مشاعرہ ایک خوبصورت اور زندہ ادبی روایت
مشاعرہ اردو زبان اور ادب کے حوالے سے برصغیر پاک و ہند کے بیشتر علاقوں میں ایک تہذیبی روایت کا درجہ رکھتا ہے۔
مشاعرہ اردو زبان اور ادب کے حوالے سے برصغیر پاک و ہند کے بیشتر علاقوں میں ایک تہذیبی روایت کا درجہ رکھتا ہے۔ گورے اس سے ملتی جلتی ایک محفل کو Poetry Recitation کا نام دیتے ہیں جس میں ایک یا چند ایک شاعر پچاس ساٹھ منٹ تک کم و بیش اتنے ہی حاضرین کو اپنا کلام سناتے ہیں جسے اگرچہ بہت توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے مگر داد صرف نظم کے ختم ہونے پر چند ہلکی اور فرمائشی سی تالیوں کے ساتھ ہی دی جاتی ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں یہ صورت حال بالکل بدل جاتی ہے۔ مشاعرے میں کلام سنانے والوں کی تعداد پندرہ بیس سے لے کر ستر اسی تک بلکہ بعض صورتوں میں اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح مشاعرے کا دورانیہ بھی دو سے لے کر چھ سات گھنٹوں تک ہوتا ہے۔ جہاں تک داد کا تعلق ہے تو وہ ہر شعر بلکہ مصرعے پر دی جا سکتی ہے۔ کلام پسند آنے پر تالیاں اس زور اور کثرت سے بجائی جاتی ہیں کہ ان کو سن کر اکثر سیاستدان اس بات پر افسوس کرنے لگتے ہیں کہ انھوں نے اپنے لیے غلط شعبہ کیوں چن لیا۔
یہ اور بات ہے کہ مشاعرے میں تالیوں کا رواج گزشتہ چند دہائیوں سے عام ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے تحسین اور داد کے لیے چند مخصوص توصیفی کلمات ''واہ واہ'' اور ''مکررارشاد'' ہی ادا کیے جاتے تھے۔ اس مکرر ارشاد پر ایک حسب حال قسم کا لطیفہ نما واقعہ بہت سے قارئین کے لیے شاید نیا یا ان سنا ہو لہٰذا بیان کیے دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ایک مشاعرے میں ایک جرنیل صاحب کو کرسی صدارت پر بٹھا دیا گیا جو شاید زندگی میں پہلی بار کسی مشاعرے میں شریک ہو رہے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ حاضرین کے مکرر ارشاد کہنے پر شاعر اپنے شعر کو دہرانا یعنی دوبارہ سے پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک بزرگ شاعر سے پوچھا کہ یہ ''مکرر ارشاد'' کیا ہوتا ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ''دوبارہ پڑھیے'' اس پر جرنیل صاحب نے مائیک ہاتھ میں لیا اور سامعین سے مخاطب ہو کر بولے، یہ ''شاعر'' صاحب تمہارے باپ کے نوکر نہیں جو بار بار تمہیں ایک ہی شعر سنائیں، پہلی بار دھیان سے کیوں نہیں سنتے؟''
''مشاعرے کا موضوع آج اس لیے کالم میں جگہ پا گیا کہ حال ہی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کی عالمی اردو کانفرنس کے آخر میں ایک محفل مشاعرہ بھی ترتیب دی گئی تھی جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور بیرون ملک سے آئے ہوئے نمائندہ شاعروں نے اپنا کلام سنایا اور محفل کو خوب خوب گرمایا لیکن اس کے ذکر سے پہلے مشاعرے کے حوالے سے ایک بہت دلچسپ پیروڈی کا تذکرہ بھی ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ میر تقی میرؔ کے نام سے ایک شعر بہت مشہور ہے۔
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
اب اس میں لفظ ''مقابلہ'' کو ''مشاعرہ'' سے بدل کر پڑھیئے تو یہ شعر کچھ یوں ہو جائے گا کہ ''مشاعرہ تو دل ناتواں نے خوب کیا''
اور اب ایکسپریس میڈیا والوں نے اس مصرعے کی شکل کچھ اس طرح سے کر دی ہے کہ ''مشاعرہ تو میاں ایکسپریس نے خوب کیا!''
بہت دنوں بعد لاہور میں کئی اعتبار سے ایک بہت اچھا مشاعرہ ہوا کہ نہ تو اس میں شاعروں کی تعداد حد سے زیادہ تھی نہ ہی سامعین میں ایسے بے ذوق اور تماش بین قسم کے لوگ تھے جو کسی بھی محفل کا حسن رضاکارانہ طور پر غارت کر دینے کی فطری صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کا دورانیہ ایسا تھا کہ نوبت فجر کی اذانوں تک پہنچ جائے۔ آواری ہوٹل کے خورشید محل ہال میں ایک وسیع اسٹیج پر شاعروں کے لیے 26 کرسیاں دو قطاروں میں رکھی گئی تھیں جب کہ اسٹیج سیکریٹری یعنی مشاعرے کے میزبان سعود عثمانی اور کلام پڑھنے والے شاعر کے لیے دو کرسیاں علیحدہ سے سجائی گئی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے قریباً 25 برس پہلے جب پہلی بار ہم نے ''مشاعرہ جشن بہار'' میں روایتی چاندنیوں اور گائو تکیوں کی جگہ اسٹیج پر کرسیاں رکھوائیں تو بعض قدامت پسند (میرے نزدیک وہ روایت پسند جو وقت کے ساتھ رونما ہونے والی فطری تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتے انھیں قدامت پسند ہی کہنا زیادہ مناسب ہے) احباب نے بہت شور مچایا کہ ایسا کرنا اس عظیم تہذیبی روایت کے ساتھ ظلم ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اس تہذیبی روایت میں تو سامعین بھی زمین پر بیٹھا کرتے تھے۔
سو اگر آپ کے کرسیوں پر بیٹھنے سے ''روایت'' نہیں ٹوٹی تو شاعروں کو کرسیوں پر بٹھانے سے بھی کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے جس زمانے میں فرشی محفلیں ہوا کرتی تھیں اس وقت ہمارے گھروں اور مل بیٹھنے کی کرسیوں پر بھی ایسا فرنیچر (مثلاً چوکیاں، پیڑھیاں، تخت پوش اور کم اونچائی والی نشست گاہیں) استعمال ہوتا تھا جس سے بیٹھنے والوں کی ٹانگوں، گھٹنوں اور ٹخنوں وغیرہ کے جوڑ اور مسلز میں لچک رہتی تھی اور لوگ کئی کئی گھنٹے آسانی سے فرش پر بیٹھ سکتے تھے اب ایسا نہ ہونے اور اس کی جگہ آرتھرائٹس، شوگر اور موٹاپے وغیرہ کی زیادتی کی وجہ سے شعرأ کے لیے دیر تک بیٹھنا تکلیف دہ حد تک مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سو اگر انھیں بھی آرام دہ نشستیں مہیا کر دی جائیں تو اس سے آپ کا کچھ نقصان نہیں ہو گا اور بہتوں کا بھلا ہو جائے گا۔
شاعروں کو ڈنر کے دوران بتایا گیا کہ سامعین کی کثیر تعداد جمع ہو چکی ہے اور اس سے پہلے (HALL) کی کھڑکیاں اور دروازے ان کی بے تابی کے مظہر بن جائیں آپ لوگ آ جائیے، مشاعرے کی میزبانی کے فرائض سعود عثمانی کے سپرد تھے جو اس منظر کو بیک وقت خوشی اور تشویش کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ سیٹیں کم پڑ جانے کی صورت میں مشاعرے کا ماحول خراب بھی ہو سکتا تھا لیکن منتظمین نے اس کی نوبت نہیں آنے دی اور بر وقت اضافی کرسیوں کا انتظام کر دیا۔ مشاعرے میں کل 26 شعرأ نے کلام سنایا جسے باذوق سامعین نے بہت توجہ اور دلچسپی سے سنا اپنی پسند کا اظہار بڑے پر جوش انداز میں کیا اور اگر کسی شاعر نے بوجہ انھیں اپیل نہیں کیا تو اس کو بھی انھوں نے بڑے سلیقے اور مروت کے ساتھ سنا، یہ اور بات ہے کہ اس طرح کے مواقعے بہت ہی کم تھے سو ان کا زیادہ وقت پر جوش تالیاں بجانے اور داد و تحسین کے کلمات ادا کرنے میں ہی گزرا۔ سعود عثمانی نے بڑے اچھے طریقے سے ابتدا ہی میں شعرأ سے یہ درخواست کر دی کہ وہ صرف دو دو منظومات پیش کریں تا کہ مشاعرہ اپنے وقت پر ختم ہو سکے اور اس پابندی کا آغاز انھوں نے خود اپنے کلام سے کیا (جو غالباً سب سے صحیح اور مناسب طریقہ تھا) اور داد اور فرمائش کے باوجود اپنے اعلان کی پاسداری کی۔
یوں تو بیشتر شعرأ نے خوب خوب داد سمیٹی لیکن سب سے زیادہ داد صابر ظفر' انور شعور، ڈاکٹر خورشید رضوی اور انور مسعود نے سمیٹی عوامی جمہوریہ چین سے آئے ہوئے مہمان شاعر چانگ شی شوان (جو اُردو میں انتخاب عالم کے نام سے لکھتے ہیں) کو ان کے کلام اور لہجے دونوں کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا جب کہ تین یا چار شاعروں کے استثنیٰ سے قطع نظر بقیہ تمام شاعروں کو بھی سامعین نے دل کھول کر داد دی۔
اس مشاعرے کے کامیاب انعقاد سے کئی اور باتوں کے علاوہ اس امید اور یقین کو بھی تقویت ملی کہ ذرائع ابلاغ کی تمام تر گوناگونی اور کثرت کے باوجود اب بھی اچھے شعر کہنے اور سننے والوں کی تعداد میں کوئی بہت زیادہ کمی نہیں آئی اور اگر مشاعرے کی روایت کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اور اس کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھایا جائے تو یہ مٹی اب بھی بہت زرخیز ہے ساقی۔