محروم عمل نرگس‘ مجبور تماشا ہے
کلام اقبال میں عصری شعورکی جھلکیاں ان کے قیام یورپ کے دوران ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں
اس بحث میں پڑے بغیر کہ 9 نومبر علامہ اقبال کا صحیح یوم پیدائش ہے یا نہیں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس ''علامت'' کے حوالے سے ہم ان کے افکار اور اپنے کردار کو ایک ساتھ رکھ کر اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم معیاری qualitative سطح پر کہاں کھڑے ہیں' فکر اقبال سے ہم نے کیا سیکھا ہے اور کیا کچھ سیکھنے سے رہ گیا ہے کہ محاسبہ' عمل اور تبدیلی یہی وہ تین منفرد اوصاف ہیں جو انسان کو باقی مخلوقات سے منفرد اور ممتاز کرتے ہیں ورنہ بقول اقبال انسان کی آنکھ بھی گل نرگس کی آنکھ سے مختلف نہ ہوتی جس کی قسمت اور اوقات یہی ہے کہ
منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا
محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے!
تاریخ انسان کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ روئے زمین پر ظہور پذیر ہونے والی ہر قوم عروج و زوال کی منازل کے ساتھ ساتھ کبھی نہ کبھی ایک عرصہ غنودگی Dormancy اور Hibernation کے دور سے بھی گزرتی ہے۔ گزشتہ ایک ہزار برس میں اس کی سب سے نمایاں مثال ہم یعنی ملت اسلامیہ ہے کہ ہمارا عرصہ خواب کم و بیش چھ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے اور اکا دکا استثنائی صورتوں سے قطع نظر سقوط بغداد سے لے کر پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک یہی ''جو رہی سو بے خبری رہی'' ہی ہماری اجتماعی پہچان رہی ہے اقبال کا کمال یہ ہے کہ نہ صرف وہ تاریخی اعتبار سے جاگنے والوں کی پہلی صف میں تھے بلکہ ان حدی خوانوں میں سے بھی تھے جن میں یہ نعرہ مستانہ بلند کرنے کی ہمت اور تڑپ تھی کہ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
کلام اقبال میں عصری شعورکی جھلکیاں ان کے قیام یورپ کے دوران ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں لیکن اس کے پس منظر میں عالم اسلام کے مسائل کا شعور اور اظہار واضح ہونے میں کچھ وقت لگا پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل ''شکوہ'' ''جواب شکوہ'' اور ''فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے'سے شروع ہونے والا یہ سفر جنگ کے کچھ عرصہ بعد کی نظموں بالخصوص ''طلوع اسلام'' اور ''مسجد قرطبہ'' میں اپنی منزل کا واضح تعین کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو آج کے مسائل کے حوالے سے مختلف ذیلی عنوانات کے تحت لکھی گی ''ضرب کلیم'' کی بیشتر نظمیں نسبتاً زیادہ Relevant محسوس ہوتی ہیں فرقہ پرستی ہو یا طالبانیت' فکری انتشار ہو یا احساس کمتری' فلسفہ جہاد ہو یا خوئے غلامی ان سب موضوعات پر یہ نظمیں بالکل ''آج''کی محسوس ہوتی ہیں اس بات کو مزاحیہ انداز میں بقول دلاور فگار یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ''حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے' مگر امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہے کہ 2013ء میں بھی ہم 1913ء سے شاید ہی دوچار قدم آگے بڑھے ہوں میرے نزدیک کسی بھی بڑے آدمی کے لیے اظہار سپاس یعنی Tribute پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کے افکار و نظریات کو سمجھا اور ان سے اکتساب فیض کیا جائے تو آئیے اقبال کے اس شعر کی روشنی میں ان کی کچھ نظموں کو پھر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
دل مردہ' دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرض کہن کا چارہ
میں اپنے قارئین کی ذہانت اور ذوق نظر پر یقین کرتے ہوئے ان کی تشریح یا آج کے مسائل کے ساتھ ان کے ''تعلق'' کی وضاحت کے چکر میں نہیں پڑوں گا کہ اس سے بات لمبی بھی ہو جائے گی اور کسی حد تک متنازعہ بھی کہ ہر آنکھ اپنے انداز سے چیزوں کو دیکھتی ہے اور اس کا یہ حق محفوظ رہنا چاہیے۔ نظمیں دیکھئے
اجتہاد
ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذت کردار نہ افکار عمیق
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ محکومئی و تقلید و زوال تحقیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقہیان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
عرصہ حاضر
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ' عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ' لادینی افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطئی افکار سے مشرق میں غلام
طالب علم
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
فنون لطیفہ
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!
مقصود ہنر' سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس' مثل شرر کیا!
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا' وہ گہر کیا!
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا!
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!
نفسیات غلامی
شاعر بھی یہیں پیدا' علما بھی حکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معافی میں یگانہ
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں دم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
نفسیات غلامی (2)
سخت باریک ہیں امراض اُمم کے اسباب
کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی
دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفہ روبا ہی
ہو اگر قوت فرعون کی درپردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی