بات ہے انداز فکر کی…

ایک اخبار میں ملالہ یوسف زئی پر بیک وقت چار مضامین شایع ہوئے، جن میں دو ملالہ کے حق میں اور دو مخالفت میں تھے۔


نجمہ عالم October 25, 2013

16 اکتوبر کو اردو کے ایک اخبار میں ملالہ یوسف زئی پر بیک وقت چار مضامین شایع ہوئے، جن میں دو ملالہ کے حق میں اور دو مخالفت میں تھے۔ ایک مثبت کالم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں وحشت کی علامت بالخصوص پاکستان کو دہشت میں مبتلا کرنے والے ایک چھوٹی سی لڑکی سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ بار بار اپنے اس خیال کا اعادہ کر رہے ہیں کہ وہ جب بھی موقع ملا ملالہ کو ضرور ہلاک کرینگے۔ کالم نگار کا موقف ہے کہ طالبان کی گولی سے ملالہ اسی وقت ہلاک ہوسکتی تھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس کو جس مقصد کے لیے تخلیق کیا اس مقصد کے حصول کے لیے اس کو بچا بھی لیا اور ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے آگے کسی جابر سے جابر انسان کی نہیں چلتی تو یہ طالبان کیا چیز ہیں؟ وہ ملالہ کے اس قاتلانہ حملے میں بچ جانے کو معجزہ قرار دیتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ طالبان کی ملالہ کو ختم کرنے کی کوشش نے اس کو ایک بین الاقوامی شخصیت بنادیا، اس وقت وہ پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول اور جانی پہچانی شخصیت ہے۔ صاحب مضمون کا خیال ہے کہ ملالہ کا قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے علاوہ اس کا اعتماد، پرسکون رویہ اور اس کا اعلیٰ مقصد حیات ہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے اس کو عالمی شہرت یافتہ شخصیت بنادیا ہے۔

ملالہ کے حق میں لکھے گئے دوسرے کالم میں نوبل انعام نہ ملنے پر کچھ افسوس کا اظہار کیا گیا ہے مگر یہ بھی کہا گیا کہ نوبل انعام کے لیے ملالہ کی اتنی کم عمری میں نامزدگی بھی ایک بڑے ایوارڈ سے کم نہیں ہے جب کہ وہ کچھ ہی عرصہ پہلے یورپی یونین کا سخاروف ہیومن رائٹس ایوارڈ کے علاوہ اور کئی عالمی ایوارڈز بھی حاصل کرچکی ہے۔ ملالہ کی عالمی سطح پر پذیرائی اور نوبل انعام کے لیے نامزدگی پاکستان اور اس کے عوام کے لیے زبردست اعزاز کی بات ہے۔ اس طرح ملالہ نے پاکستان کا نام روشن ہی نہیں کیا بلکہ وہ دنیا بھر میں ''دختر پاکستان'' کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملالہ نے پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں پھیلے تمام منفی اور گمراہ پروپیگنڈے کو زائل کرکے پاکستان کے بارے میں مثبت رویے کو جنم دیا ہے اور آج دنیا کو معلوم ہوچکا ہے کہ پاکستان میں جہاں ایک طرف کرائے کے دہشت گرد ملک کی بدنامی کا باعث ثابت ہورہے ہیں وہاں ملالہ جیسی بہادر اور جرأت مند لڑکی بھی ہے جو دنیا بھر میں تعلیم اور روشن خیالی کی علامت بن گئی ہے۔

ملالہ کے خلاف لکھے گئے دو کالمز میں سے ایک میں ملالہ کے مقابلے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو زیادہ اہم، مظلوم اور قابل توجہ قرار دیتے ہوئے ان کی داستان کو بے حد وحشیانہ اور قابل رحم بتایا گیا ہے۔ عافیہ صدیقی پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور بالآخر ایک طویل قید کی سزا بھی دی گئی۔ سوال یہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ملالہ آج پاکستان کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی سب سے زیادہ مشہور شخصیت وہ بھی اتنی کم عمری میں قرار پائی، طرح طرح کے اعزازات و انعامات سے نوازی گئی۔ دنیا کی بڑی بڑی شخصیات اس سے ملاقات کرنے کو اہم قرار دے رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کوئی تحریر اپنے مقصد اعلیٰ اور بہترین انداز بیاں کے باعث ادب عالیہ کے درجے پر فائز ہوتی ہے اسی اصول کے تحت شخصیات بھی اہم اور غیر اہم قرار پاتی ہیں، مطلب یہ کہ ملالہ کا مقصد حیات کیا ہے؟ اور اس کا اپنے مقصد کے حصول کے لیے انداز کیسا ہے؟ اگر اس نکتے کو مدنظر رکھیں تو ملالہ کو ملنے والی شہرت کا کچھ ادراک ممکن ہے۔ یہ بات میں ملالہ کو منفی انداز میں پیش کرنیوالوں کے لیے لکھ رہی ہوں۔

دوسرے کالم میں کالم نگار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بعض پاکستانی ملالہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ ابتدا میں لوگوں نے ملالہ سے ہمدردی ضرور کی اور اس کی صحت یابی کے لیے دعاگو بھی تھے مگر جب سے وہ ''پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ بنی لوگ اس سے بدگمانی کرنے لگے''۔ یہ بات صاحب تحریر کو نجانے کون سے سروے، کون سی رائے شماری اور کن اعداد و شمار کے ذریعے معلوم ہوئی کہ پاکستانی ملالہ سے نفرت کرتے ہیں (وہ ذرایع آخر ہماری پہنچ سے کیوں دور رہے؟) اپنے اس مفروضے کو درست ثابت کرنے کے لیے انھوں نے کئی افراد کی مثالیں پیش کیں (مگر ہم صرف ایک دو پر ہی اکتفا کریں گے) ان کا خیال ہے کہ اندرے سخاروف جوکہ روسی سائنسدان تھے بلکہ روس کے ایٹمی پروگرام کا انھیں بانی بھی کہا جاسکتا ہے ایک مرحلے پر ان کو احساس ہوا کہ روس کے ایٹمی ہتھیار امن عالم کے لیے بڑا خطرہ ہیں لہٰذا جب سخاروف نے یہ خیال پیش کیا بقول کالم نگار اس نے اپنی قوم و ملک سے بغاوت کی تو وہ مغرب کا بے حد چہیتا بن گیا اور طرح طرح کے اعزازات و انعامات کے بعد نوبل امن انعام کا بھی حقدار قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ موصوف نے جرمن صحافی کالرون کی بھی مثال پیش کی کہ جب اس نے ہٹلر کے اقدامات کی مخالفت کی تو اس کی بھی اپنی حکومت اور اپنی قوم سے بغاوت پر عزت افزائی کی گئی اور نوبل انعام بھی دیا گیا۔ صرف ان دو مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں کو اپنی قوم یا ملک سے بغاوت نہیں بلکہ بنی نوع انسان سے وفاداری قرار دوں گی کیونکہ ان دونوں نے انسان کی ہلاکت کے خلاف یعنی بنی نوع انسان کی بقا کی جدوجہد پر یہ انعام حاصل کیے۔

بات اپنوں سے بے وفائی یا بغاوت کی نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت سے وفاداری کی ہے اگر اپنے انسانیت کو نقصان پہنچا رہے ہوں۔ انسان کو ہلاکت کی راہ پر ڈال رہے ہوں تو پھر وہ اپنے ہوتے ہوئے بھی خود ہمارے دشمن ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہم جیسے دیگر انسانوں کے علاوہ خود ہماری پیٹھ میں بھی ذرا سے اختلاف پر چھرا گھونپ سکتے ہیں لہٰذا ایسے درندہ صفت اپنوں کے خلاف ہونا بغاوت نہیں سعادت قرار دی جائے گی۔ اس لکھنے والوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنی صلاحیت کو تخریبی کے بجائے تعمیری انداز میں پیش کریں۔ روشن خیالی وسعت قلب فلاح انسانی کو اختیار کریں۔ ہمارا ملک تعصب، غیر متوازن انداز فکر، جہالت اور ہر بات کی من مانی توضیح کے باعث پہلے بہت نقصان اٹھاچکا ہے اور مزید کسی تباہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اسلام دنیا کا سب سے ترقی پسند، وسیع النظر ہر دور اور ہر زمانے کے ساتھ چلنے والا دین ہے۔ اس دین کو پسماندگی، وحشت و بربریت کے ہم معنی اور حقوق انسانی کے منافی قرار دے کر ہم اس کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کے دین کی معاذ اﷲ بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اسلام ہر طرح کے تعصب اور بنی نوع انسان سے نفرت کے خلاف ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ اپنے دین کو چھوڑو مت دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو مت۔ اس کی واضح اور اعلیٰ مثال مدینہ کی مسلم ریاست ہے جہاں دوسرے مذاہب کے افراد کی جان و مال کے محافظ بھی خود مسلمان تھے۔ اسلام کو اتنی خوفناک شکل میں پیش کرنے والوں نے یا تو تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ نہیں کیا یا پھر حضورؐ کے اسوہ حسنہ کو مدنظر نہیں رکھا تب ہی تو وہ غیر مسلموں کو واجب القتل باآسانی قرار دیتے ہیں۔ بہرحال سارے فساد کی جڑ لاعلمی اور جہالت ہے۔ اگر کھلے دل و دماغ سے اسلام کو سمجھا جائے تو سب پر زندگی نہ صرف آسان ہوجائے بلکہ اﷲ کی رحمت و نعمت سے استفادہ بھی ممکن ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں