سندھ اسمبلی کی 12 کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دیے جانے کا امکان

ماحولیات، کھیل، اقلیتی امور، ترقی نسواں، صنعت و تجارت اوردیگر محکموں کی قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ دی جا سکتی ہے


وکیل راؤ November 29, 2019
اپوزیشن جماعتوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ نہ ملنے پر کسی بھی قائمہ کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کیا تھا، ذرائع

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کو8ماہ گزرنے کے بعد قائمہ کمیٹیوں کا حصہ بننے کا خیال آ گیا، پی ٹی آئی،ایم کیوایم اور جی ڈی اے نے سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کا حصہ بننے سے انکار کیا تھا جب کہ 12 قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اپوزیشن جماعتوں کو دیے جانے کا امکان ہے۔

رواں سال مارچ میں پیپلزپارٹی نے اپوزیشن جماعتوں کو داخلہ، خزانہ، تعلیم، خوراک، بلدیات ،ورکس اینڈ سروسز، قانون جیسے اہم محکموں کی قائمہ کمیٹیوں کی پیشکش کی تھی تاہم اپوزیشن جماعتوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ نہ ملنے پر کسی بھی قائمہ کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا، ماحولیات، لائیو اسٹاک، کھیل و امور نوجوانان، اقلیتی امور، مائنر اینڈ منرل، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، ثقافت، ترقی نسواں، انفارمیشن ٹیکنالاجی،کچی آبادی، صنعت وتجارت، جیل خانہ جات، سماجی بہبود، خصوصی تعلیم سمیت دیگر محکموں کی قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ دیے جانے کا امکان ہے۔

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں پاکستان تحریک انصاف،متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ارکان سندھ اسمبلی نے بالآخر8 ماہ کی تاخیر کے بعد اب سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کا حصہ بننے پرآمادگی ظاہر کردی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان مختلف محکموں کی قائمہ کمیٹی میں شامل ہوںگے۔

امکان ہے کہ 12 قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو دی جائے گی اس سے قبل مارچ 2019میں پیپلزپارٹی کی جانب سے پاور شیئرنگ فارمولہ کے تحت اپوزیشن جماعتوں کو 14قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کی پیشکش کی گئی تھی تاہم اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بنانے پر اپوزیشن جماعتوں نے قائمہ کمیٹیوں کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا، اس کے برعکس حکمراں پیپلزپارٹی، تحریک لبیک پاکستان اور ایم ایم اے ارکان نے سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے الیکشن میں حصہ لیا اور 20 قائمہ کمیٹیوں میں ارکان کو شامل کیاگیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر اپوزیشن ارکان 8 ماہ قبل قائمہ کمیٹیوں کا حصہ بنتے اور حکومت کے پاور شیئرنگ فارمولے کو قبول کرتے تو پارلیمانی فوائد کے ساتھ حکومتی کارکردگی پر قائمہ کمیٹیوں کے ذریعے نظر بھی رکھ سکتے تھے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں