستان بھلا کیسے اور کیونکر اس سے نبرد آزما ہوسکے گا، لہٰذا مذاکرات ہی واحد راہ نجات ثابت ہوسکتے ہیں، جن کی راہ میں امریکا اب بلا شک و شبہ واحد بڑی رکاوٹ ہے اور پاکستان میں انتشار کی سب سے بڑی ذمے دار بھی۔

امریکی دہشت گردی کی یہی وہ بھیانک مثالیں ہیں جو القاعدہ، طالبان اور دیگر (بظاہر انتہاپسند) جہادی تنظیموں اور عسکریت پسندوں کے وجود کو جواز فراہم کرتی ہیں اور ان کے قیام کا اصل سبب اور اہم محرک ہیں، جب تک امریکا مظالم و ناانصافی کا خاتمہ نہیں کرتا عالمی امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ 9/11 کا واقعہ دنیا میں دہشت گردی کا کوئی پہلا واقعہ نہ تھا دنیا اس سے قبل ایک طویل عرصے سے امریکی دہشت گردی کا شکار رہی ہے جس کا نشانہ بالخصوص مسلم امہ اور عالم اسلام رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔