بچوں کی شاعری
عقیل روبی خوش قسمت ہیں اور ہماری آپ کی داد کے مستحق کہ گائے ان کے نام کو نہیں چر سکی
اکیڈمی آف لیٹرز کو خدا خدا کر کے ایک سربراہ میسر تو آ گیا ہے۔ مگر یہ ادارہ اتنے عرصے تک بغیر سربراہ کے رہا ہے کہ رفتہ رفتہ ہی یاروں کو یقین آئے گا کہ اس کا واقعی کوئی سربراہ بھی ہے۔
اصل میں تو سابق چیئرمین فخر زماں کے ہوتے ہوئے ہی یار و اغیار کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اب اس ادارے کا سردھرا کوئی نہیں ہے۔ ان کی رسمی رخصتی کے بعد خالی کرسی دیکھ کر کسی کسی کا جی للچایا تو وہ بلاتکلف یہاں آن بیٹھا۔ بہر حال اب تو اس کا ایک چیئرمین بھی ہے۔ عبدالحمید صاحب اس کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ پیر مار تو رہے ہیں۔
مگر درمیان میں ایک حادثہ گزر گیا۔ ادھر کتنے ادیب تمغۂ حسن کارکردگی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ 14 اگست کو جب انعام یافتہ ادیبوں کے ناموں کا اعلان ہوا تو تمغۂ حسن کارکردگی والی مد میں بس ایک ادیب کا نام جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا۔ وہ تھا عقیل روبی کا نام۔ باقی آس لگانے والوں میں سے کسی کا نام نظر نہیں آ رہا تھا۔
ہم نے عبدالحمید صاحب سے پوچھا تھا کہ اب تو اکیڈیمی بے وارث نہیں ہے۔ خیر سے آپ اس کے سردھرے ہیں۔ تمغہ ٔ حسن کارکردگی سے آپ کے امیدوار محروم کیسے رہ گئے۔ کہنے لگے کہ ہم نے تو فائل بھیج دیا تھا۔ مگر وہ کہیں رستے ہی میں دب گیا یا دبا دیا گیا۔ پیش ہی نہیں ہوا۔
بس پھر تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ آں دفتر را گاؤ خورد۔ اس فائل کو کسی ظالم گائے نے چر لیا۔ عقیل روبی خوش قسمت ہیں اور ہماری آپ کی داد کے مستحق کہ گائے ان کے نام کو نہیں چر سکی۔
خیر کوئی بات نہیں۔ 14 اگست اگلے برس پھر آئے گی۔ مے باقی و ماہتاب باقی۔
ہاں اکیڈمی نے اپنے جی اٹھنے کا ایک ثبوت فراہم کیا ہے۔ اپنے سہ ماہی رسالہ'ادبیات' کا ایک ضخیم خصوصی نمبر شایع کیا ہے۔ بچوں کا ادب نمبر (حصۂ نظم)۔ خیر اس خصوصی نمبر کی معنویت و اہمیت تو ہماری سمجھ میں آتی ہے۔ مگر اس سے پہلے جو اکیڈمی نے موٹے موٹے نمبر شایع کیے تھے ان کی معنویت اتنی اجاگر نہیں ہوئی۔ اردو غزل' نظم' نثر کے انتخاب پیش کرنے میں زیادہ ہلدی پھٹکری نہیں لگتی۔
رسالوں کو الٹیے پلٹیے ڈھیر ساری غزلیں، ان گنت نظمیں، قطار اندر قطار کہانیاں چھپی نظر آئیں گی۔ آنکھیں بند کر کے مٹھی مٹھی بھر غزلیں نظمیں لیجیے اور خصوصی شاعری نمبر میں انڈیل دیجیے۔ شاعری کا خصوصی نمبر تیار ہو گیا۔ یہی عمل افسانہ خصوصی نمبر کی تیاری کے سلسلہ میں دہرایا جا سکتا ہے۔ یہ کام مشکل اس صورت میں ہوتا ہے جب اس ڈھیر میں سے سچ مچ لائق انتخاب دانے چننے کی کوشش کی جائے۔ باقی رواں انتخاب تو آئے دن شایع ہوتے رہتے ہیں۔ اکیڈمی کے منتخبات کی امتیازی صفت یہی رہی ہے کہ وہ بہت ضخیم ہوتے ہیں۔
مگر بچوں کے ادب کے انتخاب کی اپنی اہمیت ہے۔ یہ شکایت عام ہے کہ ادب کے اس شعبے پر ہمارے یہاں بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ یہ شکایت بجا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ کہانی کی مد میں تو بس ایک قدیم شاہکار سے ہم استفادہ کرتے رہے ہیں۔ قدیم ہندوستان میں ایک پنڈت وشنو شرما نام کا گزرا ہے۔ اس نے اپنے زمانے کے راجہ سے یہ عہد کیا تھا کہ راجکماروں کو ایسا کچھ پڑھاؤں سکھائوں گا کہ وہ چھ مہینے کے اندر اندر ساتوں ودیاؤں میں پیرے ہوئے نظر آئیں گے اور اس نے یہ کر دکھایا۔
اسی چکر میں چھوٹی موٹی کہانیوں کی وہ کتاب لکھی گئی جسے پنچ تنتر کہتے ہیں۔ یہی پنچ تنتر عربی اور فارسی میں گئی تو ان کہانیوں نے عربی عجمی چولا پہن لیا۔ اردو میں یہ کہانیاں اسی وسیلے سے آئیںاور اسی چولے میں آئیں۔ تو ہم بالعموم ان کہانیوں کو دہراتے ہیں اور اپنے بچوں کو سناتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہی ہو رہا ہے ا ور تو اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے ماہر تعلیم نے ان کہانیوں کی افادیت کو جانا اور کتنی کہانیوں کو انھوں نے اپنی سادہ اردو میں لکھا ہے۔
شاعری کے نام ہم نے ایک شاعر البتہ پیدا کیا جس نے اپنی شاطرانہ صلاحیت کو بچوں کے لیے وقف کر دیا۔ بچوں میں گھل مل کر ان کی پسند نا پسند کو جانا۔ بس سمجھ لو کہ ان کے دل و دماغ میں اتر کر ان کی نفسیات کو سمجھا اور پھر ایسی نظمیں لکھیں کہ اب انھیں بچوں کے ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے بعد بچوں کی شاعری ہوئی ہی نہیں۔ اس انتخاب پر نظر ڈالیں ہمارا کیسا کیسا شاعر بچوں کے لیے نظمیں کہتا نظر آئے گا۔ سب سے بڑھ کر تو علامہ اقبال ہیں جنہوں نے بچوں کے بیچ بچہ بن کر ایسی دعا لکھی ہے کہ وہ بچوں کی شاعری میں کلاسیک کا درجہ حاصل کر گئی ہے۔
پھر نظیر اکبر آبادی سے چل کر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم تک آئیے' اختر شیرانی کو پڑھیے' قیوم نظر کی نظموں کو دیکھئے، حفیظ جالندھری' ابن انشاء' ابصار عبدالعلی' ڈاکٹر توصیف تبسم کی نظمیں پڑھئے۔ کس کس شاعر نے بچوں کے نام کیا کیا گل کھلایا ہے۔ ارے ہاں جاوید احمد غامدی نے کیا خوب نظم لکھی ہے کہ اسمعیل میرٹھی یاد آ جاتے ہیں۔
آئو بچوں سیر کو جائیں/من کے کھیت میں پھول کھلائیں
چڑیا گانا گاتی دیکھیں/بلبل راگ سناتی دیکھیں
پتی پتی پر گل کاری/جیسے بنو کی عماری
اس کے ہاتھ میں ایک کٹورا/صبح کی صورت گورا گورا
اور یہ ہیں ظفر اقبال ؎
کچا ہو یا پکا رستہ/سب سے اچھا سیدھا رستہ
اور یہ ہیں نسرین انجم بھٹی ؎
دن تو شاید منگل تھا/سوتا سارا جنگل تھا
کوے تیتر اور بٹیر/بولے دیکھو ہوئی سویر
ڈال سے کودا بندر ایک/نہر کو جیسے لگی بریک
ہاں ان نظموں میں دوسری پاکستانی زبانوں کی نظموں کے اردو ترجمے بھی تو ہیں۔ حسام حر کی ہند کو میں لکھی ایک نظم کا اردو ترجمہ جو انھوں نے خود کیا ہے۔
یہ لکڑی کا بندر دیکھو/شوخی اس کے اندر دیکھو
یہ پریوں کی رانی دیکھو/یہ بھوتوں کی نانی دیکھو
فیاض کی سندھی نظم اردو ترجمے میں
چاندی کا کٹورا/میں بھی ہوں چٹورا
نیلے نیلے پھول/رانی گئی روٹھ
نسیم اختر نے سرائیکی میں نظم لکھی اس کا اردو ترجمہ
اسی ایک اکاسی/بلی تیری ماسی
چوہا تیرا نانا/نکال میرا آنا
آنا تیرا کھوٹا/باپ تیرا موٹا
یہ تو ہوئی بچوں کی کھری شاعری' باقی دو شاعر بھی ہیں جنہوں نے ناصحانہ نظمیں لکھی ہیں۔
تو یہ مناسب انتخاب ہے جو محمد عاصم بٹ اور اختر رضا سلیمی نے کیا ہے۔ مگر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ انھوں نے بعض شاعروں کی نمایندہ نظمیں کیوں نظر انداز کر دیں۔ مثلاً علامہ اقبال کی بچوں کی دعا' صوفی تبسم کی ٹوٹ بٹوٹ' نظیر کی بچوں والی نظمیں۔
بہر حال اکیڈمی کا منصوبہ یہ ہے کہ بچوں کا ادب تین جلدوں میں پیش کیا جائے۔ ایک جلد پہلے چھپ چکی ہے۔ اس میں بچوں کے بین الاقوامی ادب سے انتخاب پیش کیا گیا تھا۔ تیسرے شمارے میں نثری تحریریں پیش کی جائیں گی۔