یہ رات مختصر ہے مری جان غم نہ کر
ہمارے وزیراعظم امریکا گئے اور جیسے گئے تھے ویسے ہی واپس آگئے۔
آخر مارے گئے ناں! وہ دوست جس کا ہم نے غلط انتخاب کیا تھا۔ اس نے آخر ہری جھنڈی دکھادی۔ خیر ہری جھنڈی تو ہمارا دوست عرصہ ہوا دکھاچکا ہے۔ اب تو ہم فٹ بال ہیں، اور وہ کھیل رہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف امریکا گئے تھے۔ نواز شریف قوم کا درد رکھنے والے وزیراعظم ہیں۔ اپنے طویل سیاسی کیریئر سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے، اب وہ اپنی غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ کافی بہتر سیاست کررہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حالیہ پانچ سالہ حکومت میں نواز شریف نے فرینڈلی اپوزیشن کی جب کہ میرا خیال ہے کہ نواز شریف نے بہت سمجھ بوجھ اور تدبر سے کام لیا۔ ورنہ ذرا سی لغزش سے جمہوریت کا پھانسہ پلٹ سکتاتھا اور ملک پھر سے آمریت کی گہری کھائی میں گرسکتاتھا۔ نواز شریف نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے برداشت کیے اور پانچ سال گزرنے کا انتظار کرتے رہے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں کیا کیا نہ ہوا۔ اب اسے کیا دھرانا۔ اس دور کو دیکھ دیکھ کر لوگ کہہ رہے تھے بقول جالب
یہ کون سی بستی ہے جہاں چاند نہ سورج
کس درجہ بری رات ہے، کس درجہ برا دن
ہمارے وزیراعظم امریکا گئے اور جیسے گئے تھے ویسے ہی واپس آگئے۔ ''عافیہ کی بات مت کرو، شکیل آفریدی کو رہا کرکے امریکا بھیج دو، ڈرون کا معاملہ امریکا کا معاملہ ہے، دیکھیںگے، مناسب ہوا تو کمی کردیںگے اور وہ جو اوباما اور نواز کی تنہائی میں باتیں ہوئی ہیں وہ اﷲ جانے یا یہ دونوں جانیں۔'' پاکستان بری طرح حالات کے جبر کا شکار ہے، یہ بڑی بات ہے کہ جیسے تیسے الیکشن ہوئے، فخرو بھائی نے کروادیے۔ ورنہ الیکشن ہونے کے آثار ہی نظر نہیں آرہے تھے۔ عوام فخر الدین جی ابراہیم کے علاوہ کسی پر اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ یہ فخرو بھائی ہی تھے کہ جنہوںنے ملک میں بروقت الیکشن کروادیے۔ اب جو الیکشن میں ہر جگہ دھاندلیاں سامنے آرہی ہیں تو یہ ناسور بہت پرانا ہے۔ شہری اور دیہی وڈیروں کے ہوتے ہوئے شفاف و منصفانہ الیکشن کہاں ہوسکتے ہیں! اس ناسور کا تیز دھار نشتر سے آپریشن لازمی ہے۔
الیکشن ہوئے اور تمام غیر قانونی وغیر آئینی حرکتیں ہوتی رہیں۔ بعض مقامات پر اسلحے کی کھلے عام نمائش اور برستی گولیاں، بیلٹ کا تقدس تار تار، جعلی ووٹوں سے بیلٹ بکس سرعام بھرے گئے اورکوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ الیکشن کے عملے کو اغوا کرکے غائب کر دیا گیا۔ کچھ جگہوں پر ایسا بھی ہوا کہ الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشن خالی پڑے تھے اور لوگ اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے لمبی لمبی قطاریں بنائے کھڑے تھے۔ یہ سب کچھ اور اس سے کہیں زیادہ بہت کچھ الیکشن 2013میں ہوا۔ میں نے کہا ناں کہ اس ناسور کے آپریشن کے لیے تیز دھار نشتر درکار ہے۔ ہمارا ملک جہاں ہر طرف اندھیروں کا راج ہے وہ کہتے ہیں ناں ''اندھیر نگری چوپٹ راج'' سدھار میں ابھی وقت لگے گا۔ طالبان کے ساتھ معاملات لٹکے ہوئے ہیں۔ آل پاکستان کانفرنس ہوئے دو ماہ ہونے کو آرہے ہیں، مشترکہ فیصلہ تھا کہ مذاکرات کیے جائیں، ممتاز علمائے کرام نے بھی طالبان سے ہتھیار پھینکنے کی استدعا کی تھی۔ مگر طالبان نے ان مثبت اقدامات کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیں۔ ادھر اپنے شہر کراچی میں آپریشن کلین اپ اختلافات کی زد میں ہے مگر جاری ہے۔ خصوصاً متحدہ قومی موومنٹ کے تحفظات ہیں۔ گینگ وار کارندے ٹھکانے لگ رہے ہیں، صفائی ہونی چاہیے، ورنہ خلفشار بڑھے گا،جرائم پیشہ عناصر منی پاکستان کی معیشت پر قبضہ کرلیں گے۔
خیال و خواب کی باتیں نہیں سپریم کورٹ صدائے بر حق بلند کررہی ہے۔کراچی کے تاجروں نے پولیس چیف شاہد حیات سے کہاہے کہ آپریشن تیز کیاجائے، ڈی آئی جی شاہد حیات چیمبر آف کامرس گئے تھے۔ 28اکتوبر کے اخباروں میں رینجرز کے بریگیڈیئر حامد کا بیان شایع ہوا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ اب کراچی شہر میں صرف شریف آدمی رہے گا۔ جرائم پیشہ عناصر یا تو شہر چھوڑ کر بھاگ جائیں گے یا ختم ہو جائیں گے۔ بریگیڈیئر حامد نے مزید کہاکہ جرائم پیشہ عناصر کے مکمل خاتمے تک آپریشنز جاری رہے گا اور ہمیں جان بھی دینا پڑی تو دریغ نہیں کریں گے۔ کراچی میں رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن جاری ہے۔ ادھر لیاری میں عذیر بلوچ اور بابا لاڈلہ کے لوگ آپس میں لڑرہے ہیں۔ دونوں طرف لوگ مررہے ہیں۔ لیاری کے رہنے والے اپنے گھروں میں بند ہوکر رہ گئے ہیں اور انسان تو انسان جانور بھی کئی روز سے فاقے کررہے ہیں۔ بار برداری پر معمور گدھے بھوکے دن رات گزار رہے ہیں۔سیاسی شعور سے معمور لیاری کا سیاسی قتل عام ہو رہا ہے، سلطانہ ڈاکو اس کے نجات دہندہ بن گئے۔یا اﷲ رحم کر!لیاری پر۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ''میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہا، مگر مسئلہ حل کیے بغیر مذاکرات میں ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے'' ڈاکٹر مالک نے امید کی کرن بھی دکھائی ہے اور کہاہے کہ ''سارا صوبہ بد امنی کا شکار نہیں ہے، بعض جگہ مسائل ہیں، لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی کم ہوا ہے، کوئٹہ میں ایف سی کی پچاس فیصد چیک پوسٹیں ختم کردی ہیں۔ انھوںنے یہ بھی کہاکہ صوبائی حکومت پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا جاسکتا اور مجموعی طورپر صوبے کے حالات بہتر ہیں۔
یہ ہیں ملک کے حالات، صوبہ خیبر پختونخوا، کراچی اور صوبہ بلوچستان میں معاملات ابھی بھی گمبھیر ہیں، مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، عوام با شعور ہیں اور جاگ رہے ہیں۔ آخر کار ملک پر چھائی رات گزر ہی جائے گی۔
گزشتہ ایک سال سے اپنے ابا کی تحریریں پڑھ رہا ہوں جو قلمی نسخہ جات کی صورت گھر میں پڑی تھیں اب ان تحریروں کو کتابی شکل دینے پر کام کررہاہوں۔ دوران مطالعہ بھائی حبیب جالب کی ایک نظم نظر سے گزری، موجودہ حالات میں حوصلہ دیتی ہوئی یہ نظم بڑا سہارا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ (نظم کے ساتھ تاریخ یکم نومبر1965ء لکھی ہے)
یہ رات مختصر ہے مری جان غم نہ کر
کیوں غم سے اس قدر ہے پریشان غم نہ کر
جاگے گی اہل درد کی تقدیر ایک دن
ٹوٹے گی اپنے پائوں کی زنجیر ایک دن
کب تک رہے گا، چاک گریبان غم نہ کر
یہ رات مختصر ہے
دن بے کسی کے بیت ہی جائیںگے جان جاں
روک آنسوئوں کو ایک سا عالم رہا کہاں
پہلو میں رکھ دبائے یہ طوفان غم نہ کر
یہ رات مختصر ہے
کب تک رہیںگے اپنے دیاروں سے ہم جدا
کہہ دو یہ ظالموں سے ہمارا بھی ہے خدا
ہوگا ضرور ظلم پشیماں، غم نہ کر
یہ رات مختصر ہے