خدا اور وصال صنم

ایک آدمی نے شادی کے لیے عجیب وغریب شرط رکھی۔ اسے ایسی لڑکی چاہیے تھی جو اٹھارہ سال کی بھی ہو ...


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate November 03, 2013
[email protected]

ایک آدمی نے شادی کے لیے عجیب وغریب شرط رکھی۔ اسے ایسی لڑکی چاہیے تھی جو اٹھارہ سال کی بھی ہو اور اس نے ایم اے کیا ہو۔ اسے بے وقوفی ہی کہا جاسکتا ہے۔ جو لڑکی سولہ جماعتیں پاس ہو وہ اتنی کم عمر کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر کوئی بچی دو سال کی عمر میں ہی پہلی کلاس پاس کرے وہی اٹھارہ سال کی عمر میں ماسٹرز کرسکتی ہے۔ وہ آدمی تو بے وقوف تھا لیکن ہم پاکستانی تو بے وقوف نہیں کہ ہمیں ایک وقت میں ایک ہی چیز ملے۔ منتخب حکمران ہوں تو اسمبلیاں ملتی ہیں اور فوجی جنرلز ہوں تو بلدیاتی ادارے، ہماری حالت اتنی بری بھی نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ''خدا ہی ملا نہ وصال صنم'' ہمیں ایک وقت میں ایک چیز ملتی رہی ہے۔ پاکستانی یہ شکایت نہیں کرسکتے کہ ہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ بھٹو اور شریف کے ماننے والے حکومت میں آتے ہیں تو وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور سینیٹ ہوتی ہیں، کوئی طعنہ نہیں دیتا کہ جمہوریت نہیں ہے، ایوب، ضیاء اور مشرف ہوں تو ڈنڈے کی حکمرانی کا طنز تو سنتے ہیں لیکن بلدیاتی ادارے قائم ہوجاتے ہیں۔ اب ہم اس نادان آدمی کی طرح تو بالکل نہیں ہیں جو اعلیٰ تعلیم اور کم عمر ساتھ طلب کرتاہے۔ ہم اگر جمہوریت کی تینوں حکومتیں یعنی قومی، صوبائی اور بلدیاتی یا تھری ان ون ایک ساتھ مانگتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں۔

سیاست دان اور وہ بھی پاکستانی روایتی سیاست دان بڑے چالاک ہیں۔ وہ کسی صورت میں اپنا اختیار دوسروں کو دینے کے لیے تیار نہیں، وہ پیسے اور پاور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ٹال مٹول جاری ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ 12دسمبر کو پاکستان کے چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوجائیںگے تو ہم اپنی من مانی کرسکیںگے۔ اسی خوش فہمی کو لے کر ایک کے بعد دوسرے بہانے تراشے جارہے ہیں۔ پنجاب میں تو غیر جماعتی انتخابات کا قانون بناکر لوٹوں کی فیکٹری کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ سندھ کے دیہی حکمران شہریوں کے حوالے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ بلوچستان میں کابینہ ہی اتنی تاخیر سے بنی ہے اور ہمیشہ کی طرح سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹنے کا خطرہ منڈلارہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اختیارات کو نچلی سطح پر لے جانے کی سنجیدہ کوشش تاخیر کا شکار ہورہی ہے۔ سیاست دان کبھی بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کا ریکارڈ قائم کررہے ہیں، ان کی تاریخ تو یہی کہتی ہے۔

پاکستان کے قیام کے نو سال بعد تو آئین بنا اس دوران ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ سیاست دانوں نے کبھی عوام پر اعتماد نہیں کیا، وہ چاہیںگے تو اقتدار میں رہیںگے یا گھر پر رہیںگے۔ غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے قابل افسران بھی اقتدار میں آئے تو اسے چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے اور ذلیل ہوئے، ایک نے وزیر اعظم و اسمبلی برخاست کی تو دوسرے نے آئین ہی توڑ دیا۔ یوں ایک باوردی افسر نے پاکستان میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی۔

ایوب خان نے بڑے بڑے سیاست دانوں کو میدان سے باہر کردیا۔ فوجی جنرل نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام قائم کیا جسے بی ڈی سسٹم کا نام دیاگیا۔ ان گلی محلے کے کونسلرز کو بھی ان ہی کے ووٹوں کا مرہون منت تھا۔ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں۔ غریب غربا اور غنڈے نما منتخب نمائندوں نے انوکھا کام کیا۔ وہ پیسہ بناکر سیاست سے تائب ہوگئے۔ چھوٹی موٹی دکان کھول کر وہ کاروباری بن گئے جب ایوان کو بڑے سیاست دانوں کی ضرورت پڑی تو یہ بی ڈی ممبران غائب ہوگئے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاست دان ان فوجی آمروں پر اپنے مقاصد کے لیے بلدیاتی انتخابات کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔ عظیم المیہ یہ ہے کہ وہ خود کبھی جمہوریت کو گھاس کی جڑ تک نہیں لے جاتے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو ساڑھے پانچ سال تک حکومت میں رہنے کا موقع ملا، کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں گئی کہ اقتدار کو عوام کی نچلی سطح تک منتقل کیاجائے۔ مقبولیت کے باوجود پیپلزپارٹی کی ذہین اور اعلیٰ دماغ قیادت کو اس طرف توجہ دینے کا موقع نہ ملا۔ اپوزیشن کی طرف سے بھی ایسا کوئی مطالبہ نہ کیا گیا۔ وہ بھی جانتے تھے کہ اسی طرح وہ اسمبلیوں میں آنے کے لیے گلی محلے کے کونسلرز کی حمایت کے محتاج ہوجائیںگے۔ یوں بھٹو جولائی 77میں اقتدار اور اس کے پونے دو سال بعد زندگی سے محروم کردیے گئے۔ ایک جمہوری دور بغیر کوئی بلدیاتی انتخابات کروائے اپنے اختتام کو پہنچا۔

جنرل ضیا جیسے ''خطرناک'' آمر نے تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات کرواکر ہیٹ ٹرک کی۔ پاکستان کا ''ظالم'' حکمران ہر چار سال بعد باقاعدگی سے انتخابات کرواتا رہا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے چھ ماہ بعد ملک بھر میں بلدیاتی ادارے موجود تھے۔ 83میں ایم آر ڈی کی عمر دو سال ہوچکی تھی۔ حزب اختلاف بڑی حد تک متحد تھی۔ اس کے باوجود آمر مطلق نے عوام کو یہ سبق دینے سے پہلوتہی نہ کی۔ جب تیسرے بلدیاتی انتخابات کا موقع آیا تو جونیجو کی حکومت ڈھائی سال کی ہوچکی تھی اور بے نظیر کو پاکستان آئے ڈیڑھ برس بیت چکا تھا۔ لبرل اور سیکولر طبقے کا ناپسندیدہ حکمران ہیٹ ٹرک کر گیا۔ اخبارات کے صفحات ان دانشوروں کے قلم سے آمر کے اچھے کاموں کی تعریف پڑھنے کو ترس گئے ہیں۔ رائٹ ونگ کے کالم نگار جس سنجیدگی سے بھٹو کے اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں تو بائیں بازو کے قلم کاروں کو بھی اس ظرف کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آمر اپنے فائدے کے لیے ہی سہی بلدیاتی انتخابات کرواتے ہیں۔ منتخب جمہوری نمائندے یہ کام نہ کرکے ایک قسم کا تاریخی کریڈٹ اور ایڈوانٹیج برسر اقتدار رہنے والے جنرلز کو دے چکے ہیں۔

بے نظیر اور نواز شریف نے دو دو مرتبہ پاکستان پر حکومت کی۔ 88سے 99کے گیارہ سال میں پاکستان ہر قسم کے بلدیاتی انتخابات سے ''پاک'' نظر آتاہے۔ اس وقت کے دونوں نوجوان حکمرانوں کو ڈکٹیٹر کے کرائے گئے بلدیاتی نمائندوں کو اپنے پہلے دور میں جھیلنا پڑا۔ جیسے ہی ان کی مدت پوری ہوئی تو وہ آزاد ہوگئے۔ دونوں لیڈروں کا دوسرا دور حکومت ہر نوعیت کے بنیادی نمائندوں سے آزاد رہا کہ پھر ایک آمر برسر اقتدار آگیا۔

مشرف نے اقتدار میں آتے ہی 2001 میں انتخابات کروائے چار سالہ مدت پوری ہونے پر دوسرے انتخابات ہوئے جب فوجی وردی والا آمر رخصت ہوا تو سوٹ و شیرانی والے جمہوریت پسند برسر اقتدار آئے، انھیں اپنی پانچ سالہ میعاد مکمل کرنے پر فخر رہا لیکن بلدیاتی انتخابات نہ کروانے پر کوئی پریشانی نہ ہوئی، سندھ اگر بہانے ڈھونڈتا رہا تو پنجاب مختلف حیلے پیش کرتارہا، خیبر کی چشم پوشی کا سبب کچھ اور تھا تو بلوچستان کی نظر اندازی کا جواز کچھ اور۔

خوبصورت آدمی اگر بد اخلاق ہو اور بد صورت آدمی بااخلاق۔ شکل وصورت کو اچھا کرنا ایک خوش اخلاق کے لیے ممکن نہیں لیکن ہینڈسم آدمی کو اچھا رویہ اختیار کرنے سے کس نے روکا ہے۔ فوجی آمروں کے لیے عوامی حمایت ممکن نہیں کہ وہ مقبول عام رہنما بن جائیں لیکن منتخب جمہوری نمائندوں کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ قومی وصوبائی حکومتوں کے بعد عوام کو بلدیاتی حکومتوں سے محروم رکھیں۔ ایک بے وقوف آدمی شادی کے لیے اٹھارہ سالہ ایم اے پاس لڑکی تلاش کرتاہے تو غلط ہے۔ اگر ہم پاکستانی جمہوری حکمرانوں کے دور میں حقیقی بلدیاتی انتخابات کی توقع رکھتے ہیں تو یہ بالکل درست ہے۔ ہم اتنے گئے گزرے نہیں کہ ہمیں خدا بھی نہ ملے اور وصال صنم سے بھی ہم محروم رہیں۔ ہمیں ایک وقت میں ایک چیز ملتی رہی ہے آمروں نے بلدیاتی انتخابات کروائے تو منتخب لیڈروں نے ادھوری جمہوریت دی اب ہم پاکستانیوں کو دونوں چیزیں چاہئیں دونوں یعنی خدا اور وصال صنم۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں