بیٹھنااعتکاف میںمیرا
آج سے پچاس سال پہلے میں اعتکاف میں بیٹھا تھا۔
ہمارے گھر میں مذہبی ماحول پہلے ہی سے موجود تھا۔ ہمارے ابّا صوفی عنایت اﷲ اپنے نام کے ساتھ قادری چشتی بھی لکھتے تھے۔ سن بلوغت کو پہنچتے پہنچتے جو داڑھی کے بال آئے پھر تادم آخر کبھی داڑھی نہیں منڈوائی ، تہجد گزار پنج وقتہ نمازی تھے۔ گھر میں صبح تلاوت قرآن پاک سے ہوتی تھی۔ ابّا اور امّاں اپنی اپنی چارپائیوں پر قرآن پاک پڑھتے نظر آتے تھے۔ نماز فجر کے بعد تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے قرآن پاک اور وظیفہ قادریہ کے ورد میں گزرتے تھے درود تاج بھی پڑھا جاتا تھا اور پھر اس تمام عبادت و ریاضت کا دم کیا پانی ابّا سارے گھر والوں کو پلاتے تھے۔
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور اسی ناتے ابا، اماں سے زیادہ قریب تھا۔ جب میں آٹھویں جماعت میں آیا تو گھر کے قریب واقع مسجد میں اذان بھی دینے لگا تھا۔ یہ زمانہ 1962-63 کا تھا اور ہم لاہور کی مضافاتی بستی ساندہ میں رہتے تھے (اب تو ساندہ شہر کا مرکز بن گیا ہے) ہم اس بستی میں ایک کمرے والے چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، جس کا ماہانہ کرایہ تیس روپے تھا۔ بس ایک فقرہ مزید لکھتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف لوٹ آئوں گا کہ اسی 30 روپے ماہانہ کرائے کے مکان کے ایک مکین حبیب جالب نے وقت کے بادشاہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان اور اس کے خوف ناک گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ سے ''متھا'' لگا لیا تھا، درویش شاعر نعرۂ بغاوت بلند کر چکا تھا ''میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا'' یہ نظم ہوچکی تھی۔
دسمبر 1963 میں رمضان آئے تھے۔ میں اس وقت درجہ دہم کا طالب علم تھا، ہمارے گھر کے قریب واقع چھوٹی سی مدینہ مسجد میں اعتکاف کا مرحلہ آن پہنچا۔ سارے نمازی، چھوٹے ملازم پیشہ یا محنت مزدوری والے تھے۔ لہٰذا قرعہ فال میرے نام پر نکلا کہ اس جوان بچے کو اعتکاف میں بٹھادیا جائے۔ میں نے بھی خوشی خوشی یہ فیصلہ قبول کر لیا ہمارے ابّا بھی اس فیصلے پر بہت خوش تھے اور یوں میں اعتکاف میں بیٹھ گیا۔ گاؤں کا سناٹا، دسمبر کی سردیاں اور چھوٹی سی مسجد کے ایک کونے میں میرا بستر لگا دیا گیا۔ مدینہ مسجد کے متولی حاجی ثقلین صاحب ثروت آدمی تھے، ان کے عزیز رشتے دار ملک ظہور دین و دیگر کے عالیشان کشادہ مکانات تھے۔ اور یہ سب قریب قریب ہی رہتے تھے ۔ ان ہی کے ایک رشتے دار رفیق منزل والوں کے ہم کرایہ دار تھے۔
یہ اعتکاف کی پہلی رات تھی، رات گئے بھائی جالب صاحب گھر لوٹے تو حسب عادت دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے مجھے آواز دی ''سعید اوئے، سعید اوئے'' میں تو مسجد میں تھا اور خلاف معمول ابا جی نے دروازہ کھولا تو بھائی نے ابا سے پوچھا ''آپ کیوں اٹھے، سعید کہاں ہے؟'' ابا جی نے بھائی سے کہا ''اندر آجا سعید مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہے'' یہ سننا تھا کہ بھائی جالب صاحب ساری چوکڑی بھول گئے اور بولے '' ہیں!! رات کے دو بج رہے ہیں اور بچہ اکیلا مسجد میں بیٹھا ہے۔'' یہ کہا اور مسجد کی طرف دوڑ لگا دی۔ ادھر میں لحاف لیے بے خود سو رہا تھا کہ مسجد کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا بھائی مجھے پکار رہے تھے۔
سعید! سعید! دروازہ کھول! دروازہ کھول! ایک ہنگامہ برپا تھا۔ مسجد کے متولی حاجی ثقلین صاحب بھی گھر سے باہر آگئے، مسجد کے مولانا حضرات نے مسجد کا دروازہ کھولا اور بھائی جالب میرے پاس آئے، ان کے پیچھے ہی والد صاحب بھی آگئے۔ اب بھائی صاحب مجھ سے پوچھ رہے ہیں ''اوئے سعید! تم بولتے کیوں نہیں، تم خاموش کیوں ہو؟'' اور ابا ان کو سمجھا رہے ہیں ''اوئے حبیب! یہ اعتکاف میں ہے یہ کسی سے بات نہیں کرے گا، اس نے دس دن عبادت میں گزارنے ہیں۔
یہ بہت بڑی سعادت ہے'' اباجی، بھائی جالب کو سمجھا رہے تھے مگر بھائی صاحب کی سمجھ میں یہ سب کچھ بالکل نہیں آرہا تھا ، حاجی ثقلین امام مسجد مولانا عبدالعزیز کی باتیں بھی جالب بھائی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ یہ پورا واقعہ تفصیلاً میں اپنی کتاب ''گھر کی گواہی'' میں لکھ چکا ہوں، خیر آخر ہماری والدہ صاحبہ نے ہی صورت حال کو سنبھالا اور اپنے بیٹے حبیب کو دو لگائیں اور ڈانٹ کر گھر لے آئیں۔ اور پھر یوں ہوا کہ ہر روز افطاری سے پہلے بھائی جالب پھل، پکوڑے مٹھائی شربت لے کر مسجد آتے میرے ساتھ روزہ کھولتے اور پھر یہ پوچھ کر چلے جاتے ''اب کتنے دن رہ گئے''۔
آج سے پچاس سال پہلے میں اعتکاف میں بیٹھا تھا۔ ان دس دنوں میں، میں نے پورا قرآن پڑھا اور خاص بات یہ کہ حضرت مولانا احمد رحمۃ اﷲ علیہ کے رسالے ''خدام الدین'' تقریباً سو ڈیڑھ سو بار پڑھ ڈالے۔ یہ اپنے زمانے کا بہت اہم اور مقبول مذہبی رسالہ تھا۔ اور مولانا احمد علی صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا پرتو رسالے کا معیار تھا۔ مولانا کا ذکر ہو رہا ہے تو بس ایک واقعہ بیان کیے دیتا ہوں۔
مولانا کے مقام و مرتبہ کا چرچہ ہر سو تھا، گورنر نواب کالا باغ ان کے پاس گئے اور کہا کہ میرے بیٹے کی شادی ہے اور نکاح آپ نے پڑھانا ہے۔ مولانا نے گورنر صاحب کو صاف انکار کردیا کہ میں نکاح نہیں پڑھائوں گا اور شہر میں بڑے مولوی موجود ہیں کسی سے بھی یہ کام کروالو۔'' انکار سن کر نواب کالا باغ نے مولانا سے کہا ''حضرت مولانا! نکاح آپ ہی پڑھائیں گے ورنہ میں بیٹے کی شادی نہیں کروں گا۔'' اس پر مولانا احمد علی نے چند شرائط رکھیں اور اپنی رضا مندی کا اظہار کیا شرائط یہ تھیں ۔
1۔ میں اپنی سواری پر گورنر ہاؤس آؤں گا جہاں باہر سڑک پر صرف آپ میرے استقبال کے لیے موجود ہوں گے۔
2۔ میں کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں لوں گا۔
3۔ نکاح پڑھا کر میں فوراً رخصت ہوجاؤں گا۔
گورنر صاحب نے یہ تینوں شرطیں منظور کرلیں اور مولانا کرائے کے تانگے میں گورنر ہاؤس پہنچے، نواب کالا باغ گورنر ہاؤس کے بڑے دروازے کے باہر اکیلے سڑک پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ مولانا، نواب صاحب کے ساتھ گئے نکاح پڑھایا اور واپسی کی اجازت چاہی، گورنر صاحب نے حضرت مولانا سے کہا کہ '' جنرل ایوب خان بیٹھے ہیں ان سے ملاقات کرلیں۔'' مولانا نے صاف انکار کردیا اور واپس چلے آئے۔ انھی مولانا احمد علی رحمتہ اﷲ علیہ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مولانا عبیداﷲ انور جو خود بھی بہت صاحب کردار اور صاحب علم شخصیت کے مالک تھے ان کا اور جالب کا واقعہ آیندہ کالم میں بیان کروں گا۔
پچاس سال پہلے کا اعتکاف یوں یاد آیا کہ مجھے اس سال دوسری مرتبہ اعتکاف میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی کراچی شہر کے علاقے ایڈمنسٹریشن سوسائٹی کی مسجد اویس قرنی میں سترہ معتکف حضرات تھے۔ پھر وہی دن رات ویسے ہی گزرے، نو دن میں قرآن پاک پڑھ لیا، تہجد، اشراق، چاشت نمازیں، پانچوں نمازیں باجماعت، سحر و افطار سب کچھ ہوا۔ اباجی، اماں بہت یاد آئے، دونوں بڑے بھائی، مشتاق مبارک اور حبیب جالب بہت یاد آئے۔ یہ اعتکاف اپنی جگہ مگر وہ گائوں کی چھوٹی سی مدینہ مسجد کا پہلا اعتکاف میں کبھی نہیں بھولوں گا ۔ سب کا بھلا سب کی خیر۔