مسئلے کا دوسرا حل
1969 میں جب گجرات کا پورا صوبہ مسلمانوں کے خلاف اس فساد کے بھونچال سے لرزرہا تھا۔
ISLAMABAD:
1969 میں جب گجرات کا پورا صوبہ مسلمانوں کے خلاف اس فساد کے بھونچال سے لرزرہا تھا جو احمد آباد میں ہوا تھا اور جس میں دو ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے، انڈین سول سروس کے افسر موسیٰ رضا کو ایک خطرناک صورتحال کا سامنا ہوا انھیں اطلاع ملی کہ ان کے ضلع کے ایک شہر بلیموریہ کے سات اہم لیڈروں نے جو سب خوش حال تاجر اور زمیندار تھے، شہر میں عام ہڑتال کرنے اور ایک بڑا جلوس نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ صوبے میں کشیدگی کا جو ماحول تھا اس کے پیش نظر اس قسم کی ہڑتال اور بڑے جلسے جلوس کے بھیانک نتائج نکل سکتے تھے۔
موسیٰ رضا نے اپنے انڈین سول سروس کے دنوں کے کچھ واقعات لکھے ہیں۔ ان کی کتاب کا ترجمہ پاکستان کے معروف بیوروکریٹ شاہ محی الحق فاروقی نے کیا ہے۔ موسیٰ رضا نے بلیموریہ کے اس واقعے کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے، جو یوں ہے۔ ''غلام حسین ایک نوجوان آدمی تھا جو شہر میں کرائے کی دکان چلاتا تھا۔ ایک روز سہ پہر کے وقت ایک بنیے کی لڑکی کچھ خریدنے غلام حسین کی دکان پر آئی۔ غلام حسین نے اسے چھیڑنے اور دست درازی کرنے کی کوشش کی۔ لڑکی روتی ہوئی اپنے گھر واپس گئی اور والدین کو اس معاملے سے آگاہ کیا۔ لڑکی کا باپ چینی بھائی کپڑے کا معمولی بیوپاری تھا۔ پہلے تو اس نے پولیس میں رپورٹ درج کرانے کا سوچا، پھر اپنی بیوی کے سمجھانے پر کہ اس سے بدنامی ہوگی اور لڑکی کی زندگی تباہ ہوجائے گی اس سے باز رہا لیکن وہ چاہتا تھا کہ غلام حسین کو اس کی حرکت کی سزا ضرور ملے۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کے بڑے لوگوں کے پاس گیا۔
انھوں نے چینی بھائی کی موجودگی میں غلام حسین کو بلوایا اور اس سے پوچھ گچھ کی۔ جب انھیں یقین ہوگیا کہ اس کا قصور ہے تو پہلے تو ان لوگوں نے اس کی خوب پٹائی کی حتیٰ کہ اس کی ایک دو ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں اور پھر اس کو شہر سے نکال دیا۔ چینی بھائی مطمئن ہوگئے اور ان کے نزدیک معاملہ ختم ہوگیا لیکن ان کی برادری کے چند خود ساختہ لیڈروں کے نزدیک ختم نہیں ہوا۔ وہ غلام حسین کو نہیں شہر کے مسلمانوں کو اس کی سزا دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے شہر میں گھوم گھوم کر لوگوں کے جذبات بھڑکانے اور احمد آباد اور بڑودہ کی طرح پلسر کے ضلع میں بھی فرقہ وارانہ فسادات کرانے کے لیے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ حاکم ضلع موسیٰ رضا کو جب ہڑتال کے اعلان کی خبر ملی تو وہ فوراً بلیموریہ پہنچے۔ پولیس کے مقامی سربراہ کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ جب یہ واقعہ ہوا تھا تو اس کا مقدمہ کیوں نہیں درج کیا۔ اس نے کہاکہ لڑکی کے باپ نے شکایت ہی نہیں کی، مقدمہ خود بخود کیسے درج ہوتا۔ جواب صحیح تھا۔ اب موسیٰ رضا نے چینی بھائی کو بلایا اور ان سے کہاکہ وہ رپورٹ درج کرائیں تاکہ غلام حسین کو گرفتار کرکے سزا دلوائی جائے، چینی بھائی نے صاف انکار کردیا بلکہ لکھ کر بھی دے دیا کہ وہ کوئی کارروائی اس معاملے میں نہیں کرنا چاہتے۔ لڑکی کو کچھ ہوا نہیں۔''
موسیٰ رضا کہتے ہیں ''اب میں نے ان سات تاجروں کو بلایا جنہوںنے ہڑتال کی اپیل کی تھی اور معاملے کی تمام تفصیلات بتاکر ان سے کہاکہ آپ ہڑتال کیوں کرنا چاہتے ہیں اور جلوس کیوں نکالنا چاہتے ہیں۔ ایسے جلوس کے نتائج خراب ہی نکلیںگے۔ ظاہر ہے تمام دکانیں بند کرانے کی کوشش کی جائے گی، پتھر پھینکے جائیںگے۔ آخری نتیجہ آتش زنی اور بلوے کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ پھر آپ لوگ دیکھیے انتظامیہ نے قانون کے دائرے میں رہ کر جو کچھ کرسکتی تھی وہ کردیا۔ لڑکی کے باپ کو مجبور تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ رپورٹ درج کرائے سب سے بڑی بات یہ کہ مسلمانوں کے لیڈروں نے قانون ہاتھ میں لے کر اس نوجوان کو پوری سزا دے دی۔ اس کا کاروبار ختم ہوگیا، اسے شہر سے نکال دیا گیا۔ اب اس سے زیادہ کیا کیا جاسکتا تھا۔ ان تاجروں میں سے ایک نے کہاکہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن ہمارے جذبات کا کیا ہوگا وہ تو بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ اس کے اظہار کے لیے ہم نے ہڑتال کی اپیل کی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ایک مسلمان لڑکا ایک ہندو لڑکی کے خلاف دست درازی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا ایسے موقع پر ہمیں خاموشی اختیار کرلینا چاہیے؟ کیا ہم احتجاج کرنے کے لیے جلوس بھی نہ نکالیں؟''
موسیٰ رضا نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ یہ ذمے داری لیتے ہیں کہ ہڑتال پر امن رہے گی تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری ذمے داری نہیں ہے۔ امن قائم رکھنا انتظامیہ کی ذمے داری ہے۔
ہڑتال کی اپیل واپس لینے کے لیے موسیٰ رضا کی تمام درخواستیں لاحاصل ثابت ہوئیں تو انھوں نے فیصلہ کیاکہ اب ان سے کسی اور طریقے سے نمٹنا پڑیگا چنانچہ انھوں نے اپنے دفتر ٹیلی فون کرکے اپنے افسروں کی ایک ٹیم بلائی۔ ان میں مال گزاری، ہتھیاروں کے لائسنس، ضلع میں مال کی سپلائی اور جائیداد ٹیکس وغیرہ کے محکموں کے افسر شامل تھے۔ موسیٰ رضا نے ان سے میٹنگ کی اور انھیں ہدایت کی کہ ان ساتوں تاجروں کی جنہوں نے ہڑتال کی اپیل کی ہے، جائیداد اور کاروبار کے معاملات کی تفصیلی چھان بین کریں اور ان میں جو خامیاں نظر آئیں ان کی نشان دہی کریں۔ موسیٰ رضا کو یقین تھا کہ یہ سب دولت مند لوگ ہیں اور ان کی بہت کچھ بدعنوانیاں ظاہر ہوںگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ موسیٰ رضا کے عملے کو ان لیڈروں کے کاغذات میں ایسے بہت سی بدعنوانیاں مل گئیں جو انھیں کئی سال تک مقدموں میں الجھائے رکھنے کے لیے کافی تھیں۔ وہ لوگ ٹھہر گئے اور راتوں رات ان سب لیڈروں کے خلاف نوٹس تیار کردیے۔
موسیٰ رضا کہتے ہیں ''دوسرے روز صبح میں نے ان سب تاجروں کو ایک بار پھر بلایا اور اس مرتبہ ان کو اپنے دفتر میں الگ الگ طلب کیا۔ میں نے ان سے کہا دیکھو تم اپنی ہڑتال اور جلوس کا یہ سلسلہ جاری رکھو اور اس کے نتیجے میں جو آتش زنی اور ہلاکتیں ہوں اس کی ذمے داری بھی مت قبول کرو، تم نے کہا ہے کہ نظم وضبط قائم رکھنا انتظامیہ کی ذمے داری ہے لیکن میری ذمے داری صرف ہڑتال ہی کے دنوں میں نظم و ضبط قائم رکھنا نہیں ہے۔ کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ کل رات تمہاری دکانوں پر چھاپہ پڑا تھا؟ ہمارے پاس پورا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ ایک نوٹس ہے، میں مزید تحقیقات مکمل ہونے تک تمہاری دکان بند کرنے کا حکم دے رہا ہوں اور یہ تحقیقات ہڑتال کے بعد ہوگی۔
''لیکن سر! یہ تو بلیک میلنگ ہے۔ ہم عدالت میں جائیںگے۔ انھوں نے غصے سے کہا۔''
''میں نے کہاکہ تم عدالت میں جاسکتے ہو، لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ میرے پاس کافی ثبوت موجود ہیں چونکہ حکومت تو ہائی کورٹ تک مقدمہ لڑے گی۔ اس وقت تک تمہارے کم از کم دو لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہوںگے اور پھر اس اثنا میں تمہارا کاروبار بھی تو تباہ ہوجائے گا۔''
''اس طرح میں نے ایک کے بعد دوسرے ہر تاجر کو بلاکر اس کے جرائم سے اسے آگاہ کیا پھر انھیں سوچنے کا وقت دیا اور ان سے آخری بار درخواست کی کہ وہ ہڑتال نہ کریں۔ اب انھیں میری درخواست کی خوبیاں سمجھنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ انھیں فوراً احساس ہوگیا کہ ہڑتال سے شہر کی تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ وہ ہڑتال واپس لینے پر رضامند ہوگئے اور اپنی حد تک میں اس بات پر رضامند ہوگیا کہ اپنے احکام کو فی الحال ملتوی کردوں اور قطعی فیصلہ کرتے وقت امن قائم رکھنے کے سلسلے میں ان لوگوں کے جذبہ تعاون کو ذہن میں رکھوں۔''