ایکسپریس اور اردو کی عالمی کانفرنس
انور مسعود نے ایکسپریس کے زیر اہتمام لاہور کی تاریخ کے یادگار مشاعرے میں حاضرین سے داد حاصل کی۔
JOHANNESBURG:
شین اور قاف کسی طور ہو بہتر میرا
کسی حیلے مرے لہجے کی درستی ہو جائے
کس قدر صحت لفظی کا ہے لپکا مجھ کو
پان کھاتا ہوں کہ اردو مری شُستی ہو جائے
مندرجہ بالا اشعار معروف شاعر انور مسعود نے حال ہی میں ایکسپریس کے زیر اہتمام لاہور کی تاریخ کے یادگار مشاعرے میں سنا کر حاضرین سے داد حاصل کی۔ یہ مشاعرہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے تحت ہونے والی اردو کی دوسری عالمی کانفرنس کے موقعے پر منعقد کیا گیا تھا۔ بلاشبہ اس کاوش پر ایکسپریس میڈیا گروپ انتہائی مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے حقیقتاً ایک مثبت میڈیا گروپ ہونے کا نہ صرف ثبوت دیا بلکہ پوری ذمے داری سے ایک اہم ایشو پر اپنی خدمات پیش کیں۔
آج کے دور میں اردو کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد نے اس ضمن میں ہم سب کے ذہنوں کو ایک بار پھر بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس ملک میں اردو کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو ہو رہا ہے وہ کسی سانحے سے کم نہیں ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں ان وجوہات میں سے ایک کا ثبوت کچھ ہی روز قبل راقم کو اس وقت ہوا جب ایک سیمینار میں اردو زبان سے ایک اہم شخصیت کی ''خاص محبت'' دیکھی۔ یہ سیمینار قائد اعظم کی مسلم لیگ کی رکنیت کے 100 سال کی تکمیل کے موقعے پر منعقد ہوا تھا جس میں سید شریف الدین پیرزادہ ایڈووکیٹ نے خصوصی خطاب کیا۔ شریف الدین پیرزادہ کی پاکستان کی قومی زبان اردو سے ایسی ''خاص محبت'' دیکھنے میں آئی کہ انھوں نے اپنی پوری تقریر میں ایک جملہ بھی اردو کا استعمال نہ کیا، حتیٰ کہ جب ایک طالب علم نے ان سے تقریب کے آخر میں سوالات کرنے کے دوران کہا کہ اس کے سوالوں کا جواب اردو میں دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، تب بھی شریف الدین پیرزادہ صاحب نے انگریزی زبان ہی میں بات کی اور طالب علم کی درخواست کے باوجود اردو میں جواب نہیں دیا۔
پیرزادہ سابق آنریری سیکریٹری قائد اعظم، سابق وزیر خارجہ پاکستان اور سابق وفاقی وزیر قانون و انصاف رہ چکے ہیں۔ اسی تقریب میں خواجہ رضی حیدر، سابق صدر قائد اعظم رائٹرز گلڈ پاکستان اور سابق ڈائریکٹر قائد اعظم اکیڈمی نے اپنے خیالات کا اظہار اردو زبان میں کیا اور پروفیسر شریف المجاہد نے بھی اظہار خیال اردو زبان میں کیا۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم معین قریشی اپنی تقریر کے لیے انگریزی زبان کو ترجیح دیتے تھے ان کے بارے میں کئی باتیں مشہور ہوئیں (واللہ علم صداقت کہاں تک ہے) بہر کیف سنا ہے کہ انگریزی زبان میں تقریر اس لیے کرتے تھے کہ انگریزی زبان استعمال کرنے سے صحافی حضرات آڑے ترچھے سوال کم کرتے تھے، معلوم نہیں ان کو یہ گر کس نے بتایا، بہرحال یہ بھی سنا کہ جب وہ پاکستان آئے تو پاکستانی پاسپورٹ اور شیروانی بھی ایئرپورٹ پر فراہم کی گئی۔
اردو کو پاکستان کی قومی زبان بہت پہلے ہی بنا دیا جانا چاہیے تھا مگر شاید حکمرانوں میں ایسی ذہنیت کے لوگ براجمان تھے جو اردو کو نوکروں کی زبان تصور کرتے تھے۔ یہ خیال بھی خاصا وزن رکھتا ہے کہ ملک اور قوم کی ترقی کو روکنے کے لیے بھی اردو کو سرکاری زبان بنانے کی مخالفت کی گئی۔ جو بھی وجوہات ہوں یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ اگر اردو سرکاری زبان بن جاتی تو عوام کو بہت سے فوائد اور سہولتیں میسر آ جاتی ہیں۔ جس ملک میں طلبہ کی بھاری اکثریت انگریزی کے پرچے میں فیل ہو کر میٹرک نہ کر پائے وہاں مقابلے کے امتحان میں صرف انگریزی میڈیم سے پڑھنے والے طلبہ ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کئی برسوں قبل بھی اس موضوع پر راقم نے کالم لکھا تھا کہ خدارا! مقابلے کا امتحان اردو زبان میں بھی لیا جائے تا کہ تمام غریبوں کے بچے بھی اہم سرکاری عہدوں تک پہنچ سکیں۔ ایم ایم اے کی سابقہ حکومت نے صوبہ پختونخوا میں سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لینے کا اعلان کیا تھا یہ سلسلہ دیگر صوبوں تک دراز ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا۔
بعض لوگ زبان کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں حالانکہ زبان ایک ذریعہ اظہار ہے جس سے آپس کے خیالات کا تبادلہ ممکن ہوتا ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر سیمینار میں مقررین صرف اور صرف انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ حاضرین میں تمام کے تمام پاکستانی ہی ہوتے ہیں۔ یہاں ایک قابل تعریف بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ بائیں بازوؤں کی جماعتوں کی جانب سے راقم نے جب بھی مزدوروں کے عالمی دن یا کسی اور حوالے سے سیمیناروں میں شرکت کی وہاں تمام مقررین کو اردو زبان ہی میں اظہار خیال کرتے دیکھا۔
پروفیسر توصیف احمد خان، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کو بھی مختلف تقاریب میں ہمیشہ اردو ہی میں بات کرتے دیکھا بہ نسبت دیگر مقررین کے، البتہ غیر ملکی مہمانوں کی موجودگی میں انگریزی کو ضرور اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔
دفتری زبان انگریزی ہونے کے باعث عام لوگوں کو جن میں شرح خواندگی بھی کم ہو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا اس کا اندازہ انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے نہیں کر سکتے۔ عدالتی کارروائیوں اور جائیداد کی خرید و فروخت کے کاغذات وغیرہ سب ہی انگریزی میں لکھے دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا سوچیے ایک عام شخص جو اردو زبان بھی بمشکل پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے بھلا انگریزی میں لکھے معاہدوں کو کیسے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے؟ ایک چپڑاسی جو اردو میں خط بھی مشکل سے لکھتا ہے، اس کو تقرری اور ترقی وغیرہ کے خط بھی انگریزی میں دیے جاتے ہیں اور وہ بے چارہ خط لیے لوگوں کی منتیں کرتا پھرتا ہے کہ کوئی اسے مطلب سمجھا دے۔ انگریزی میں عدالتی کارروائیوں یا جائیدادوں کے کاغذات پر لکھی زبان کو نہ سمجھنے کے باعث سادہ لوح افراد کو دھوکا دینا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ تمام چھوٹی بڑی میڈیکل رپورٹس بھی ایسی پیچیدہ انگریزی زبان میں لکھی ہوتی ہیں کہ عام انگریزی پڑھنے والا بھی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کم پڑھے لکھے کا کیا حال ہو گا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
جس طرح کوئی اسپیڈ بریکر کسی استوار سڑک پر ٹریفک کی روانی کو توڑ دیتا ہے ویسے ہی انگریزی زبان کا سرکاری سطح پر استعمال ملکی ترقی کی رفتار کو توڑ رہا ہے لیکن ہم بے خبر ہیں اور نہ جانے کب تک بے خبر رہیں گے۔
بہرکیف ایکسپریس میڈیا گروپ لائق تحسین ہے کہ اس نے عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کر کے اردو کی اور اس ملک کی حقیقی خدمت کی ہے۔