قدیم دور میں مارخور کے سینگوں سے پہاڑی نہریں کھودی جاتی تھیں

نگر کی وادیاں ہنزہ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں لیکن انہیں ہنزہ کاہی حصہ قرار دے دیا جاتا ہے


محمد صدیق پراچہ January 05, 2020
 مقامی لوگ اپنی سادگی کے باعث نگر کی الگ شناخت اُجاگر نہیں کرپائے، گلگت میں گزرے مہ و سال کا احوال

(قسط نمبر 15)

گلگت بلتستان کے طول وعرض میں درجنوں چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں۔ان سب میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ سبھی بہت تند و تیر دریا ہیں۔ ہر سال گرمیوں میں جب پہاڑوں پربرفیں پگھلتی ہیں تو ان دریاؤں کا پاٹ چوڑا ہوکر کناروں کی زمین کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

تمام دریا پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان اس قدر نشیب میں بہتے ہیں کہ ان سے آبپاشی کا کام لینا ممکن نہیں ہوتا۔اس مقصد کے لئے ہر آبادی کے لوگ جمع ہوکر اپنے گاؤں سے قدرے بلندی پر پہاڑ ی نہر کھودتے ہیں جسے کوہل کہا جاتا ہے۔ پھر ندی یا دریا کے کچھ پانی کا رخ اس کوہل کی طرف موڑ کر پانی کو ایسے طریقے سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے کہ آبپاشی اور پینے کے لئے گاؤں کی ساری آبادی اس پانی سے مستفید ہوسکے۔اس وقت بھی گلگت بلتستان ،چترال، سوات، کوہستان اور شانگلہ کے طول وعرض میں سینکڑوں کوہل ہیں جو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے ہیں۔

ان کوہلوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لئے اب بھی گاؤں کی سطح پر لوگ اکٹھے ہوکر کام کرتے ہیں۔ لیکن نئی پہاڑی کھالوں کی تعمیراور پرانی کی مرمت اور بحالی کے لئے اب حکومت کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہ پہاڑی نہریں مارخور کے سینگوں کی مدد سے پہاڑ کاٹ کر بنائی جاتی تھیں۔ بعد میں جب آمد ورفت کے راستے کھلے اور لوہے سے بنے ہوئے اوزار دستیاب ہوئے تو سنگلاخ پہاڑوں کے سینے چیرنے کا کام قدرے آسان ہوا۔

دریائے سندھ تبت کی جھیل مانسروور سے نکلتا ہے۔ یہ دنیا کا چوتھا طویل ترین دریا جس کی کل لمبائی انیس سومیل (3057کلو میٹر) ہے۔ تبت سے یہ بلتستان کا رُخ کرتا ہے۔ضلع گانچھے میں جب یہ پاکستان کے علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار ایک ندی جتنی ہوتی ہے لیکن جوں جوں یہ آگے بڑھتا ہے تو راستے کے دیگر پہاڑی ندی نالے اور دریا اس میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔

بلتستان میں لداخ سے شروع ہونے والادریائے شیوک کریس کے مقام پراور چو غولنگمہ، بیافو اور بلتورو گلیشیرز سے نکلنے والا دریائے شگر سکردو کے قریب اس کا حصہ بنتے ہیں۔ جب یہ بلتستان میں ایک طویل سفر طے کرکے دنیا کے تین عظیم سلسلہ ہائے کوہ یعنی ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے مقام اتصال پر وادی گلگت میں داخل ہوتا ہے تو دریائے خنجراب، جسے بعد میں دریائے ہنزہ بھی کہتے ہیں اور دریائے نگر جو دریائے گلگت میں شامل ہوچکے ہوتے ہیں۔

دریائے سندھ کے وسیع سینے میں سما جاتے ہیں۔اسی مقام پر دریائے سندھ کا رخ جنوب کی طرف مڑ جاتا ہے۔شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جب یہ دریا تھاکوٹ پہنچتا ہے تو اس سفر میں بلا مبالغہ سینکڑوں چھوٹے بڑے ندی نالے اور دریا شامل ہو چکے ہوتے ہیں۔ گدائی کے ہمالیائی نالے ُجو درہ برزل اور قمری کے برف زاروں کے شفاف پانیوں سے جنم لیتے ہیں' گوری کوٹ پہنچ کر دریائے استور کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔یہ دریا بونجی کے جنوب میں تھیلچی کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ دریائے اشکومن قرمبرگلیشیر سے نکل کر سلپی کے مقام پر دریائے پونیال میں مل جاتا ہے۔ اسی کو دریائے غذر بھی کہتے ہیں۔



تانگیر کی برفوں سے نکلنے والا دریائے تانگیر شتیال کے مقام پر دریائے سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔ شندور جھیل اور اس سے ملحقہ پہاڑوں سے نکلنے والادریائے گوپس معاون ندی نالوں کو ساتھ ملاتا ہوا دریائے یاسین کے ساتھ آملتا ہے اور پھر جب یہ وادی گلگت میں داخل ہوتا ہے تو اس کا نام دریائے گلگت ہو جاتا ہے۔یہ خونی دریا کے نام سے معروف ہے کیونکہ ہر سال کئی افراد 'جن میں زیادہ خواتین شامل ہوتی ہیں' اس دریا میں کُود کر خود کشی کر لیتے ہیں اور اُن کی لاشیں اُن کے اپنے گاؤں اور آبادیوں سے میلوں دور گلگت کے قریب 'جب دریا کا پاٹ چوڑا ہوجاتا ہے' تو پانی میں نمودار ہوتی ہیں۔

ہنزہ اور نگر اب اگرچہ دو اضلاع کے نام ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے یہ دو الگ الگ ریاستوںکے نام ہیں۔جن کے باشندے اپنی گفتگو،حرکات سکنات اور ملنے جلنے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کاوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ہنزہ میں قدرتی خوبصورتی اس قدر نہیں جس قدر اُسے دیومالائی شہرت مل چکی ہے۔

اس کے مقابلہ میں نگر کے علاقہ میں قدرتی خوبصورتی،برفپوش پہاڑوں،گلیشیروں،چشموں،چراگاہوں اور پھلوں کے باغات کی صورت میں بہت زیادہ ہے لیکن نگر کے لوگ فطری طور پر سادہ ہونے کے باعث اپنے علاقے کی خوبصورتی کی صحیح مارکیٹنگ نہیں کر پائے۔ جس کی وجہ سے نگر کی خوبصورت وادیاں ہنزہ ہی کے نام سے ہی پیش کی جاتی ہیں۔ نگر خاص، ہوپر اور ہسپر گلیشیر جیسے علاقے سیاحوں کے لئے بے تحاشہ کشش کے حامل ہیں لیکن چونکہ نگر خاص اور آگے کی خوبصورت وادیوں یا جھیلوں تک جانے کے لئے سیاحوں کو علی آباد اور گینش سے گذر کر جانا پڑتا ہے اس لئے ہنزہ کے لوگ ان علاقوں کو اَپرہنزہ کہہ کر پیش کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ نگر کے اندرونی علاقوں میں جانے والی سڑکیں بہت خستہ حالت میں ہیں۔ ہوٹلوں اور طعام گاہوں کا بھی فقدان ہے اس لئے مقامی ہوں یا غیر ملکی، سیاح نگر خاص ہوپر یا ہسپر تک جا کر اُسی روز علی آباد واپس آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نگر خاص گینش سے چودہ کلومیٹر جبکہ ہوپر گلیشیر انیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر گینش سے تھوڑی دور جاکر دریائے ہنزہ پر ایک پل بنا ہوا ہے۔ اسی پُل سے ایک راستہ دائیں جانب نگر خاص کو جاتا ہے۔

یہ خستہ حال سڑک دریائے نگر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔لینڈ سلائنڈنگ اور گرمیوں میں دریا کے تند و تیز پانی کی زد میں رہنے والی یہ پگڈنڈی نما سڑک بہت کٹی پھٹی ہوئی ہے۔ یہ دریا چونکہ ہوپر اور ہسپر گلیشیروں سے نکلنے والے نالوں کا مجموعہ ہے اس لئے اس کا پانی سیاہ رنگ کا ہے جو دریائے ہنزہ میں مل کر اُس کے صاف شفاف برف جیسے پانی کو بھی سیاہ کردیتا ہے۔ چار پانچ کلو میٹرتک سڑک اور دریا ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔اس کے بعدایک پُل پار کرکے یہ سڑک دریا سے اونچائی کی طرف نگر خاص کی آبادیوں کا رخ کر لیتی ہے۔ نگر خاص کی پہاڑی ڈھلان پر بلندی کی جانب چڑھنے والی سڑک کے دونوں طرف کھیت ہیں اور کھیتوں کے کنارے اخروٹ،خوبانی،سیب اور ناشپاتی کے درخت اس طرح سے کھڑے ہیں کہ پورا راستہ جنت کا ٹکڑا لگتا ہے۔ بعض جگہوں پر پھل دار درختوں کی جگہ سفیدے کے بلند و بالا درخت ماحول کی خوبصورتی میں اور زیادہ اضافہ کر رہے ہیں۔

میں پہلی بار جولائی 2015ء میںاپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہنزہ کی سیر کے بعد نگر کی طرف گیا کیونکہ اُس وقت تک عطا آباد جھیل میں ڈوبنے والی شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو اور راستہ میں بننے والی پانچ سرنگیں مکمل نہیں ہوئی تھیں اور میں اپنے اہل خانہ کو عطا آباد جھیل میں کشتی کے سفر سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ بہر حال نگر خاص کی طر ف بڑھتے ہوئے راستہ میں سڑک کے کنارے لگے خوبانی کے درختوں پر پھل پک چکا تھا۔اور پکی ہوئی خوبانیوں کے بوجھ سے شاخیں سڑک کی جانب جھکی ہوئی تھیں۔ میرے ہمراہ علی حسن ڈرائیورتھا جو نگر کا رہنے والاتھا۔اُس نے ایک ایسی جگہ گاڑی روک لی جہاں خوبانی کے گھنے درختوں کے جھنڈ پکی ہوئی خوبانیوں سے لدے کھڑے تھے اورقریب ہی ایک چھوٹا سا چشمہ بہہ رہا تھا۔ علی حسن نے بہت سی خوبانیاں درختوں سے اُتاریں اور دھو کر ہمیں دیں۔ سفید اور گہرے پیلے رنگ کی یہ خوبانیاں نہایت شیرین تھیں۔ ہوپر پہنچنے تک ہم سب خوبانیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

نگر خاص کم و بیش بیس دیہات پر مشتمل ہے قدیم زمانے کی ریاست نگر کا یہ صدر مقام نگر کے راجہ کی قیام گاہ بھی تھا، جو گرمیوں میں چھلت منتقل ہو جاتا تھا۔ ساری آبادی رعایا ہونے کے ناطے غلام کی حیثیت رکھتی تھی۔پڑھنے لکھنے،علاج معالجے کی سہولیات عنقا تھیں۔ ظلم و جبر سے نجات پانے کے لئے بہت سے لوگ چوری چھپے ریاست سے نکلنے اور گلگت پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ قدیم شاہراہ ریشم پر چھلت ہی کے مقام پر ایک پھاٹک لگا ہوا تھا۔جو کوئی اس پھاٹک کو عبور کرکے گلگت کی طرف جانے کی کوشش کرتا تھا۔اُسے راجہ کی طرف سے مقررکردہ سپاہی گرفتار کرکے واپس نگر پہنچا دیتے تھے۔ ریاست سے نکلنے کی کوشش کرنے والوں کو سزا کے طور پر سخت ترین بیگار کرنا پڑتی تھی۔

نگر خاص کے مرکز میں ایک چھوٹا سا بازار ہے۔ یہیں سے ایک راستہ ہوپر گاؤں اور گلیشیر کے لئے جبکہ دوسرا راستہ ہسپر گلیشیر کی طرف مڑتا ہے۔ ہوپر اور نگر کا درمیانی فاصلہ محض پانچ کلو میٹر ہے لیکن سڑک کچی ہونے کے باعث یہ فاصلہ بہت طویل محسوس ہوتا ہے۔ ہوپر پہنچ کر وادی کی وسعت، خوبصورتی اور سر سبز وشاداب نظارے دیکھ کرساری تھکن دور جاتی ہے۔گاؤں کی آبادی کے ساتھ ہی اونچائی پر وہ مقام ہے جہاں سے نیچے لیٹے ہوئے سیاہ اژدھے کی طرح ہوپر گلیشیرکا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔اس گلیشیرکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ سرعت سے چلنے والا گلیشیر ہے۔گاؤں کی خواتین اپنے گھروں میں جلانے کی لکڑی اسی گلیشیر میں بہہ کر آنے والے درختوں کی شاخوں کو چن کر حاصل کرتی ہیں۔عصر اور شام کے درمیانی وقت میں علاقہ کی خواتین ایک طویل قطار میں لکڑیوں کے بھاری گٹھر اُٹھائے دیکھی جا سکتی ہیں۔

ا س گلیشیر سے چھ سات گھنٹے کی مسافت پر رش جھیل واقع ہے جس کی سیر کے لئے ہوپر پہنچنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاح علی الصبح نکلتے ہیں اور جھیل یاترا کرکے شام تک واپس ہوپر پہنچ جاتے ہیں۔ اگلے ماہ ایک بار پھر ہوپر آنا ہوا کیونکہ یہاں ایک ثقافتی میلے کا اہتمام کیا گیا تھا۔اس میلے میں علاقائی رقص پیش کئے گئے۔

دستکاریاں، قدیم زمانے کے برتن،لباس اور روایتی کھانے پینے کے سٹال خوبصورتی سے سجائے گئے تھے۔اس میلے کی اختتامی تقریب کی کوریج کے لئے میں محمد اسماعیل پروڈیوسر کے ہمراہ ایک روز پہلے پہنچا۔ یہاں تین چار ہوٹل اور پی ڈبلیو ڈی کا ایک ریسٹ ہاؤس ہے جس میں ہمارے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ رات کے کھانے پر میری ملاقات پاکستان زرعی ترقیاتی کونسل کے کچھ ماہرین سے ہوئی جو گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھلوں ، سبزیوں اور دیگر زرعی اجناس کی پیداواربڑھانے کے لئے مقامی کاشتکاروں کے لئے تربیتی ورکشاپس منعقد کر رہے تھے اور اسی سلسلے میں ہوپر آئے ہوئے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ یہاں مخصوص موسمی حالات، آب وہو اور مٹی کی خصوصیات کی وجہ سے سبزیاں کاشت کرنا بہت مفید ہے۔گلگت اور چترال میں زیادہ تر سیب ایک خاص قسم کی مکھی کے ڈسنے کی وجہ سے پکنے سے پہلے ہی گل سڑ کر درختوں سے گر جاتا ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق یہ مکھی اصل میں امرود پر حملہ آور ہوتی ہے۔

میدانی علاقوں سے آنے والے امرود کے ساتھ یہ مکھی گلگت بلتستان پہنچ کر سیبوں کی فصل اُجاڑ دیتی ہے۔اب محکمہ زراعت نے اس مکھی کے نر کو پکڑنے کے لئے ایک خاص ڈبہ تیار کرایا ہے جو باغات میں لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس ڈبے میںنر مکھیوں کو راغب کرنے کے لئے اُن کی خوراک اور ایک مادہ مکھی رکھی جاتی ہے۔نر مکھیوں کے ڈبہ میں بند ہوجانے کی وجہ سے ان کی افزائش نسل رک جاتی ہے۔ میں نے ان ماہرین کا ایک پینل بنا کر اُن سے تفصیلی انٹرویو کیا تاکہ اپنے زرعی پروگرام میں نشر کر سکوں۔

اگلے روز منعقد ہونے والی اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیر تعمیرات و توانائی ڈاکٹر محمد اقبال تھے۔روایتی رقص، رسہ کشی اورتلواروں کے ساتھ رقص کے بعد جب مہمانوں کو خطاب کی دعوت دی گئی تو اچانک موسم اس قدر خراب ہوگیا اور طوفانی ہوا چلنے لگی کہ شامیانے اُلٹ گئے اور سامعین اور مہمانوں کو ریسٹ ہاؤس کے کمروں میں پناہ لینا پڑی۔آدھے گھنٹے کے بعد جب طوفان کی شدت کم ہوئی تو تقریب شروع کی گئی۔ جس کے اختتام پر ایک قریبی ہوٹل میں نگر کے روایتی کھانوںسے مزین ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میںگندم، مکئی اور باجرے کی روٹیوں کے ساتھ دیسی گھی،مکھن،لسی،اُبلا ہوا خستہ گوشت، بھنا گوشت،خوبانی کا شربت،ساگ اور سالن موجود تھے۔ان روایتی کھانوں کے علاوہ دیگر مہمانوں کے لئے پلاؤ بھی تیار کیا گیا تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد ہم نے روانہ ہونے میں تاخیر نہیں کی کیونکہ ہوپر سے گینش تک سڑک کچی ہے۔اگر ہم دیگر مہمانوں کی گاڑیوں سے پیچھے رہ جاتے تو گرد و غبار سے ہمارا حلیہ بگڑ جاتا۔ہوپر فیسٹول کا ذکر ہو رہا ہے تو لگے ہاتھوں خنجراب کے مقام پر منعقد ہونے والے فیسٹول کی روداد بھی آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر کردوں۔



خنجراب گلگت سے 268کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع سطح سمندر سے 4693 میٹر بلند ہے جو چودہ ہزار فٹ کے قریب بنتا ہے۔ گلگت اور ہنزہ کی سیر کے لئے آنے والے تقریباً تمام ملکی اورغیر ملکی سیاح خنجراب دیکھنے ضرور آتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی ہدایت پر سیاحت کے فروغ کے لئے صوبائی حکومت نے جن میلوں کا اہتمام کیا اُن میں ایک میلہ خنجراب کے مقام پر بھی منعقد ہوا۔ جس میں چین کی طرف سے بھیجے گئے ایک ثقافتی طائفہ نے بھی شرکت کی۔اس پروگرام کی کوریج کے لئے میں گلگت سے ایک دن پہلے روانہ ہوا ۔ تاکہ صبح سویرے شروع ہونے والے اس میلے کی خاطر خواہ کوریج کے لئے ہم بروقت پہنچ سکیں۔ یاد رہے کہ خنجراب میں قیام کرنے یا کھانے پینے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ خنجراب کی سیر کے زیادہ تر خواہش مند سوست میں رات قیام کرتے ہیں۔ جو اس راستہ پر پاکستان کی آخری آبادی ہے۔

یہاں پی ٹی ڈی سی کا ایک موٹل اور کئی ہوٹل ہیں۔کسٹمز کی چیک پوسٹ ہو نے کے باعث یہاں مال بردار گاڑیوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہر وقت دیکھی جا سکتی ہے۔جو لوگ پاکستان کے دیگر علاقوں سے خنجراب اپنی گا ڑیوں پر آتے ہیں اُنہیںسوست سے خنجراب جاتے ہوئے اور آتے ہوئے ہر مرتبہ اپنی گاڑیوں میں پورا ایندھن ڈلوا لینا چاہیئے۔دوسری صورت میں جان کے لالے بھی پڑ سکتے ہیں۔

ہم گلگت سے روانہ ہوکر دوپہر بارہ بجے عطا آباد جھیل پہنچ گئے تھے۔ تاکہ اپنی گاڑی کشتی پر لاد کر جھیل کے اُس پار جا سکیں۔ میرے ہمراہ ڈاکٹر شیردل خان پروڈیوسر، اکبر حسین سیلز انچارج، علی حسن ڈرائیور اور سید مبارک شاہ ائر پورٹ منیجر گلگت بھی تھے۔ جنہیں خنجراب فیسٹول دیکھنے کا شوق ہمارے ساتھ لے آیا تھا۔عطا آباد جھیل کے کنارے اپنی گاڑی کو کشتی میں سوار کرانے کے لئے ہمارا نمبر دو بجے آنا تھا۔ میں نے جھیل کے یخ بستہ پانی سے وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے ایک چھپر ہوٹل سے باہر پڑے ایک بڑے پتھر کو اپنی سجدہ گاہ بنایا۔بھوک چمک رہی تھی لیکن عطا آباد جھیل کے کنارے بنے ہوئے ٹرک ہوٹلوں کے کھانوں کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔

اس لئے ہم نے راستہ میں تھول کے مقام پر خریدی ہوئی ناشپاتیوں پر اکتفا کیا اورسب کو ایک ایک بڑی ناشپاتی دے دی۔ سرد موسم میں علی الصح ناشتہ کرنے کے بعد سات آٹھ گھنٹے گذر چکے تھے۔اور یہ بھوک پھلوں سے مٹنے والی نہیں تھی پھر بھی صبر کے گھونٹ بھر کے ہم اپنی کشی میں سوار ہوگئے۔ ہماری پجارو جیپ ایک دوسری کشی میں تھی۔کشتی والے نے اپنے ٹیپ ریکارڈر پر پنجابی ،پشتو اورہندکو کے لوک گیت لگائے ہوئے تھے۔یہ گانے سنتے سنتے سیدمبارک شاہ کو عطا آباد جھیل کے نظارے اس قدر بھائے کہ وہ اپنی خوشی اور سرمستی میں کشی کے عرشہ پر محو رقص ہو گئے۔ پینتالیس منٹ میں عطا آباد جھیل کے دوسرے کنارے پہنچنے پر گاڑی کو کشتی سے اُتارنے میں مزید آدھا گھنٹہ صرف ہو گیا۔

اتنے میں سید مبارک شاہ کو کراچی سے فون آیا اور انہیں ایک اہم دستاویز کو کراچی بھیجنے کی ہدایت کی گئی۔اس پرسید مبارک شاہ رقص بھول کر واپس عطا آباد جانے والی ایک کشتی میں سوار ہوگئے تاکہ واپس گلگت پہنچ کر اپنی ذمہ داری پوری کر سکیں۔ہم سب اُن کی اچانک واپسی پر سخت اداس تھے کیونکہ مبارک شاہ جیسے لوگ کسی بھی محفل اور ماحول کو خوشگوار بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ششکت سے روانہ ہوکر جب ہم گلمت پہنچے تو عصر کا وقت ہوچلا تھا۔اور بھوک سے ہمارا برا حال تھا۔گلمت کے ایک ہوٹل کا رخ کیا جو میر آف ہنزہ کے ایک قریبی عزیز کا ہے۔اپنے قدیم گھر کو ہوٹل کی شکل دینے والے سابق حکمرانوں نے جلدی جلدی کھانا تیار کرایا۔جب مزید پینتالیس منٹ کے بعد کھانا ہمارے سامنے پروسا گیاتو حقیقی معنوں میں لطف آگیا کیونکہ یہ کھانا تازہ ،صاف ستھرااور صحت بخش تھا۔گلمت سے روانہ ہوکر ہم جب سوست پہنچے تو رات چھا چکی تھی۔ سوست کی رونقیں چین کے ساتھ تجارت اور سیاحوں کی آمد ورفت کی مرہون منت ہیں۔2010؁ء سے 2015؁ء کے دوران میں جبکہ عطا آباد سانحہ کی وجہ سے شاہراہ قراقرم کا ایک بڑا حصہ جھیل کی نذر ہوگیا تھا اور چین کے ساتھ ہونے والی تجارت کاحجم بہت سکڑ گیا تھا تو سوست میں بھی ویرانی تھی۔اس فیسٹول کا ایک مقصد گوجال کے علاقہ میں تجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی تھا۔ہماے لئے ایک ہوٹل میں کمرے بک ہو چکے تھے۔اسی ہوٹل میں گلگت سے آئے ہوئے دیگر صحافی حضرات بھی تھے جن سے رات کے کھانے کے موقعہ پر ملاقات ہوئی۔ہم سب اس فیسٹول کی کوریج کے لئے صوبائی محکمہ سیاحت کے مہمان تھے۔



اگلی صبح ہم نماز فجراورناشتہ سے فارغ ہوکر خنجراب کی طرف روانہ ہوئے۔سوست سے آگے خنجراب تک کا علاقہ خنجراب نیشنل پارک کا حصہ ہے۔یہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔اکا دکا خوش گاؤیعنی یاک کے ریوڑ چرتے نظر آتے ہیں۔یا کہیں کہیں آئی بیکس اورمارخور دوربین سے دیکھے جا سکتے ہیں۔کچھ جگہوں پر چرواہوں کی عارضی قیام گاہیں بنی ہوئی ہیں۔سوست سے کافی آگے خیبر نامی ایک بستی ہے ۔جہاں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی چیک پوسٹ ہے ۔ہم کچھ دیر کے لئے یہاں رکے۔اس چیک پوسٹ پر ایک کمرے جتنے بڑے پنجرے میں برفانی شیر (سنولیپرڈ) کا ایک بچہ بند تھا۔جسے محکمہ کے اہلکاروں نے زخمی حالت میں پکڑا تھا۔یہ بچہ برفانی طوفان کی زد میں اپنے والدین سے بچھڑ اور زخمی ہوگیا تھا۔اگر اس چیک پوست کے عملہ کی نظر اس بچے پر نہ پڑتی تو یہ سردی بھوک اور زخموں کی وجہ سے مر جاتا۔یہاں اس کے زخم مندمل ہو چکے تھے۔اور خنجراب فیسٹول کے لئے جانے والے تمام سیاح برفانی شیر کو قریب سے دیکھنے کے لئے یہاں رک رہے تھے۔

اپنے قدرتی ماحول سے دور قید میں ہونے کی وجہ کمزور لگ رہا تھا۔اس کو خوراک میں فارمی مرغیاں اور بچھڑے کا گوشت دیا جاتا تھا۔خنجراب نیشنل پارک 1975؁ء میں قائم کیا گیا تھا تاکہ مارکوپولو شیپ جسے نیلی بھیڑ بھی کہا جاتا ہے،آئی بیکس جسے کیل کہا جاتا ہے اور مارخور کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو تحفظ دیا جا سکے۔ریاستی دور میں کسی قاعدے قانون کی پاسداری نہیں کی جا تی تھی۔حکمران خاندان کے لوگ ہوں یا انگریز پولیٹکل ایجنٹ اور فوجی افسر،جب بھی کوئی شکار کے لئے نکلتا تو درجنوں جانور بے دریغ مار دیئے جاتے۔رفتہ رفتہ یہ تمام منفرد جاندار معدومی کے خطرے سے دوچار ہوتے گئے۔

جو رہے سہے تھے وہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران میں چینی تعمیراتی کمپنیوں اور ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کی خوراک بننے لگے۔جب صورت حال انتہائی سنگین ہوگئی تو حکومت نے 1975؁ء میں خنجراب نیشنل پارک قائم کیا۔معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کے تحفظ کے لئے پانچ گیم سینکچوریز اور نو گیم ریزرو ایریاز بنائے۔وائلڈ لائف ایکٹ بنایا گیا۔لیکن 1977؁ء میں جمہوری حکومت کی جبری رخصتی کے بعد آمرانہ دور میں غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہی بنائے قوانین پس پشت ڈال کر شکار کرائے گئے۔اب ان میں اپنی قدرتی عمر کو پہنچ جانے والے جانوروں کے شکار کے لئے ہر سال لائسنس نیلام کیا جاتا ہے۔اور ہونے والی آمدنی میں سے اسی فیصد رقم علاقہ کی ترقی اور اجتماعی کاموں پر صرف کی جاتی ہے اور باقی بیس فیصد حکومت لیتی ہے۔یہ نیلامی ایک لاکھ ڈالر اور اس سے زائد رقم کی ہوتی ہے۔سال رواں میں چترال ،استور اور ہنزہ میں ٹرافی ہنٹنگ کے سلسلہ میں تین امریکی شکاریوں سے تقریباً چار لاکھ ڈالر وصول کئے گئے۔

سوست سے روانہ ہونے اور خیبر میں کچھ دیر رکنے کے بعد تقریباسوا گھنٹہ میں ہم خنجراب پہنچ گئے۔پاکستان اور چین کی سرحد کے نقطہ ا تصال پر ایک خوبصورت دروازہ چین نے تعمیر کیا ہے۔اس کی برجیوں میں چین کے سرحدی سپاہی تعینات ہیں۔اس دروازے سے کچھ دور ایک بڑے میدان میں پنڈال سجایا گیا تھا۔جس میں گوجال کے ہر علاقہ کے علاوہ گلگت سے آئے ہوئے لوگوں نے اپنے اپنے سٹال لگائے ہوئے تھے۔جن پر زرعی اجناس، سبزیاں، خشک اور تازہ پھل، دستکاریاں، قیمتی پتھر، جڑی بوٹیاںاور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کے لئے رکھی گئی تھیں۔کریم آباد، علی آباد، نگر، گینش، چپورسن، خیبر، گلمت، ششکت، شمشال، حسینی،پسواور گوجال کی دیگر آبادیوں سے عورتیں،بچے،بوڑھے اور جوان آئے ہوئے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر اپنے روایتی ملبوسات پہنے ہوئے تھے۔فروخت کے لئے رکھا گیا سارا سامان خواہ وہ مقامی طور پر پیدا ہو نے والے پھل اور سبزیاں ہی کیوں نہ ہوں،انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جا رہا تھا۔بکریوں کے بالوں سے بنے ہوئے نمدے بہت ہی خوبصورت تھے لیکن اُن کی قیمت سُن کر پیچھے ہٹنا پڑا۔کیونکہ ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے دس ہزار روپے طلب کئے جارہے تھے۔(بعد میںیہ نمدہ لینے کی خواہش اللہ رب العزت نے اس طرح پوری کی کہ گلگت سے اسلام آباد تبادلہ کے وقت واجد علی سینئر پروڈیوسر نے اپنے والد بزرگوار کے ہاتھوں سے بُنا ہوا ایک نمدہ مجھے تحفہ میں دے دیا۔

واجد علی آپ کا بہت شکریہ ) اس نمائش گاہ سے کچھ دور ایک اور پنڈال بھی بنایا گیا تھا۔جس کے درمیان میںتماشہ گاہ تھی۔اردگرد مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔چین سے آئے ہوئے طائفہ نے اسی جگہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔اس پنڈال سے متصل ایک پہاڑی ڈھلوان پر مقامی لوگوں کے بیٹھنے کے لئے انتظام کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ دوسرے رخ پر کرسیاں ،صوفے اور میز رکھے گئے تھے۔چین سے آئے ہوئے ثقافتی طائفے کی سربراہی کاشغر کے ڈپٹی کمشنر محمد امین بقری کررہے تھے۔جبکہ پاکستان کی نمائندگی کے لئے ہنزہ کے ڈپٹی کمشنر کے علاوہ چند صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔دو اڑھائی گھنٹہ جاری رہنے والے اس ثقافتی شو میں مقامی فنکاروں نے بھی رقص اور گیت پیش کئے اور رسہ کشی کامقابلہ کیا۔چین کا طائفہ بارہ مردوں اور اتنی ہی خواتین پر مشتمل تھا۔



تقریب ختم ہوتے ہی ہم واپس روانہ ہوگئے۔ سوست پہنچتے پہنچتے ہم تھکن اور بھوک سے بے حال ہوچکے تھے۔فوری طور پر ہوٹل جاکر تھوڑا بہت کھانا کھایا اور آرام کیا ۔دو گھنٹے کے آرام کے بعد ہم ایک دوسرے سے بات کرنے اور کچھ کہنے سننے کے قابل ہوئے۔چین کے ثقافتی طائفہ کے لئے سوست اورگلمت میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔سوست کے ہائی سکول میں منعقدہ تقریب کی ریکارڈنگ کرنے کے بعد اگلے روز ہم گلگت واپس پہنچے۔

خنجراب میں ایک عام صحت مند انسان دو گھنٹے سے زائد وقت نہیںگذار سکتا ہے۔ جس کو شوگر،بلڈپریشر ،دمہ ،سانس کی تکلیف یا دل کا مرض ہو اُس کے لئے خنجراب نہ جانا بہتر ہے ۔میرا ایک دوست محمد اشرف بیس بائیس برس کی عمر میں چین جانے کے لئے کوہاٹ سے گلگت اور پھر خنجراب گیا تھا۔ وہ ذیابیطس کا مریض تھا۔راستہ میں خنجراب کے قریب اُس کی حالت خراب ہوئی اور امداد کے ملنے سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کرگیا تھا۔بلندی پر جی متلانے کا بہترین حل خشک خوبانی ہے جسے ایسے مقامات پر ساتھ رکھنا چاہیے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں