ہائی پروفائل کیس

ہمارے ملک میں جب بھی کسی ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ سامنے آتا ہے، پوری قوم ایک لڑی میں پروئی نظر آتی ہے


جب سے یہ فیصلہ سامنے آیا ہے سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

17 دسمبر 2019 کو جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے کیس کا فیصلہ ٹی وی اسکرین پر آنے کے بعد مختلف الخیال لوگوں کے تبصرے اور سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹوں کی بھرمار کے پیش نظر میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ملک کا لٹریسی ریٹ شاید سو فیصد کو بھی کراس کرگیا ہے۔ مجھے ہر آدمی ایک وکیل اور ہر آدمی ایک جج لگنے لگا اور مجھے ان وکلا اور ان ججوں کی قابلیت پر ترس بھی آنے لگا کہ دیکھو یہ ذرا سا کیس تھا جس کو ہمارا ایک عام آدمی بھی چٹکی بجاتے حل کرسکتا تھا اور فوراً فیصلہ بھی صادر کرسکتا تھا، لیکن اتنے معزز جج اور وکلا اس کیس کے فیصلے تک تقریباً چھ سال قانون کی جنگ لڑتے رہے۔

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق شرح خواندگی تقریباً 58 فیصد ہے اور ان میں وہ سارے لوگ بھی شامل ہیں جو صرف اپنے دستخط کرنے کی حد تک ہی خواندہ ہیں۔ جن کو آپ باقاعدہ خواندہ کہہ سکتے ہیں ان کی شرح کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اور اگر آپ اعلیٰ تعلیم کی بات کریں تو پھر شاید یہ شرح انگلیوں پر گنی جاسکے۔ لیکن شاباش ہے ہماری قوم کو کہ آپ کسی اَن پڑھ سے بھی کسی بھی بات پر تبصرہ کرالیجئے، آپ کو لگ پتہ جائے گا۔ آپ کو ہر گلی، محلے اور دکان پر ایک سے بڑھ کر ایک معیشت دان، قانون دان، اکاؤنٹنٹ، ڈاکٹر، حکیم حتیٰ کہ اعلیٰ پائے کے جج بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں جب بھی کسی ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ سامنے آتا ہے، پوری قوم ایک لڑی میں پروئی نظر آتی ہے اور وہ لڑی ہوتی ہے وکلا اور ججو ں کی۔ آپ کو کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ملے گا جو وکیل سے کسی صورت میں کم لیول کی بات کررہا ہو۔ کچھ تو ایک قدم مزید آگے ہوتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں ان ججوں کو کچھ پتہ نہیں، اس کیس کا فیصلہ ایسے نہیں ایسے ہونا چاہیے تھا۔ کچھ دانشور قسم کے عوام کیس لڑنے والے وکیلوں کی قابلیت اور لیاقت پر تبصرے کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین اپنے اپنے مفادات کو دیکھ کر بیانات دیتے ہیں اور پھر ان کے سپورٹرز جن کو آئین اور قانون کی الف ب سے بھی آگاہی نہیں ہوتی، وہ اپنی اپنی پارٹیوں کے بیانیے کو اس طرح آگے پھیلاتے ہیں کہ بس اس پر کیا کہا جائے۔

ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہر شعبے کے ماہرین بھی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک پارٹی کے حامی سپورٹرز، وکلا، ڈاکٹرز، مولوی، کھلاڑی اور فنکار صرف وہی زبان بولتے نظر آتے ہیں جو ان کا لیڈر بولتا ہے۔ چاہے وہ درست ہے یا غلط۔۔ حالانکہ وکالت ایک پروفیشنل کام ہے، جو ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ ایک جج کے فرائض سرانجام دینا بھی کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ اس کےلیے آپ کو پاکستان کے آئین، قانون، پس منظر، پیش منظر کے علاوہ کئی دیگر لوازمات کا ازبر ہونا بہت ضروری ہے۔ مگر مجال ہے جو کوئی اس بات کو سمجھے۔ ہم نے تو بس ایک تھرتھلی مچانی ہوتی ہے، وہ ہم مچا دیتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ہم اپنی اس مہم میں تشدد کا عنصر بھی شامل کردیتے ہیں۔

جب سے یہ فیصلہ سامنے آیا ہے، آپ ٹی وی پر دیکھ لیجیے یا چاہے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ آخر میں سوشل میڈیا پر برپا طوفان بدتمیزی کو دیکھ لیجئے اور پھر اندازہ لگائیے کہ ہمارا لٹریسی ریٹ کیا ہے اور اگر ایک اندازے کے مطابق یہ 58 فیصہ لکھا ہوا ہے، تو کیا ہم اس کے عشر عشیر کے برابر بھی اپنے آپ کو ثابت کرنے کامیاب ہورہے ہیں۔

جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو جو سزا دی گئی، اس کی ٹیکینکل باتوں کا ہمیں علم نہیں۔ وہ غداری کے مرتکب ہوئے یا نہیں اور ان پر جو الزامات تھے، وہ ثابت ہوئے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ ہم نے نہیں بلکہ اس کام کےلیے بنائی گئی معزز عدالت کے معزز ججوں نے کرنا ہے، جو انہوں نے کردیا۔ اب کسی کو اس سے اختلاف ہے تو اس کےلیے قانون میں دیا گیا طریقہ کار اپنا کر وہ اپنی بات آگے چلا سکتے ہیں۔ مختلف وکلا کا اس فیصلے پر مختلف الرائے ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، لیکن وہ قانون دان ہیں اپنی رائے دے سکتے ہیں کہ ان کی مہارت یہ بات کہتی ہے۔ اس کے باوجود وہ بھی فیصلے کی توہین کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ تو پھر کیا ہر آدمی جو چاہے کہتا پھرے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اور اس کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہ جاری رہے تو ہر مجرم اپنے سنہری ماضی کی بنیاد پر باعزت بری ہونے کی درخواست کرے گا تو اس کا منطقی انجام کیا ہوگا؟

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملک کا آئین اور قانون سب سے مقدم ہے، جس کو جو کام کرنا ہوگا اسی آئین اور قانون کے تابع رکھ کر کرے تو ٹھیک، ورنہ اس کو قانون و انصاف کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے، تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اب اس میں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ سیاستدان ہے، بیوروکریٹ ہے، فوجی ہے، مولوی ہے، قانون دان، جج ہے یا ایک عام شہری ہے۔ آئین و قانون توڑنے پر کسی کو یہ کہہ کر نہیں چھوڑا جاسکتا کہ اس کا ماضی ایسا ہے، اس نے یہ کیا، وہ کیا۔ ظاہر ہے اگر کسی نے ماضی میں اچھا کیا تو اس کا صلہ اس کو مل گیا، اب کیا کسی کے ماضی کو بنیاد بنا کر آئندہ کے جرائم سے نظرپوشی تو نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اس میں ایک بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

اگرچہ ایسا تو ابھی مستقبل قریب میں بھی ممکن نہیں کہ ہمارے ملک میں جس کے مفادات پر زد پڑے یا اس کے خلاف فیصلہ آئے تو وہ اس کو مان لے اور اس کو ناانصافی اور دھاندلی سے تشبیہ نہ دے۔ خیر ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔ لیکن یہاں یہ کام تو کیا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر ایسے طوفان بدتمیزی کو تو روکا جائے جس میں صاف لفظوں میں توہین عدالت کی جارہی ہے اور الفاظ اور القابات کی کئی نئی ڈکشنریاں تیار کی جارہی ہیں۔ جن میں آج محفوظ ہونے والے الفاظ مستقبل کے اختلافات میں کھلے عام استعمال ہوں گے۔ سیاسی پارٹیوں سے بھی درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ سارے اپنے اندھے پیروکاروں کو تھوڑے صبر کی تلقین کریں اور ملک اور معاشرے کے ماحول کو رہنے کے قابل رہنے دیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اگر ہر بندہ ڈاکٹر، وکیل، بیوروکریٹ اور جج ہوتا تو دنیا کا نظام کیسے چلتا۔ اس لیے اپنے کام پر دھیان رکھیں اور اس کو ایمانداری سے سرانجام دیں تو اس ملک کا کچھ بھلا ہوجائے۔ آخرت میں بھی کسی سے دوسرے کے اعمال کا نہیں پوچھا جائے گا، بلکہ اس کی اپنی کمائی پوچھی جائے گی۔

اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو اور اسے انتشار سے بچائے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں