جیل میں یوں گزرتی ہے
آگے حمید اختر کی جیل یاترا پڑھی تھی۔ شاید اس کا بھلا سا نام تھا۔ شاید کال کوٹھری۔ وہ سب ٹھیک ہے۔۔۔
آگے حمید اختر کی جیل یاترا پڑھی تھی۔ شاید اس کا بھلا سا نام تھا۔ شاید کال کوٹھری۔ وہ سب ٹھیک ہے کہ بقول شاد عارفی دال ملتی ہے جیل خانے میں۔ مگر کیسی دال، یہ حمید اختر سے پوچھیے۔ اب ہم عبداللہ ملک کی جیل یاترا پڑھ رہے ہیں۔ یہاں مرغن کھانے ہیں، پھر پھل فروٹ، سب سے بڑھ کر آم۔ بتاتے ہیں کہ جیل میں جتنے آم کھانے کو ملے ہیں اتنے جیل سے باہر کبھی کاہے کو کھائے تھے۔ بات یہ ہے کہ وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ؎
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اور یہاں تو دیوانوں کی ایک پلٹن تھی اور دیوانوں کا برانڈ ملاحظہ ہو، میاں محمود علی قصوری، فاروق لغاری، اعتزاز احسن۔ جس کلاس سے یہ بزرگ تعلق رکھتے تھے انھیں وہی کلاس ملتی تھی۔ گھروں سے مرغن کھانوں کے خوان آتے تھے۔
بہرحال جیل پھر جیل ہے اور جیل کس تقریب سے گئے تھے۔ بس یوں سمجھیے کہ جب مشرقی پاکستان میں قیامت اٹھی ہوئی تھی تو اس خلقت کے حق میں آواز اٹھانے پر دھرلیے گئے۔ قید کی سزا اب سے پہلے بھی بھگت چکے تھے، لیکن بقول آئی اے رحمن ''یہ قید مختلف تھی۔ اچھی کلاس ملی ہوئی تھی۔ ساتھی قیدیوں میں احباب کی خاصی تعداد موجود تھی۔ گھر سے ملنے والے آ جاتے تھے۔ ضرورت سے زیادہ اچھا کھانا بھی میسر آ جاتا تھا۔ لیکن قید بہرحال قید ہوتی ہے۔''
اس قید کا ایک منظر جو آئی اے رحمن نے دیکھا وہ ملاحظہ فرمائیے۔ ''کرنل عقیل کے ہمراہ تھانہ مغل پورہ کی حوالات کی زیارت ممکن ہو گئی۔ دیکھا کہ مٹی کے مخملی فرش پر عبداللہ ملک بظاہر آرام سے محو خواب ہیں۔ جیسے حوالات نہیں کسی فائیواسٹار ہوٹل میں استراحت فرما رہے ہیں۔ یہ عبداللہ ملک کی شخصیت کا اہم پہلو تھا کہ ان میں اپنے اقوال اور اعمال کے نتائج خوش دلی سے برداشت کرنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود تھی۔''
اس صلاحیت کے زور ہی پر تو انھوں نے جیل میں وقت ہنسی خوشی گزارا اور دفتر کے دفتر لکھ ڈالے۔ ڈائری لکھنے کی عادت پہلے سے چلی آتی تھی۔ وہ عادت یہاں بہت کام آئی، جیل کا کیا خوب روزنامچہ لکھا ہے۔ جیل کی صعوبتوں کا ذکر کم سے کم ہے۔ آسائشوں کا ذکر کس خوش دلی سے کیا ہے اور روزنامچے میں اس پُرآشوب زمانے کا احوال کس خوبی سے لکھا ہے۔ نثر میں نظم کے موتی بھی پروتے چلے گئے ہیں۔ ہم پڑھ کر حیران ہوئے کہ خالی غالبؔ نہیں کس کس شاعر کے شعر بلا تکلف وارد ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ میرؔ، نظیرؔ اکبر آبادی، داغؔؔ، فراقؔ، حفیظؔؔ جالندھری، مگر کمبخت حافظہ بیچ بیچ میں دغا دے جاتا ہے۔ شعر کبھی صحیح کبھی پورا مصرعہ یاد نہ آیا تو اپنی طرف سے ٹکڑا لگا دیا لیکن مجبوری تھی۔ مقید بیٹھے تھے۔ تصحیح کیسے کرتے۔ لیکن ہم سوچ رہے تھے کہ اس عزیز کو پرانے غزل گو ہی یاد آ رہے ہیں۔ ایک سے بڑھکر ایک رجعت پسند۔ بڑی مشکل سے جانثار اختر کے دو ڈھائی شعر وارد ہوئے تو ہم نے اطمینان کا سانس لیا کہ ملک صاحب اپنے ترقی پسند شاعروں سے بے خبر نہیں ہیں۔
عبداللہ ملک ایک معاملہ میں سب ہمسفروں سے بازی لے گئے۔ جیل تو باری باری کتنے ہمسفر گئے۔ کوئی آج گیا کوئی کل گیا لیکن یہ ہوش مندی صرف اس عزیز کے حصے میں آئی کہ جو گزر رہی ہے اسے قلم بند بھی کرتے جائو۔ اس بہانے پورے عہد کی داستان لکھی گئی اور پھر یہ اہتمام کہ انھیں مرتب کرو۔ خود کرو اور خود سارا دفتر نہ سمیٹ سکو تو کسی کا تعاون حاصل کرو۔ ایم آر۔ شاہد ان کی زندگی ہی میں ان کے معاون بن گئے تھے۔ آدمی محنتی ہیں۔ اپنا تحقیقی کام بھی کتنا کچھ کر رکھا ہے۔ قبرستانوں کے سیاح ہیں۔ لاہور کے قبرستانوں سے گزر کر اسلام آباد کے قبرستانوں کی بھی خاک چھان ڈالی۔ اہل قبور کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا اور جلدوں کی جلدیں مرتب کر ڈالیں۔ اب عبداللہ ملک کے بکھرے دفتروں کو سمیٹ رہے ہیں۔ کتنی جلدیں مرتب کر ڈالی ہیں۔ کتنی مرتب کرنی ہیں۔
اس سے اندازہ کیجیے کہ انھوں نے اپنے عہد کو کس طرح سمیٹا ہے۔ حمید اختر تو اپنی ایک یاترا بیان کر کے نبٹ گئے۔ ہم نے ان سے کتنی مرتبہ کہا کہ بھائی تم ترقی پسند تحریک کا آخری چراغ ہو۔ گل ہونے سے پہلے اس کی داستان لکھ ڈالو۔ مگر جتنا لکھا کالموں کی صورت لکھا۔ اب جب آنے والے مورخ اس کی تحریک کے بارے میں لکھیں گے تو ہر پھر کر وہ عبداللہ ملک ہی سے رجوع کریں گے اور ان کے بیان پر اعتبار کرنا پڑے گا۔
یہاں جو جیل کا احوال رقم ہوا ہے تو یہ تو دوسری قسط ہے۔ ایک جلد پہلے آ چکی ہے اور ابھی جلدیں آنی ہیں۔ جیل کے اندر باہر کا احوال اس طرح رقم کیا ہے کہ پورے عہد کی داستان رقم ہوتی نظر آتی ہے اور رہی جیل کی زندگی تو اس کا نقشہ گھڑی گھڑی بدلتا ہے۔ کتنے یار غار اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اچھی خاصی محفل آراستہ ہو گئی ہے مگر؎
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
مگر اے لو پوری ایک کھیپ یہاں سے مختلف جیلوں میں منتقل کر دی گئی اور اب عبداللہ ملک پر جو گزر رہی ہے وہ سنیے:
''اب کون جانے کہ اب یہ گرمیوں کی پہاڑ جیسی دوپہر کاٹے نہیں کٹتی۔ اب وہ بحثیں کہاں گئیں، اب وہ برج کی چوکڑی کیسے بکھر گئی۔ اب صبح کی چائے اور وہ قصرِ صدارت۔ اس میں محمود علی کی گونج اور میرا نعرہ اے ساکنان قصر صدارت السلام و علیکم۔ بیداری کا وقت اپنا اور پھر رائو رشید کا بیدار ہونا۔ رحمن کا مسکراتا ہوا چہرہ۔ یہ سب ذہنی طور پر قصۂ پارینہ بن گئے ہیں۔ اب بھی صبح کی سیر ہوتی ہے لیکن اب یہ سیر نہیں۔ یہ جبر ہے۔ یہ کوفت ہے؎
وہ جو گزرے تھے داغؔؔ پر صدمے
اب وہی کیفیت سب ہی کی ہے
نہیں، ہم نے یہ شعر یوں سنا اور پڑھا ہے
جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
مگر کیا کیا جائے۔ حافظہ ایسی فضا میں ایسے ہی کھیل کھیلتا ہے۔
''ہاں میاں عمر قصوری نے ایم آر ڈی کے جلسہ کی روئیداد کا جو ذکر سنایا اس نے شیخ رشید کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ رشید ایم آر ڈی کا جلسہ کرنا چاہتے تھے لیکن میاں محمود علی اس کے مخالف تھے۔ شیخ رشید نے اصرار کر کے وہ اجلاس کروایا۔ جب اس کے لیے شرکاء پہنچے تو خیرالدین، صاحبزادہ محمود علی کے گھر سے نکلے تو جو پولیس ان کا پیچھا کر رہی تھی وہ پیچھے ہو لی۔ وہ شیخ رشید کے گھر پہنچے۔ لیکن جب یہاں دوسرے زعما بھی پہنچنا شروع ہو گئے تو پولیس کا ماتھا ٹھنکا۔ جیپ میں ہی نصب شدہ وائرلیس کے ذریعے انھوں نے مطلع کیا اور پولیس نے چھاپہ مار کے سب کو گرفتار کر لیا۔''
آگے ملاحظہ کیجیے ''فراقؔ گور کھپوری کی تازہ غزل کے دو اشعار ادب لطیف جولائی 81 میں بہت پسند آئے
رخصت اے عہد کہن کہ ترا
ہو گیا جام زندگی لبریز
دیکھ رفتارِ انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز
بس اسی رنگ سے روزنامچہ لکھا گیا ہے اور جو اچھی بری گزرتی ہے اسے قلمبند کیا جاتا ہے۔ مزنگ روڈ پر 37 نمبر کی کوئی جگہ ہے۔ دارالشعور نام کا ادارہ۔ اس نے یہ کتاب شائع کی ہے۔